بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا اہل
پاکستان پر احسان عظیم ہے کہ انہوں برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک آزاد ،
خودمختار ریاست کے قیام کے لئے بھر پور جدوجہد کی، اور اپنی ساری زندگی اسی
جدوجہد میں وقف کردی ۔قائد اعظم محمد علی جناح ایک عہد آفرین شخصیت، عظیم
قانون دان، بااصول سیاستدان اور بلند پایہ مدبر تھے، ان میں غیر معمولی قوت
عمل اور غیر متزلزل غرم، ارادے کی پختگی کے علاوہ بے پناہ صبر و تحمل اور
استقامت و استقلال تھا۔ انہوں نے اپنی اٹل قوت ارادی، دانشورانہ صلاحیتوں،
گہرے مدبرانہ فہم و ادراک اور انتہائی مضبوط فولادی اعصاب اور انتھک محنت
سے مسلمانان پاک و ہند کے گلے سے صدیوں کی غلاموں کا طوق ہمیشہ کے لئے
اتارا اور مسلمانوں کو حصول پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کر کے انہیں آزادی کی
جدوجہد میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کی راہ پر راغب کیا۔جس کے نتیجے
میں برصغیر کے مسلمان مسلم لیگ کے جھنڈے تلے یکجا ہوئے۔ مولانا حسرت علی
موہانی فرماتے کہ وہ پاکستان بننے سے پہلے قائداعظم سے ملنے کے لیے ان کی
رہائش گاہ پر پہنچے تو ملازم نے معذرت کی وہ کسی اہم کام میں مشغول ہیں اور
وہ اس وقت ان سے نہیں مل سکتے۔ اس دوران انہوں نے مغرب کی نماز گھر کے باہر
لان میں ادا کی اور اس کے بعد ٹہلنے لگے اسی دوران وہ کوٹھی کے برآمدوں میں
گھومنے ہوئے ایک کمرے کے پاس سے گزرے تو انہیں ایسا لگا کہ قائد کسی سے
گفتگو کر رہے ہیں۔ مولانا حسرت موہانی فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ
’’اندر کمرے میں فرش پر مصلیٰ بچھا ہوا تھا۔ اور قائداعظم باری تعالیٰ کے
حضور مسلمانوں کی فلاح و بہبود ، حصول آزادی، اتحاد، تنظیم اور پاکستان کے
قیام کے لئے گڑگڑا کر التجا کر رہے تھے‘‘ ۔ قائد اعظم کی دعا اور بھر پور
جدوجہد کی بدولت آخر کارتحریک آزادی رنگ لائی اور انگریزوں کو ہندو مسلم
علیحدہ قومیت یعنی دو قومی نظریہ تسلیم کرنا پڑا ۔ اور 3 جون 1947ء کو
ہندوستان کے آخری وائسرائے اور گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے آل انڈیا
ریڈیو سے تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان کیا۔ جبکہ یہ ایک امر حقیقی ہے کہ
برصغیر کے مسلمانوں کی طرف سے شروع کی جانے والی جدوجہد آزادی کے مختلف
مراحل پر کسی بھی مسلمان رہنما کو اپنی قوم کی طرف سے اطاعت شعاری کا وہ
جذبہ اور مظاہرہ نصیب نہیں ہوا جو بابائے قوم کو حصول پاکستان کے لیے کی
جانے والی بے لوث اور شبانہ روز جدوجہد کے دوران میسر آیا۔
پر عزم جدوجہد آزادی کے ساتھ ساتھ بانی پاکستان کی صحت گرتی رہی ، قائد
اعظم محمد علی جناح1930 ء سے تپ دق کے مرض کا شکار چلے آرہے تھے اور اس
بیماری سے متعلق صرف ان کی بہن اور چند قریبی ساتھی جانتے تھے مگر بانی
پاکستان نے بیماری کی حالت میں بھی جدوجہد آزادی کا کوئی جلسہ ترک نہیں کیا
۔ قیام پاکستان کے صرف ایک سال ایک ماہ بعد بانی پاکستان کی وفات ایک ایسا
قومی المیہ ہے جس کے اثرات آج تک محسوس کئے جا رہے ہیں، کیونکہ قیام
پاکستان کے بعد قوم کو درپیش سنگین مسائل کے حل اور اندرونی و بیرونی
سازشوں سے نمٹنے کیلئے قائداعظم کی رہنمائی کی اشد ضرورت تھی۔ اور بھارت کی
اثاثوں کی تقسیم میں ریشہ دوانیوں، باؤنڈری کمیشن کی غیرمنصفانہ کارروائیوں
(جن کے نتیجے میں کشمیر کے تنازعہ نے جنم لیا) اور دیگر ناگزیر حالات کی
وجہ سے ملکی آئین کی تدوین اور ملک کی مختلف اکائیوں کے مابین بنیادی
معاملات پر اتفاق رائے کے حصول میں جو تاخیر ہوئی وہ قائد کی وفات کی وجہ
سے مزید الجھ گئے۔ قائداعظم کی زندگی میں نہ تو سول اور خاکی بیوروکریسی کو
جمہوری اداروں اور سیاسی نظام میں دخل اندازی کا موقع ملتا اور نہ ملک کے
مختلف سیاسی و مذہبی طبقات اور جغرافیائی اکائیوں میں اختلاف کی خلیج گہری
ہوتی، کیونکہ قوم کے بھرپور اعتماداحترام اور عقیدت کے علاہ خداداد بصیرت
کی وجہ سے قائد اعظم نہ صرف اتحاد و یکجہتی کی علامت تھے بلکہ مسائل کو حل
کرنے کی صلاحیت سے بھی مالامال تھے۔ بانی پاکستان قائداعظم نے پہلی دستور
ساز اسمبلی سے خطاب میں فرمایا ’’اگر ہم عظیم مملکت پاکستان کو خوشحال
بنانا چاہتے ہیں تو پوری توجہ لوگوں بالخصوص غیر طبقہ کی فلاح و بہبود پر
مرکوز کرنی پڑے گی،ہر شخص خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو اس کا رنگ ،
نسل ، مذہب کچھ بھی ہو اول اور آخر مملکت کا شہری ہے۔ اس کے حقوق مراعات
اور ذمہ داری مساوی اور یکساں ہے‘‘۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ قائداعظم کے
بتائے ہوئے اصول و ضوابط پر سختی سے عمل پیرا ہو کر وطن عزیز کی تعمیر و
ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا جائے، تا کہ ہمارا یہ پیارا وطن معاشی ترقی
و استحکام حاصل کر کے وہ مقام حاصل کرسکے جس کا خواب شاعر مشرق علامہ محمد
اقبال نے دیکھا تھا ، اور جس کی تکمیل کے لئے مسلمانوں کے عظیم رہنما قائد
اعظم محمد علی جناح نے جدوجہد کی تھی۔ |