حکیم محمد اجمل خان - حکمت و دانش اورطب یونانی کے ممتازماہر حکیم

حکیم محمد اجمل خان ہندوستان میں طب یونانی کی آبرو‘ قومی سطح پر سیاسی رہنما ‘ غریبوں کے ہمدرد‘ ایک خوش گو شاعر اور کلف وتصنع سے مبرا شخصیت تھے۔ کم سخن تھے مگر جب بولتے تو موتی رولتے۔ غریبوں سے ان کی ہمدردی کی داستانوں سے تاریخ کے اوراق روشن ہیں۔ ان کا شوق مطالعہ کمال کا تھا۔ طب یونانی پر ان کے عبور پر انہیں برطانیہ اور فرانس تک میں خراج تحسین ادا کیا گیا۔ ہندوستان میں طب یونانی میں ریسرچ کی ضرورت کا اس دور میں ان سے زیادہ کسی کو احساس نہیں تھا۔ مختلف علوم کے مطالعے کے بعد انہوں نے شدت سے محسوس کیا کہ متاخرین نے تقلید محض کی راہ اختیار کر کے طب کی ترقی کو روک دیا ہے اور یہ بات ہے بھی درست۔ اگر کسی موضوع پر تحقیق نہ کی جائے تو نہ صرف یہ کہ اس میں مزید ترقی نہ ہو سکے گی بلکہ وہ زمانے سے بہت پیچھے رہ جائے گا۔ زمانہ کسی کا انتظار نہیں کرتا چنانچہ انہوں نے اپنے خاندان کے خفیہ نسخوں کو شائع کیا تاکہ ان پر مزید کام کر کے انہیں بہتر بنایا جا سکے۔ وہ بہت دیر تک سیاست سے الگ رہے لیکن ان کا جذبہ حریت آخرکار انہیں آزادی کی جدوجہد کرنے والے اعتدال پسند سیاسی رہنماؤں کی صف میں لے گیا۔ وہ ایک خوش گو شاعر بھی تھے۔ ان کا دیوان پہلی مرتبہ جرمنی سے شائع ہوا تھا۔ ڈاکٹر سٹینلے بائڈ لندن کے چیئرنگ کراس ہسپتال کے سینئر سرجن تھے۔ تشخیص مرض اور فن سرجری دونوں میں ان کا اپنا مقام تھا۔ ایک بار حکیم اجمل خان یورپ گئے۔ اس سفر کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ یورپی ممالک میں طبی ترقیوں کا مطالعہ کیا جائے اور اس کی روشنی میں ہندوستان میں طب یونانی کے فروغ کے لئے کام کیا جائے۔ لندن پہنچ کر وہ چیئرنگ کراس ہسپتال میں بھی گئے۔ ڈاکٹر مختار احمد انصاری وہاں ہاؤس سرجن تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے حکیم اجمل خان کا ڈاکٹر بائڈ سے تعارف کرایا۔ ڈاکٹر بائڈ کی دعوت پر حکیم صاحب ان کی کلینیکل سرجری کی کلاس میں بھی گئے۔ یہ کلاس طلباء کی عملی تعلیم کے لئے تھی اور ہفتہ میں دو دفعہ ہسپتال کے کسی نہ کسی وارڈ میں ہوا کرتی تھی۔ جب حکیم صاحب کلاس میں پہنچے تو ڈاکٹر بائڈ ایک مریض کے مرض کے بارے میں طلباء کو سمجھا رہے تھے۔ ان کی رائے میں وہ پتہ پرورم تھا۔ انہوں نے حکیم صاحب سے کہا کہ وہ بھی مریض کا معائنہ کریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں۔ معائنہ کے بعد حکیم صاحب نے کہا کہ مریض کی آنتوں کے ابتدائی حصہ میں پرانا زخم ہے جس کے باعث داد کی تکلیف‘ یرقان اور حرارت ہے۔ ڈاکٹر بائڈ نے ان سے کہا کہ کل اس مریض کا آپریشن ہو گا‘ آپ ضرور آیئے۔ پھر ہنس کر بولے ’’یہ طب یونانی اور طب انگریزی کا امتحان ہے۔ دوسرے دن مریض کا پیٹ چاک کرنے پر حکیم صاحب کی تشخیص صحیح نکلی۔ ڈاکٹر بائڈ نے نہایت خوش دلی سے حکیم صاحب کو ان کی صحیح تشخیص پر نہ صرف مبارکباد دی بلکہ انہیں اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری کو اپنے گھر ڈنر پر مدعو کیا۔ وہاں ڈاکٹر بائڈ نے اپنی بیوی سے جو خود بھی سینئر سرجن تھی حکیم اجمل خان کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ ہیں ڈاکٹر انصاری کے ہم وطن جنہوں نے سرجیکل مقابلے میں مجھے شکست دی ہے۔

