کسی ملک کا ایک بادشاہ تھا جس کو ایک دن اپنے سلطنت میں
گھومنے کا شوق ہوا اس زمانے میں جوتےنہیں پہنے جاتے تھے ۔بادشاہ پوری سلطنت
میں چل کر گئے تو ان کے پیروں میں چھالے پڑ گئے ۔لہذا بادشاہ نے وزیر کو
حکم دیا کہ پوری سلطنت میں چمڑا لگا دیا جائےوزیر نے مشورہ دیا کہ اگر چمڑا
پیروں کے مطابق کاٹ کر پیروں میں پہنا جائے تو وہ چمڑا آپکے پاوں کے ساتھ
چل کر جائے گا ۔اس طرح رعایا قحط سالی سے بچ جائے گی ۔ اور خزانے میں کمی
بھی نہیں ہو گی ۔لہذا وزیر کی اس بات پہ عمل کیا گیا ۔
کہانی کا مقصد یہ تھا کہ جو گزرے ہوئے حکمران تھےانہوں نے اس کہانی کا کچھ
یوں رخ بدلا کہ چمڑا بھی جوتوں کہ ساتھ لگوایا اور سلطنت جو عوام کی امانت
تھی وہ بھی اپنے قبضے میں کی اور ساتھ ساتھ خزانہ بھی خالی ہوا ۔عوام بھی
بھوک اور افلاس میں گری ۔وہ تو جو ہونا تھا ہو گیا ۔ اب بات
آتی ہےموجودہ حکمران کی کہ رعایا نے قدم
با قدم ساتھ تو دیا مگر حال وہی کا وہی ہے ۔
عوام کا ہی چمڑا کاٹ کر لگایا جا رہا ہے۔
اگر سوچا جائے تو حکمران عوام کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتے ۔ اب
دیکھتے ہیں کہ
آئندہ پانچ سالوں میں عوام کتنی قربانیاں دیتی ہے اور حکمران کتنے جوتے
تبدیل کرتے ہیں ۔ غریبی اور لاچاری تو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ۔
کہا جاتا ہے کے پاکستان میں تعلیم کا رجحان نکم ہے ۔ مگر ہم نے بہت سے ایسے
نوجوان مرد حضرات اور عورتیں دیکھی ہیں ۔ جو تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری
کی خاطر در پہ در پھر رہے ہیں ۔25 یا 26 سال میں تعلیم پوری کرتے ہیں۔ اور
5 سال نوکری کی تلاش میں لگ جاتے ہیں ۔ جب تک کوئئ سفارش ملتی ہے تب تک 30
سال ہو چکے ہوتے ہیں پھر آخر کار یہ عوام مزدوری کے لئے نکلتی ہے اگر نوکری
نہیں ملتی تو کم از کم عمر کی قید تو ختم کیجئے ۔
ایک لڑکی 25 سال تعلیم حاصل کرنے میں گزار دیتی ہے پھر نوکری کئ تلاش میں
لگے لگے ماں باپ اس کی شادی کر دیتے ہیں ۔ اس ڈر سے کہیں بالوں میں چاندی
نہ لگ جائے ۔
میاں بیوی کی مثال گاڑی کے دو پہیہوں کی سی اگر کسی حادثے میں یہ الگ ہو
جاتے ہیں تو یہی لڑکی پھر محنت مزدوری کے لئے نکلتی ہے اور لوگوں کی بری
نظریں اس پر پڑتی ہیں کچھ تو اپنے آپ کو بچا لیتی ہیں اور جو نہ بچا سکیں
وہ ان راستوں پر نکل پڑتی ہیں اور اولاد کے پیٹ کی خاطر واپسی کا راستہ نا
ممکن ہو جاتا ہے ۔
یہ ہیں پاکستان کی عوام کے مسائل ۔ آج کل جس شہر میں الیکشن ہوتا ہے تو
خاندان کے 2 یا 3 بندوں کو نوکری دینے کا وعدہ کر کے 50 ۔60 ووٹ حاصل کر
لئے جاتے ہیں اور عوام بھی کتنی بے وقوف ہے کے 2 افراد ایک خاندان کا خرچا
کیسے برداشت کریں گے ۔
میں نے اپنے گاوں میں دیکھا ہے کہ بہت سے کارخانے اور ملز بنائے گئے ہیں
مگر بند پڑے ہیں ۔ فارمز بنائے گئے مگر اپنے گاوں کے نوجوانوں کو اس میں
ملازمت نہ ملی اگر تھوڑی سی سوچ کی جائے اور اس عوام کو ان کارخانوں میں
نوکریاں دی جائیں تو یہ عوام کبھی بھی غربت کی زندگی نہیں گزارے گی۔
|