مراد رسولﷺ ،امیر المومنین حضرت عمربن خطاب رضی اﷲ عنہ

آپ کااسم گرامی عمر ،کنیت ابوحفص اور لقب فاروق ہے۔آپ کے والد کانام خطاب ہے اور آپ کا تعلق قریش کی شاخ بنوعدی سے ہے ۔حضرت عمربن خطاب رضی اﷲ عنہ نبوۃ کے پانچویں یا چھٹے سال اسلام لائے ۔اس اعتبارسے آپ چالیسویں (40) مسلمان ہیں ۔آپؓ نے نبی آخرالزماں حضرت محمد عربی ﷺ سے 539روایات نقل کی ہیں ۔

سلسلہ نسب عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداﷲ بن قرط بن زراع بن عدی بن کعب بن لوی بن فہر بن مالک تھا ۔آپ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں جاکرحضورﷺ سے ملتا ہے۔ آپ 583ء میں پیداہوئے۔عرب ماحول میں تربیت حاصل کی ۔اونٹ چرائے اور فن سپہ گری میں بھی دسترس حاصل تھی۔شہسواری اور پہلوانی میں بھی مقام حاصل تھا۔آپ کے گھرانے میں سب سے پہلے آپ کے بہنوئی حضرت سعدؓاور پھر بہن فاطمہ ؓنے اسلام قبول کیااس کے بعد آپ نے نبوت کے چھٹے سال 27برس کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ ایک مرتبہ رسول اﷲﷺنے رب سے التجاکی کہ یااﷲ اپنے دین کی مضبوطی کے لئے یاتوہشام کا بیٹادے دے یاخطاب کابیٹادے دے۔نبی کریمﷺکی دعاقبول ہوئی اﷲ پاک نے خطاب کے بیٹے کوچن لیا۔ امیرِشریعت حضرت مولاناسیدعطاء اﷲ شاہ بخاریؒ فرمایاکرتے تھے کہ تمام صحابہ مُرید رسولﷺہیں مگر حضرت عمرؓ مراد رسولﷺ ہیں۔ آپ کے اسلام لانے پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اورآپ کو مبارک دی اور فرمایا کہ آسمان والے ایک دوسر ے کوعمرکے اسلام لانے کی خوشخبریاں سنا رہے ہیں۔

ہجرت نبوی کے کچھ عرصہ بعدحضرت عمر ؓنے بیس افراد کے ساتھ ا علانیہ مدینہ کو ہجرت کی ۔ تمام غزوات میں حصہ لیا۔634ء میں خلافت کے منصب پہ فائزکیے گئے۔644ء تک اس عہدہ پر کام کیا،آپ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت کی حدود 22لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھیں ۔آپ کے اندازِحکمرانی کودیکھ کر ایک غیر مسلم یہ کہنے پہ مجبور ہوگیاکہ اگر عمرؓ کو 10سال خلافت کے اور ملتے تو دنیا سے کفر کانام ونشان مٹ جاتا۔ حضرت عمر ؓکازمانہ خلافت اسلامی کی فتوحات کا دور تھا۔اس میں دو بڑی طاقتوں ایران وروم کو شکست دے کرایران عراق اور شام کو اسلامی سلطنتوں میں شامل کیا۔بیت المقدس کی فتح کے بعدآپ خودوہاں تشریف لے گئے۔

ایک دفعہ ایک یہودی اور ایک منافق کا جھگڑاہوامنافق ظاہراًمسلمان تھااس نے کہا کہ رسول اﷲ ﷺ کے پا س ہم اپنا جھگڑالے کے جاتے ہیں جوفیصلہ وہ کریں گے ہم دونوں منظورکرلیں گے ۔دونوں نبی کریم ﷺ کے پاس گئے اور نبی کریم ﷺنے دونوں کی بات سنی اور فیصلہ اس یہودی کے حق میں فرمادیا۔ اس منافق نے کہا کہ ہم اپنا جھگڑا حضرت عمر ؓکے پاس لے کے چلتے ہیں چنانچہ حضرت عمر ؓکے پاس گئے اس یہودی نے کہا کہ ہمارے درمیان فیصلہ آپ کے پیغمبرﷺ نے کر دیا ہے ۔جب حضرت عمر ؓ نے یہ سناتو آپ اپنے گھر گئے اور اندر سے تلوار لے کے آئے اور فرمایا جومیرے نبیﷺ کے فیصلے کو نہیں مانتا اس کا فیصلہ عمرؓ کی تلوار کرتی ہے حضرت عمر ؓنے تلوار چلائی اوراس منافق کا سر تن سے جدا کر دیاجب اﷲ کے رسولﷺکو اس بات کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے فاروق کا لقب عطاکیا (یعنی حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والا)