قاضی عبدالغفار نے جو دورہ یورپ میں حکیم محمداجمل خان کے ہمراہ تھے ٗ لکھتے ہیں کہ پیرس میں وہ ایک ڈاکٹر سے ملے۔ تعارف ہونے پر اس نے بڑی حقارت سے کہا کہ جس طب میں تشخیص کا سب سے بڑا ذریعہ صرف نبض ہو وہ طب کیا ہو سکتی ہے پھر زور دے کر کہا کہ اگر آپ کو اپنی تشخیص پر اتنا ہی اعتماد ہے تو ذرا میرے ایک مریض کو دیکھئے چنانچہ دوسرے روز ایک مریضہ حکیم صاحب کے ہوٹل میں لائی گئی۔ اسے ایک سال سے یہ شکایت تھی کہ اس کی ٹانگیں سکڑ گئی تھیں اور پیٹ میں درد ہوا کرتا تھا۔ ایکس رے اور دوسرے ذرائع تشخیص مرض کا پتہ کرنے میں ناکام ہو چکے تھے۔ کسی ڈاکٹر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مرض کیا ہے۔ تشخیص مرض کے لئے حکیم صاحب نے اس خاتون سے کچھ سوال کئے تو معلوم ہوا کہ مریضہ ٹینس بہت کھیلا کرتی تھی اور اسے گھڑ سواری کا بھی بہت شوق تھا۔ حکیم صاحب نے سوچ بچار کے بعد اسے ایک پڑیا میں دوائی دی اور کہا کہ 1/4 رتی روزانہ مکھن میں ملا کر کھائے۔ فرانسیسی خاتون اس ذرا سی پڑیا اور دوا کی مقدار پر بے حد حیران ہوئی لیکن پندرہ دن بعد وہ اپنے پاؤں پر چل کر ان کے پاس آئی حالانکہ آٹھ مہینے سے وہ چلنے کے قابل نہ تھی۔ حکیم صاحب نے بتایا کہ یہ کوئی طبی معجزہ نہ تھا۔ میرے ذہن میں یہ آیا کہ کیونکہ مریضہ ٹینس کھیلتی اور گھڑسواری کرتی تھی اس لئے ممکن ہے کہ اس کی کسی آنت میں کسی جھٹکے کی وجہ سے گرہ پڑ گئی ہو۔ دراصل ایسے مریض میں پہلے بھی دیکھ چکا تھا اس لئے میں نے اسے ایسی دوائی دی جو آنتوں میں کھجلی پیدا کرے۔ وہ دوا تیربہدف ثابت ہوئی۔ آنت کی گرہ کھل گئی اور متعلقہ اعضا اپنا کام کرنے لگے۔ اس علاج سے وہ فرانسیسی ڈاکٹر اتنا متاثر ہوا کہ حکیم صاحب سے گھنٹوں طب یونانی کے بارے میں گفتگو کرتا رہا۔ اس نے بھی ان کے اعزاز میں ایک ڈنر دیا جس میں پیرس کے بڑے بڑے ڈاکٹر اور معالجین شریک ہوئے۔

