جاوید ملک /شب وروز
نیب کا خمیر انتقام سے اُٹھا ہے ماضی میں ایک آمر نے اس ادارے کو اس لیئے
تشکیل دیا تھا کہ وہ پرویز مشرف کے اقتدار کو دوام دینے کیلئے اپنا کردار
ادا کرے اور یہ ادارہ پرویز مشرف کی امیدوں پر پورا اترا۔ اس دور میں اگر
کسی بھی سیاست دان کو جمہوریت کا بخار چڑھا تو اس ادارے نے وہ دھوبی پٹکا
لگایا کہ پھر اس کی زبان مسلم لیگ (ق) کا ورد کرتے نہیں تھکتی تھی۔
پرویز مشرف کا 2008ئمیں بوریا بستر گول ہوگیا اور جمہویت کی بہار بھی وطن
عزیز پر اتر آئی سب کچھ بدلنے لگا نہ بدلا تو قومی احتساب بیورو نہ بدلا۔
ماضی میں منتخب ہونے والی دونوں حکومتوں نے یہ عندیہ ضرور دیا کہ وہ مشرف
کی اس باقیات کے خاتمہ یا درستگی کیلئے قانون سازی کریں گے مگر بوجوہ یہ ہو
نہ سکا۔غالب امکان یہ ہے کہ ہر حکمران بدنیت ہوگیا ہوگا کہ مشرف کا یہ
ہتھیار وہ اپنے مخالفین کا بھرکس نکالنے کیلئے کیوں نہ استعمال کرے۔ مفت
میں میسر شراب اور موقعہ تو مولوی بھی نہیں چھوڑتا تو پھر یہ حکمران اس سے
مستفید کیوں نہ ہوتے۔
جمہوری حکمرانوں نے اس ادارے کی رہی سہی ساکھ کا بھی جنازہ نکالنے کیلئے
قمر زمان چوہدری جیسے بدنام زمانہ بیوروکریٹ کو اس ادارے کا سربراہ بنادیا
اس سربراہ نے شاید اپنے آقاؤں کی خوشنودی کا تو ریکارڈ قائم کیا اور عدالت
عظمی کی ڈانٹ ڈپٹ کو بھی خاطر میں نہ لایا مگر یہ میڈیا انڈسٹری کیلئے
ناسور ثابت ہوا۔
قمر زمان چوہدری نے چیئرمین نیب بننے کے بعدمیڈیا انڈسٹری کو چراہ گاہ
بنانے کا فیصلہ کیا انہوں نے اپنے بیٹے کے نام سے ایک اشتہاری کمپنی بنائی
اور پھر اس کمپنی نے وہ ات مچائی کہ خدا کی پناہ۔ وزارت اطلاعات کے قواعد و
ضوابط تو ویسے ہی چیئرمین نیب کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے تھے دیگر سرکاری
اداروں نے بھی عافیت اسی میں سمجھی کہ چیئرمین نیب کے فرزند کی کمپنی سے ’’دم‘‘
ڈلوالیاجائے۔ پاکستان کی اشتہاری دنیا میں میڈاس سب سے بڑا گروپ اور اس کے
سی ای او انعام اکبر سب سے معتبر شخصیت تھے۔ انعام اکبر کو پاکستان کی
اخباری دنیا کا محسن سمجھا جاتا ہے انہوں نے میڈیا میں جدت کو متعارف کرایا
اور ہمیشہ اس انڈسٹری کی بھلائی کیلئے اقدامات اُٹھائے۔ سابق چیئرمین نیب
کووہ ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے کاروباری رقابت اپنی جگہ مگر کسی کاریگر نے
موصوف کو باور کرادیا کہ اگر انعام اکبر کا مکو ٹھپ دیا جائے تو پھر ان کے
بیٹے کی کمپنی کا راج ہوگا چنانچہ ماہرین کی ایک پوری ٹیم نے سرجوڑ لئیاور
سازشوں کا جمعہ بازار لگ گیا۔