جب آپ ؓخلیفہ بنے تو آپ راتوں کو اٹھ کر مدینہ کی گلیوں میں پہرادیا کرتے تھے تاکہ معلوم ہوسکے کہ رعایاکوکوئی تکلیف تونہیں۔لوگ آرام سے سوتے مگرحضرت عمرؓاپنی نیندکورعایاکے سُکھ پہ قربان کر دیتے۔ ایک رات حسبِ معمول آپ ؓ گشت پرتھے کہ ایک قافلہ کو دیکھاجس نے شہر سے باہر پڑاؤڈالاہواتھاآپ نے سوچاکہ قافلہ والے تھکے ہارے ہوئے ہوں گے کہیں ایسا نہ ہو کہ چور ان کے سامان کاصفایا کردے۔
حضرت عمر فاروق ؓ کے انصاف کی یہ حالت تھی کہ جب آپ ؓ کا انتقال ہواتو آپ کی سلطنت کے دوردرازعلاقے کا ایک چرواہابھاگتا ہوا آیا اورچیخ کر بولا۔لوگو!حضرت عمرؓکا انتقال ہوگیاہے۔لوگوں نے حیرت سے پوچھا کہ تم مدینہ سے ہزاروں میل دور جنگل میں ہو۔تمہیں اس سانحہ کی اطلاع کس نے دی ؟۔چرواہا بولا!جب تک حضرت عمر فاروق ؓزندہ تھے میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف پھرتی تھیں اور کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اُٹھاکر نہیں دیکھتاتھالیکن آج پہلی بار ایک بھیڑیامیری بھیڑکابچہ اٹھاکرلے گیا۔ میں نے بھیڑیے کی جرات سے جان لیاآج دنیامیں عمر فاروق ؓموجود نہیں ہیں چنانچہ ان لوگوں نے جب تحقیق کی تو پتاچلاکہ اِسی روز حضرت عمرؓ کاانتقال ہواہے ۔

حضرت عمرؓ سال کے سال حج کو تشریف لے جاتے تھے اور حج کے دنوں میں اپنے ولاۃ وعمال کو مکہ مکرمہ بلاتے تھے تاکہ ان کے کاموں کا جائزہ لیں اور صوبوں کے معاملات کی تدبیرو تنظیم میں ان کی راہنمائی کریں ۔معمول کے مطابق وہ اس سال 23ھ میں بھی حج کو گئے ۔امہات المومنین ؓ ہمراہ تھی ۔جب ارکان حج سے فارغ ہوئے اور منیٰ سے چلے تو ابطح میں اپنا اونٹ بٹھا یا ۔سنگریزے جمع کرکے ایک چبوترہ سابنایا اور اس پر اپنی چادر کا کنارہ ڈال دیا ۔پھر اس کے بعد اس پر چت لیٹ گئے اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر کہنے لگے ’’یا اﷲ !میری عمر زیادہ ہوگئی ہے ،ہڈیاں نرم پڑگئی ہیں ،قوتیں جواب دے رہی ہیں اور رعایا پھیل گئی ہے ۔اب مجھے اپنے پاس بلا لے ،اس حال میں کہ میرا دامن عجزوملامت سے پاک ہو‘‘۔