یہ تھے حکیم اجمل خان ٗ جن کا نام طب یونانی میں ان کا نام سنہری حروف سے لکھا ہوا ہے۔ آج بھی پاکستان میں ہر جگہ ’’دوا خانہ حکیم اجمل خان‘‘ احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ حکیم محمد اجمل خان 17 شوال 1284ھ 11 فروری 1868ء کو دلی میں حکیم غلام محمود خان کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کی تعلیم روایتی طریقہ سے ہوئی۔ طب کی ابتدائی کتابیں اپنے والد سے اور انتہائی کتابیں بزرگ حکیم عبدالمجید سے پڑھیں۔ اس کے بعد ان کا زیادہ وقت شریفی خاندان کے گراں قدر کتب خانے میں مطالعہ میں صرف ہوتا۔ 15 یا 16 برس کی عمر میں آپ نے قرآن مجید حفظ کر لیا تھا ۔18 اور 19 برس کی عمر میں طب کے علاوہ تفسیر‘ حدیث‘ منطق‘ فلسفہ اور ادب میں اپنی تعلیم مکمل کر لی تھی۔ انگریزی اپنے شوق سے اتنی سیکھ لی تھی کہ اخبار پڑھ لیتے اور گفتگو سمجھ لیتے تھے۔ خوش نویسی میں بھی بہت اچھے تھے۔

حلیہ کچھ اس طرح تھا متوسط قد وقامت‘ کشادہ پیشانی‘ گندمی رنگ‘ بھرواں سیاہ داڑھی‘ لباس کبھی انگرکھا کبھی کرتہ‘ ترکی یا دوپلی ٹوپی شیروانی‘ چست پاجامہ‘ یورپ گئے تو انگریزی سوٹ بھی پہنا۔

حکیم اجمل خان طب یونانی کی ترقی کے لئے تحقیق کو لازمی سمجھتے تھے اور اسے سانسی خطوط پر آگے بڑھانے کے خواہش مند تھے۔ انہیں اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ریسرچ کے بغیر طب یونانی کا کوئی مستقبل نہیں چنانچہ 1906ء میں انہوں نے طبی کانفرنس میں کہا ’’ہمارے مجربات کی یہ حالت ہے کہ جس کے پاس کوئی نسخہ ہوتا ہے وہ اسے جان سے بڑھ کر عزیز رکھتا ہے اور اپنے ساتھ گوشہ قبر میں لے جاتا ہے۔ اس طرح ہماری طب کا بہت سا حصہ ضائع ہو چکا ہے اور اگر ہم اسی روش پر چلتے رہے تو سمجھ لیجئے گا کہ وہ زمانہ آ گیا ہے کہ اس کا بقیہ حصہ بھی ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔

حقیقت یہی ہے کہ مشرق کی اس روایت نے طب کی ترقی کو بڑا نقصان پہنچایا۔ اس کے علاوہ طب یونانی میں جراحت کا باب قریب قریب ختم ہو چکا تھا۔ بعد میں حکیم حمد اجمل خان نے ’’حاذق‘‘ کے نام سے ایک کتاب چھاپی جس میں اپنے خاندان کے خاص الخاص نسخے اور طریقہ ہائے علاج درج کر دیئے۔ یہ کتاب طبی مجربات کا ایک بیش بہا خزانہ ہے۔ جبکہ حکومت طب یونانی اور ویدک کے خلاف ایکٹ بنانے کے لئے مسودہ تیار کر رہی تھی۔ حکیم صاحب نے اس کے خلاف مسلسل جدوجہد کی جس کے نتیجے میں 1911ء کے اواخر میں حکومت نے یہ ارادہ منسوخ کر دیا۔ 1919ء میں طبی کانفرنس کا اجلاس کراچی میں ہوا۔ حکیم صاحب نے بتایا کہ طب یونانی شروع ہی سے سائنسی خطوط پر کام کر رہا ہے چنانچہ جالینوس نے لکھا ہے کہ میری یہ عادت نہیں کہ صرف قیاس سے کام لوں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تجربہ سے تصدیق حاصل کرتا ہوں اور یہی سائنٹفک طریق کار ہے۔

