یہ کون سا وژن ہے جس میں چندہ اور ملکی اثاثوں کی فروخت
پہ حکومتی ( ملکی ) معاملات چلانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
چندہ ضرور اکٹھا کریں ، عوام کو ملکی معاملات میں رضاکارانہ شراکت کا
منصوبہ خوش آئیند ہے مگر یہ کوئی پائیدار حل نہیں ۔ اور ملکی زمین بیچنے
کے خیال سے تو جتنی جلد چھٹکارہ حاصل کرلیا جائے اچھا ہوگا۔
ملک اس طرح نہیں چلتے۔ اس کے لیے معیشت پر توجہ دینا پڑتی ہے تاکہ شرح نمو
میں اضافہ ہو اور وہ محاصل بڑھیں جن سے وسائل فراہم ہوتے ہیں۔ برآمدات میں
کمی اور درآمدات میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ ملک میں
لانا پڑتا ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھتے ہیں اور روزگار کے مواقع میں
اضافہ ہوتا ہے۔
کتابی طور پر یہ کہنا آسان ہے کہ کتنی سرکاری زمین ہے اور اسے فروخت کر کے
کتنی رقم حاصل کی جاسکتی ہے۔ لیکن ماضی میں اس کا انجام کبھی اچھا نہیں
ہوا۔ پاکستان اسٹیل کی19 ہزار ایکڑ زمین ہے۔ اسے جب بھی فروخت کیا گیا، اس
کے خلاف مقدمہ قائم ہوا اور آج تک زمین ٹرانسفر نہیں ہو سکی اور وہاں کوئی
منصوبہ شروع نہیں کیا جا سکا۔
قانونی پیچیدگیوں والے پہلو بھی ہیں ۔اس کے لئے پاکستان پبلک ریگولیٹری
اتھارٹی کے تحت اشتہار دینا پڑے گا، کون سی زمین ہے، کہاں ہے، اس پر کون
قابض ہے، ہر صوبے کی اراضی کا الگ الگ تخمینہ لگانا پڑے گا، متعلقہ اداروں
سے بات کرنا پڑے گی۔ اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے تو کافی
پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں۔ کہیں لینڈ ٹائٹل کا مسئلہ ہوتا ہے، کہیں پارلیمان
کی منظوری چاہیے، کہیں ایک سے زیادہ محکمے ملوث ہوتے ہیں۔ عوامی سطح پر
عدالتوں میں چیلنج کر دیا جاتا ہے
پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ بدعنوانی ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے ماضی میں
سرکاری زمین اونے پونے فروخت کیے جانے سے بڑے اسکینڈل بن چکے ہیں۔ مستقبل
میں اس سے بچنے کے لیے وفاقی حکومت کو نئی حکمت عملی بنانے کے علاوہ قانون
سازی بھی کرنا پڑے گی۔ پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی
ضرورت ہے۔
بیرونی قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کوئی متبادل طریقہ سوچنے کی
ضرورت ہے جیسے کہ ان کو اندرونی قرضوں میں بدلنے کا لائحہ عمل تیار کیا جا
سکتا ہے۔ مالی سرمایہ داری جو شرکت ، منافع اور قرضہ حسنہ کی بنیادوں پر
بانڈز کی صورت میں متعارف کروانے کی ضرورت ہے ۔ اور اس کے بدلے شہریوں کی
عزت و تکریم سے لے کر مراعات تک کے بدل کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔ اس طرح
بیرونی قرضوں سے جان چھوٹ جائے گی۔
ہمارے مالی مسائل فوری حل کا تقاضہ کر رہے ہیں لہذا سنجیدگی سے فوری قابل
عمل پہلووں پر سوچ کر معاملات کو چلانے کا سوچنا چاہیے۔ یہ ضد والے معاملات
نہیں ۔ یہ کوئی این جی او نہیں کہ بورڈ آف ڈائیریکٹرز کو اعتماد میں لیا
اور فیصلہ کردیا ۔ یہ ملک و قوم کا معاملہ ہے اور جلد بازی سے معاملات
سلجھنے کی بجائے مزید الجھ سکتے ہیں۔سرکاری زمین فروخت کرنا طویل المدت
منصوبہ ہے اور میرے خیال میں تو ناممکن ہے۔
|