ابن سعدنے طبقات میں روایت کی ہے کہ حضرت عمرؓ نے حج سے واپس آتے ہی جمعے کے دن مدینہ منورہ میں ایک عام خطبہ دیا اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا’’لوگو!میں نے ایک خواب دیکھا ہے جسے میں اپنی موت کا پیام سمجھتا ہوں ۔میں نے دیکھا کہ ایک لال رنگ کے مرغے نے مجھے دو ٹھونگیں ماری ہیں ‘‘پھر کہا ’’لوگو!تم پر احکام فرض کردیے گئے ،تمہارے لئے قانون حیات مرتب کردیا گیا اور تمہیں ایک کھلے راستے پر ڈال دیا گیا ۔اب یہ اور بات ہے کہ تم لوگوں کو ادھر اُدھر بھٹکاؤ ‘‘۔اسی طرح خطبے کا وہ حصہ بھی وصیت سے بہت مشابہ ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا ’’کلالہ سے زیادہ میرے نزدیک کوئی اہم مسئلہ نہیں۔میں نے رسول اﷲ ﷺ سے جتنی بار کلالہ کے متعلق گفتگو کی ہے کسی اور چیز کے متعلق نہیں کی ۔میں نے جب سے رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونا شروع کیا ہے آپﷺ نے جتنی ناراضی کا اظہار کلالہ کے بارے میں فرمایا ہے اور کسی چیز کے بارے میں نہیں فرمایا یہاں تک کہ میرے پیٹ میں انگلیاں چبھوکر مجھ سے فرمایا ’’عمر!سورۃ النساء کی آخری آیت کو اپنے لئے کافی سمجھو اور اگر میں زندہ رہا تو اس کے سلسلے میں ایسا فیصلہ کردوں گا جس سے وہ لوگ بھی جو قرآن پڑھتے ہیں اور جو قرآن نہیں پڑھ سکتے فیصلہ کرسکیں گے ‘‘اس کے بعد فرمایا’’یا اﷲ !میں تمام شہروں کے حکام پر تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں صرف اس لئے بھیجا تھا کہ وہ لوگوں کو دین اور سنت رسول اﷲ ﷺ کی تعلیم دیں ۔ان سے عدل وانصاف کے ساتھ پیش آئیں ،ان میں غنیمت کو تقسیم کریں اور ان کے معاملے میں اگر کوئی مشکل درپیش ہوتومیرے پاس پیش کریں ‘‘۔

26ذی الحجہ 23ھ کو بدھ کے دن حضرت عمرؓ سورج طلوع ہونے سے پہلے لوگوں کو نماز پڑھانے کیلئے کاشانہ خلافت سے نکلے ۔انہوں نے مسجد میں کچھ لوگ مقرر کررکھے تھے جو ہر نماز سے پہلے صفیں درست کیا کرتے تھے جب صفیں درست ہوگئیں تو حضرت عمرؓ آئے اوردیکھا کہ پہلی صف کچھ آگے پیچھے ہے ،انہوں نے اسے درے سے ٹھیک کیا تو لوگ اپنی اپنی جگہ قرینے سے بیٹھ گئے ،اس کے بعد اذان دی گئی اور حضرت عمرؓ امامت کیلئے آگے بڑھے ۔اس وقت صبح کی سفیدی نمایاں نہ ہوئی تھی ۔ابھی حضرت عمرؓ نے نماز کی تکبیر شروع ہی کی تھی کہ اچانک ایک شخص ان کے سامنے آگیا اور اس نے اپنے خنجر سے تین یا چھ وار حضرت عمرؓ پر کئے جن میں سے ایک زیر ناف پڑا۔حضرت عمرؓ نے دھاردار آلے کی گرمی محسوس کی اور اپنی مقدس جماعت کی طرف متوجہ ہوکر کہا ’’پکڑو!اس کتے کو اس نے مجھے قتل کیا ہے ‘‘یہ کتاحضرت مغیرہ ؓبن شعبہ کا نصرانی غلام ابو لولوء فیروز تھا ۔یہ ایران کا باشندہ تھا جو جنگ میں پکڑا گیا اور اس کے بعد حضرت مغیرہ ؓبن شعبہ کی غلامی میں آگیا ،وہ امیر المومنین حضرت عمر ؓ کو شہید کرنے مسجد میں منہ اندھیرے آگیا تھا ،اس ملعون نے اپنی چادرمیں زہر آلود خنجر چھپا رکھا تھا جس کا دستہ بیچ میں تھا اور دونوں طرف تیز دھاروں کے پھل تھے وہ مسجد کے ایک گوشے میں گیا اور جب نماز شروع ہوئی تو اس نے وار کردیا اور اپنی جان بچانے کیلئے بھاگا ۔نمازیوں میں ایک بے چینی سی پھیل گئی ۔بہت سے لوگ اس کتے کو پکڑنے اور سزادینے کیلئے دوڑے مگر فیروز نے ان کا ہاتھ اپنی کمر تک نہ پہنچنے دیا اور دائیں بائیں خنجر کے وار کرنے لگا ،یہاں تک کہ بارہ آدمی زخمی ہوگئے جن میں سے ایک قول کے مطابق 6اور دوسرے قول کے مطابق9جاں بر نہ ہوسکے ۔آخر ایک دلیر شخص اس کے پیچھے آیا اور اس نے اپنی چادر اس پر ڈال کر اسے زمین پر گرادیا ۔اس دوران ملعون فیروز کو یہ یقین ہوگیا کہ اس کو اسی جگہ قتل کردیا جائے گا چنانچہ اس نے جس خنجر سے حضرت عمرؓ کو شہید کیا تھا اسی خنجر سے اپنا کام بھی تمام کردیا ۔