یونانی اور ویدک طب کو فروغ دینے کے لئے انہوں نے 1916ء میں ویدک یونانی طیبہ کالج کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس سے طب کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوا۔ کالج کے اخراجات مستقل طور پر پورے کرنے کے لئے آپ نے ایک شاندار دواخانہ قائم کیا ’’ہندوستانی دوا خانہ دہلی‘‘ کے نام سے اس کی آمدنی کالج کے لئے وقف تھی۔
انسان دوستی اور غریبوں سے ہمدردی ان کی فطرت میں شامل تھی۔ اخلاق حسین دہلوی اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ سردی کا موسم کڑاکے کا جاڑا‘ رات کا وقت بارہ ایک کا عمل‘ بازاروں میں سناٹا‘ وہ کسی تقریب میں شریک ہو کر آ رہے تھے۔ جامع مسجد پہنچے تو دیکھا کہ ہلکے ہلکے ایک بکھی آئی اور جنوبی دروازے کی سیڑھیوں کے پاس ٹھہر گئی۔ حکیم محمد اجمل خان باہر نکلے۔ سیڑھیوں پر جو لوگ سکڑے سکڑائے پڑے تھے۔ گاڑی سے لحاف نکالتے اور ہر ایک کو آہستہ سے اوڑھا دیتے۔ جب سب کو اوڑھا چکے تو گاڑی ہلکے ہلکے ہرے بھرے صاحب کے مزار کی طرف چلی گئی۔ وہ آب دیدہ ہو کر کہتے عجب خیر کا بند ہے حق تعالیٰ اجر عظیم عطا کرے۔

مفتی کفایت اﷲ لکھتے ہیں ’’حکیم صاحب تمام دادودہش بے حد خفیہ طور پر کیا کرتے تھے تاہم ان کے کارکنوں سے معلوم ہوا ہے کہ کتنی ہی بیواؤں اور یتیموں کے ماہانہ وظائف اور کتنے ہی غریبوں اور حاجت مندوں کی گراں قدر عطیات سے دست گیری ہمیشہ جاری رہتی تھی اور اس میں ماہانہ بڑی گراں قدر رقم خرچ ہو جاتی تھی‘‘۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں ’’حکیم صاحب نہایت خوش مزاج تھے اور ان کے کلام میں ظرافت کی ایسی چاشنی ہوتی کہ ان کے ہم نشیں مدتوں تک اس کا لطف نہ بھولتے مگر جس بات پر تمام مجمع بے اختیار قہقہے لگاتا تھا وہ تبسم کی حد سے آگے نہ بڑھتے ۔

شفا الملک حکیم رشید احمد خان رقم طراز ہیں آپ کی قوت برداشت اس قدر زبردست تھی کہ آج ایسے طبقے اور اس پوزیشن کے افراد میں بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔ مطب میں کسی شاگرد سے اگر نسخہ میں کوئی فاش غلطی بھی ہو جاتی اور آپ انتہائی غضب ناک ہوتے تو بس اتنا کہتے یہ کیا حماقت ہے؟

ڈاکٹر ذاکر حسین ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ پچھلے جو دے سکتے تھے وہ سب انہوں نے لے لیا لیکن یہ خیال کبھی ذہن سے نہ ہٹا کہ اگلوں کو کچھ اور بھی دے جائیں۔ ان کی نظر ہمیشہ مستقبل پر تھی۔ ریاست رام پور اور خاندان شریفی (حکیم صاحب کا خاندان) کے دیرینہ تعلقات تھے بلکہ ریاست کی طرف سے ان کے خاندان کے لئے وظیفہ بھی مقرر تھا چنانچہ جب نواب رام پور نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس گھرانے کا کوئی حکیم ریاست میں مستقل قیام کرے تو حکیم اجمل خان کو وہاں بھیج دیا گیا۔ یہ 1892ء کا ذکر ہے۔ نواب صاحب نے ان کو ریاست کا میڈیکل آفیسر مقرر کر دیا۔ ان کی تنخواہ چار سو روپے ماہوار مقرر ہوئی۔ جو بعد میں بڑھا کر ہزار روپے ماہوار کر دی گئی۔ ریاست میں قیام کے دوران حکیم صاحب نے وہاں پر موجود سہولتوں کا پورا پورا فائدہ اٹھایا۔

