مکافات عمل

“مکافات عمل”
ایک بارعب آواز اسے سنائی دی۔۔۔۔۔۔۔۔
پسینے کے چند قطرے اس کے ماتھے پر نمودار ہوئے جنہیں اس نے نظر انداز کر دیا۔۔۔دل کی تیز دھڑکن اسے اپنے کانوں کے پردوں میں چبھتی ہوئی محسوس ہوئی...اس کی آنکھوں کے سامنے گزرے ہوئے چند مہینے اور ان مہینوں میں کی گئی اپنی حرکات یاد آنے لگی...

کیا یہ سب کچھ میرے ان کارناموں کا نتیجہ ہے جو میں نے ماضی میں سر انجام دیے؟؟ایک سوال اس کے ذہن میں ابھرا..

شاید یہ سب “شگفتہ” کی بد دعائوں کا نتیجہ ہے جس کو اس نے “سیٹنگ” کے بعد صرف اس لیے چھوڑ دیا تھا کہ وہ اس کے حصے کے “سموسے” بھی کھا جایا کرتی تھی...یا ضرور یہ سب “پروین” کا دل توڑنے کا نتیجہ ہے...مگر پروین کو چھوڑنا تو اس کی مجبوری تھی کیونکہ دانت صاف نہ کرنے کی وجہ سے پروین کے منہ کی بہاریں اسے “ٹرانزئینٹ اسکیمک اٹیک” کا تجربہ کروا چکی تھیں،وہ بھی کئی بار...

اسے اپنے سب گناہ اور غلطیاں باری باری یاد آرہے تھے...ابھی ہفتہ پہلے کی ہی تو بات تھی جب اپنے دوستوں سے جھوٹ بول کر وہ “سکینہ” کے ساتھ “ڈیٹ” پر گیا تھا،اور اپنے دوستوں کی چغلیاں کھل کر کی تھیں..واپسی پر “سکینہ” کو چائنہ کا دو نمبر پرفیوم گفٹ کر کے اپنے سچے پیار کا ثبوت بھی دیا تھا!!!!

دوستوں سے بولے گئے وہ سب جھوٹ،گھر کا بول کر تین تین گھنٹے لگاتار “رِفَّت” سے باتیں,کالج باتھ روم کی دیواروں پر لڑکی کے نام کے ساتھ دوستوں کا نمبر لکھنا،لیکچر ہال میں طرح طرح کی آوازیں نکالنا، ہاسٹل میں لڑکوں کے کمروں کی باہر سے کنڈی لگانا،میس میں چیینی کے ڈبے کو نمک کے ڈبے کے ساتھ تبدیل کردینا اور ہاسٹل وارڈن کے کمرے کی کنڈی میں ایلفی!!!کونسا کام تھا جو اس نے نہیں کیا تھا!!!!

اب کی بار اسے اپنا گلا سوکھتا ہوا محسوس ہوا،جیسے کانٹے چبھ رہے ہوں،جیسے کوئی اس کے گلے کو چِیر رہا ہو۔۔۔۔۔

اسے اپنے ہاتھ پاؤں “فلیسڈ پیرالسس” میں جاتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔۔۔کیا یہ وقت کبھی تھمے گا؟؟ایک سوال اس کے ذہن میں ابھرا!!!

قریب تھا کی وہ چکرا کر زمین پر گِر جاتا،وہی آواز دوبارہ سنائی دی

“وَٹ آر دی سائیڈ افیکٹس آف کلورم فینیکول”؟؟

وہ زمین کو گھورنے لگا۔۔۔

پروفیسر صاحب کو شاید معلوم ہوگیا کہ “چٹانوں سے سر ٹکرانے کا کوئی فائدہ” نہیں،اس لیئے اسے باہر جانے کا اشارہ کر دیا۔۔۔وہ فوراً اٹھا اور دروازے کی طرف لپکا،گویا اس کی جان میں جان آگئی ہو-

باہر کھڑے دوستوں کے استفسار پر انہیں بتایا :“بہت چِل ماحول ہے اندر،بہت آسان وائوا ہو رہا ہے،فارما اِز ویری اِیزی”۔۔۔۔۔اور متلاشی نظروں سے “صغراں” کو ڈھونڈتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوگیا۔۔۔۔

Aadil Mahmood
About the Author: Aadil Mahmood Read More Articles by Aadil Mahmood: 6 Articles with 5200 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.