جب مدائن فتح ہوا تو مال غنیمت کاڈھیر مسجدنبوی میں لگایا گیا توحضرت عمرؓنے سب سے پہلے ایک ایک ہزاردرہم حضرت حسن ؓاورحضرت حسین ؓکودیئے اور پھر حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کو پانچ سودرہم دیئے تو حضرت عبداﷲ ؓ نے فرمایا کہ میں نے آپ کی قیادت میں غزوات میں حصہ لیاجب کہ اس وقت حسنینؓبہت چھوٹے تھے لیکن آپ نے انہیں زیادہ رقم عطافرمائی ہے۔ فاروق اعظم ؓ کو یہ سن کر جلال آگیااور فرمایا کہ عبداﷲ تم حسنین ؓکے مقابلے میں اپنی بات پوچھتے ہو؟تو جاؤ ان کے باپ (حضرت علیؓ)جیساکوئی باپ لے آؤ۔ان کی ماں(حضرت فاطمہؓ)جیسی کوئی ماں لے آؤ۔ان کے نانا(تاجدارمدینہﷺ) جیساکوئی نانالے آؤ۔ان کی نانی( حضرت خدیجہؓ)جیسی کوئی نانی لے آؤ۔ان کے چچا(حضرت جعفرؓ)جیساکوئی چچالے آؤ۔ان کی پھوپھی (حضرت ام ہانیؓ)جیسی کوئی پھوپھی لے آؤ۔ان کے ماموں(حضرت ابراہیمؓ ؓ)جیساماموں لے آؤ۔خداکی قسم!عمرپرتم ان جیساایک رشتہ بھی نہ لاسکو گے۔جب یہ سارا واقعہ حضرت علی ؓ تک پہنچاتو حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ عمر ؓجنتیوں کاچراغ ہے۔

حضرت عمربن خطاب رضی اﷲ عنہ آدھی دنیا کے حکمران مانے جاتے تھے ۔ ان کے مبارک دورِحکومت میں اسلام اورمسلمانوں کو خوب فتوحات ہوئیں۔ انگریزمورخین کا کہناہے کہ اگرحضرت عمربن خطاب رضی اﷲ عنہ مزید 10سال حکومت کرتے تو پوری دنیا کو فتح کرلیتے ۔ بوقت شہادت آپ کی عمر 63سال تھی آپ کی مدت خلافت 10سال 6ماہ اور 4دن ہے ۔اس دوران آپ نے امت محمدیہ ﷺ کو نہ صرف امیرالمومنین بن کے دیکھایا بلکہ آپ وہ جلیل القدرانسان تھے کہ جب رعایا سورہی ہوتی تھی تو آپ ان کے مال وجان کی حفاظت کیلئے گلیوں میں گشت کیا کرتے تھے ۔ حکمران ہونے کے باوجودبوقت شہادت آپ86ہزارکے مقروض تھے ۔ یہ قرض آپ کا مکان بیچ کر اداکیا گیا ۔اﷲ تعالیٰ ہمیں بھی امیرالمومنین حضرت عمربن خطاب رضی اﷲ عنہ کے اطوارپہ چلنے کی توفیق دے اوران جیساحکمران عطاء فرمائے (آمین)۔

Hafeez Ch
About the Author: Hafeez Ch Read More Articles by Hafeez Ch: 17 Articles with 22686 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.