1- رام پور کے کتب خانے میں 18 ہزار قلمی نسخے اور 13 ہزار قدیم مطبوعہ کتابیں تھیں۔ حکیم صاحب کو شوق کتب بینی کو پورا کرنے کے لئے شاید اس سے بہتر سہولت میسر نہ آ سکتی۔ وہ کتابوں کو شوق سے پڑھنے لگے۔ انہوں نے نہ صرف اپنا مطالعہ جاری رکھا بلکہ بہت سے نادر قلمی نسخوں کی نقول بھی تیار کرائیں جو خاندان شریفی کے کتب خانے میں موجود نہ تھیں۔ مثلاً جالینوس کا لکھا ہوا رسالہ ’’نبض‘‘۔
2- دہلی میں حکیم اجمل خان نے عربی پڑھی ضرور تھی مگر وہ عربی ادب سے زیادہ آشنائی حاصل نہ کرسکے۔ حسن اتفاق سے مولانا محمد طیب جو عربی زبان کے بلند پایہ ادیب تھے ان دنوں رام پور میں موجود تھے۔ حکیم صاحب نے عربی زبان وادب اور تحریر وتقریر میں مہارت پیدا کرنے کے لئے ان سے بہت استفادہ کیا۔ انہیں عربی تحریرو تقریر پر جو کمال حاصل تھا وہ مولانا ہی کا فیضان تھا چنانچہ جب وہ عراق گئے اور علماء سے گفت وشنید ہوئی تو وہ سب ان کی فصاحت وبلاغت کے قائل ہو گئے۔ نواب رام پور دن کو سوتے اور رات کو جاگتے تھے۔ وہ صبح چھ بجے سے شام چار بجے تک آرام کرتے۔ اسی لئے دن کا یہ حصہ حکیم صاحب کے اپنے تصرف میں ہوتا۔ وہ صبح سات بجے سے دس بجے تک رام پور میں اپنے مطب میں بیٹھتے اور چار بجے تک باقی وقت عبدالصمد خان چیف سیکرٹری ریاست رام پور کے ہمراہ گزارتے۔ دوپہر کا کھانا بھی انہی کے ساتھ کھاتے۔ چار بجے سے رات دو بجے تک نواب صاحب کے ساتھ ہوتے چونکہ وہ درباری سازشوں سے دور رہتے تھے اس لئے انہیں نواب رام پور کا انتہائی اعتماد حاصل تھا۔

اب ایک دلچسپ واقعہ سنئے:
ایک بار نواب رام پور کو پیچش کی شکایت ہوئی تو حکیم اجمل خان نے رفع شکایت کے لئے روغن بید‘ انجیر اور دودھ تجویز کر کے اپنے سامنے ہی پلا دیا۔ نواب صاحب صبح چھ بجے سے شام چار بجے تک سوتے تھے مگر طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے تمام دن جاگتے رہے۔ دن بھر دودھ کے علاوہ انہیں کوئی غذا نہ دی گئی۔ ڈنر پر نواب صاحب کے لئے مونگ کی دال کی کھچڑی اور باقی سب حضرات کے لئے انواع واقسام کے کھانے چنے گئے۔ نواب صاحب کو سخت بھوک لگی ہوئی تھی۔ جب کھچڑی سامنے آئی تو انہوں نے مولوی مقبول احمد سے جو ڈنر پر موجود تھے کہا کہ استخارہ کر کے بتایئے کہ کیا کھانا شروع کیا جائے۔ مولوی صاحب نے استخارہ کے بعد بتایا کہ حضور ممانعت آئی ہے۔ مجبوراً سب لوگ بیٹھے رہے۔ پندرہ منٹ کے بعد پھر پوچھا تو وہی ممانعت کا جواب دیا۔ نواب رام پور بھوک سے بے تاب ہو رہے تھے لیکن مولوی صاحب کی وجہ سے کھانا شروع نہیں ہو رہا تھا۔ جب تیسری دفعہ پوچھنے پر مولوی صاحب نے وہی جواب دیا تو حکیم صاحب سے برداشت نہ ہو سکا۔ کھڑے ہو گئے اور کہا ’’سرکار! میں بحیثیت معالج آپ کو حکم دیتا ہوں کہ بلاتاخیر کھانا شروع کر دیں۔ نواب رام پور نے اسی وقت کھانا شروع کر دیا اور پھر مولوی صاحب کے مقدر میں جتنی مغلظات تھیں ان کو اسی وقت وصول ہو گئیں۔