میڈیا انڈسٹری کا یہ سب سے شاندار شخص انعام اکبر ان سازشوں میں ایسا الجھا
کہ کراچی جیل پہنچ گیا لیکن حیران کن طور پر سابق چیئرمین کی باقیات اب بھی
ہرروز اس کیلئے ایک نیا ستم ایجاد کرتی ہیں حال ہی میں اخباری اطلاعات کے
مطابق انعام اکبر پر ایک نیا ریفرنس قائم کیا گیا یہ ریفرنس اس قدر مضحکہ
خیز ہے کہ مجھے نیب کی تفتیشی اور قانونی ٹیم کی اہلیت پر شک ہونے لگا ہے
اس ریفرنس کے مندرجات پڑھ کر بھیڑ اور بھیڑ ئیے والی کہانی یاد آجاتی ہے
بھیڑئیے نے بھیڑ سے کہا کہ تم پانی گدلا کررہے ہو بھیڑ نے گزارش کی پانی آپ
کی طرف سے آرہا ہے بھیڑیا غصے سے تم نے پچھلے سال مجھے گالی دی تھی بھیڑ
ممنایا کہ حضور میری تو عمر چھ ماہ ہے بھیڑیا غرایا اور بولا تو پھر وہ
تمہارا باپ ہوگا میں تو تمہیں سزا دونگا۔
سوال یہ ہے کہ یونیورسل سروسز فنڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹر کی منظوری سے ایک
اشتہاری مہم چلی وزارت اطلاعات کی اشتہاری پالیسی کے مطابق میڈاس کو تین
ماہ کیلئے ایڈ ہاک تقرری ملی اس تقرری کو بنیاد بنا کر آج تک میڈاس کو رقم
ادا نہ کی گئی اور اب اس پر ریفرنس بھی دائر کردیا گیاہے۔ اشتہاری کمپنیوں
کی ایڈہاک تقرریاں قواعد کے مطابق اور ایک معمول کا عمل ہے قومی احتساب
بیورو کے اشتہارات چھاپنے والی کئی کمپنیاں بھی عارضی تقرریوں پر کام کرتی
رہی ہیں اور آج بھی کئی کمپنیاں مختلف سرکاری اداروں میں ایڈہاک تقرری پر
کاروبار کررہی ہیں تو پھر میڈاس کیلئے یہ جرم کیوں ہے؟ سطحی عقل رکھنے والے
کو بھی سمجھ آتی ہے کہ مقصد پاکستان کی اس سب سے بڑی اشتہاری کمپنی کو
دیوار سے لگا نا ہے۔
انعام اکبر نے پاکستان کے میڈیا کو پروقار مقام تک پہنچانے کیلئے دن رات
کام کیا یہ شخص ان بیرونی اشتہاری کمپنیوں کے سامنے بھی دیوار بن کر کھڑا
رہا جن کا مقصد پاکستان کی اشتہاری مارکیٹ پر قبضہ کرکے ذرائع ابلاغ کو
اپنی مٹھی میں بند کرنا تھا جس کے بعد انہوں نے میڈیا پر اپنی پالیسی مسلط
کرنی تھی اور یہ پالیسی کن کے اشاروں سے ترتیب پاتی یہ سب جانتے ہیں اس شخص
نے نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کیلئے ہر ممکن اقدام اُٹھائے اپنے وسائل پانی
کی طرح بہائے مگر آج اسے تماشہ بنایا جارہا ہے مضحکہ خیز الزامات کی بوچھاڑ
کرکے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ وہ جیل سے باہر نہ نکل سکے یہ شخص کسی اور ملک
میں پیدا ہوا ہوتا کسی اور معاشرے کیلئے کام کرررہا ہوتا تو وہ اسے سر
آنکھوں پر بٹھاتے قومی ایوارڈ سے نوازتے مگر ہم اپنے محسنوں کے ساتھ ایسا
ہی سلوک کرتے ہیں اور یہ ہماری بدترین تاریخ ہے۔
|