جولائی 1901ء میں ان کے برادر بزرگ کا انتقال ہو گیا تو انہوں نے دہلی واپس آنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ چنانچہ 1902ء میں حکیم صاحب نے رام پور میں اپنی مستقل ملازمت کا سلسلہ ختم کر دیا۔ تقریباً نو سال قیام کے بعد دہلی واپس لوٹ آئے البتہ ریاست سے انہیں ایک وظیفہ باقاعدگی سے ملنے لگا۔

حکیم اجمل خان کو اپنی مصروفیت کی وجہ سے بہت دیر تک سیاست سے کچھ ایسا لگاؤ نہ رہا چنانچہ 1911ء میں لندن گئے تو انہوں نے دربار تاج پوشی میں شرکت کی۔ اس کے بعد 12 دسمبر 1911ء میں شاہ انگلستان نے دہلی میں دربار کیا تو انہوں نے اسی دربار میں بھی شرکت کی اور لارڈ ہارڈنگ وائسرائے ہند نے خاص طور پر ان کی اور بادشاہ کی پرائیویٹ ملاقات کا بھی انتظام کر دیا۔ پہلی جنگ عظیم میں انہوں نے (اور گاندھی جی نے) انگریز حکومت کی جو خدمت کی اس پر انہیں (اور گاندھی جی کو) حکومت کی طرف سے ’’تمغہ قیصر ہند‘‘ ملا۔ اس سے پہلے 1908ء میں ان کی لمبی خدمات کے صلے میں حکومت برطانیہ کی طرف سے انہیں ’’حاذق الملک‘‘ کا خطاب مل چکا تھا لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد جب تحریک خلافت شروع ہوئی تھی دوستوں کو حیران وپریشان چھوڑ کر وہ ایک اعتدال پسند رہنما کے طور پر کانگریس میں آ گئے اور انہوں نے تحریک میں حصہ لیا۔ تحریک خلافت میں جب یہ طے ہوا کہ تمغے اور سرکاری خطابات واپس کر دیئے جائیں تو حکیم صاحب نے اپنا خطابات اور تمغے واپس کر دیئے۔ قدرتی طور پر انگریز حکومت کو یہ بات پسند نہ آئی اور اسی نے حکیم صاحب کو زک پہنچانے کے لئے ریاستوں کو یہ اشارہ کر دیا کہ حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی والی ریاست انہیں اپنے علاج کے لئے نہ بلائے۔ حکیم صاحب ان والیان ریاست کے علاج کے لئے جاتے تو ایک ہزار روپیہ روزانہ فیس لیتے تھے جو اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی۔ اسی طرح حکومت کے اس اقدام سے ان کی مالی آمدنی بہت کم ہوگئی۔

ان کے خطابات کی واپسی پر جمعیت العلماء نے اپنے اجلاس کانپور میں انہیں قوم کی طرف سے ’’مسیح الملک‘‘ کا خطاب دیا۔

حکیم محمد اجمل خان کی وفات 28 اور 29 دسمبر 1927ء کی درمیانی رات ہوئی۔ قاضی عبدالغفار‘ سید حبیب الرحمان‘ انتظار حسین اور غفران احمد لکھتے ہیں کہ وہ 25 دسمبر کو دہلی سے رام پور کے لئے روانہ ہوئے۔ 28 دسمبر کو رات 11 بجے نواب رام پور ان سے کوئی خاص بات کرنے کے لئے اپنے چیف سیکرٹری کے ہمراہ ان کے کمرے میں آئے۔ نواب صاحب رات پونے دو بجے کے قریب واپس گئے۔ چیف سیکرٹری کو حکیم صاحب نے یہ کہہ کر روک لیا کہ آپ سے ایک خاص بات کرنی ہے۔ اس کے پانچ منٹ بعد ہی ان کو دل کا دورہ پڑا۔ یہ تکلیف پہلے بھی تھی۔ انہوں نے گرم پانی لانے اور ڈاکٹر کو بلانے کے لئے کہا لیکن پانی اور ڈاکٹر کے آنے سے پہلے ہی ہچکیاں لیں اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 661666 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.