پوپ بینیڈکٹ کا حکومت ِ پاکستان
کو اسلامی قوانین میں تبدیلی کے لئے دباؤ کیوں.....
سمجھ نہیں آتا کہ آج ساری دنیا میں انسانیت سوز مظالم رقم کرنے والے عیسائی
مذہب کے پیروکاروں کو دین اسلام اور اِس کی تعلیمات سمیت اسلامی قوانین اور
مسلمانوں سے اتنی نفرت کیوں ہوگئی ہے کہ اِن کا مسلمانوں پر بس نہیں چلتا
ہے کہ یہ مسلمانوں کو مار ڈالیں اور اپنی غلاظت بھری زندگیاں آرام سے
گزاریں جب کہ دین اسلام کے ماننے والے تو ایسے امن پسند اور محبت کرنے والے
لوگ ہیں جن کا ہر ہر عمل خالصتاً اپنے اللہ اور اِس کے رسولﷺ کے احکامات کے
عین مطابق اِن کی اطاعت کرنے اور عالم ِ انسانیت میں محبت اور امن کا درس
دینے ہی میں گزرتا ہے اور جن کی زندگیوں کا مقصد ہی اپنے آخری دم تک عالم
انسانیت میں اللہ اور اِس کے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفیﷺ کے بتائے ہوئے
فلاح کے راستوں کی تبلیغ کرنے سمیت انسانوں میں آپس میں محبتیں باٹنے ا ور
بھائی چارگی کا پیغام دینے اور امن کا پرچار کرتے ہی رہناہے مگر اِن تمام
اچھائیوں اور خوبیوں کے باوجود بھی خاص طور پر عیسائی مذہب کے ماننے والے
مسلمانوں کے اِس نیک عمل سے کیوں خوفزدہ رہتے ہیں....؟؟اِس بارے میں کچھ
نہیں معلوم کہ وہ مسلمانوں سے خوفزدہ کیوں ہیں ...؟؟اوراِسی خوف کے باعث یہ
مسلمانوں کو اپنی راہ کا سب بڑا کانٹا کیوں سمجھتے ہیں....؟؟جبکہ مسلمان تو
امن و سکون اور محبت کا ایک ایسا گہوارہ ہوتا ہے جس سے انسانوں کو فلاح
نصیب ہوتی ہے۔
ہاں ایک مسلمان ہونے کے ناطے میں یہ سمجھ پایا ہوں کہ مذہب عیسائیت کے
ماننے والوں کے نزدیک اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کی امن پسندی ہی اِن کو
مجبور کئے رہتی ہے کہ یہ کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر ہی مسلمانوں کو نقصان
پہنچانے کے لئے طرح طرح کی سازشوں کے جال بُنتے رہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ
لوگ اپنے دلوں میں مسلمانوں سے بے پناہ بغض ا ور کینہ رکھتے ہیں جبکہ
مسلمان اِن سے کوئی بغض رکھتے ہیں اور نہ ہی اِن سے دنیاوی معاملات میں کسی
قسم کا کوئی کینہ .... ہاں البتہ!جہاں اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے احکامات
کی روشنی میں شرعی احکامات و قوانین اور حدود مقر ر ہیں اِس کی مسلمان کسی
طور پر خلاف ورزی نہ تو خود کرنے کا سوچ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی اور کو اِس
بات کی کبھی اجازت دیں گے کہ کوئی اِس کی خلاف ورزی کرے کیونکہ یہ مسلمانوں
کے ایمان کا لازمی جز ہے اور اِسی طرح مسلمان یہ بھی کبھی نہیں چاہیں گے کہ
کوئی ہمارے اسلامی قوانین اور اُصولوں اور ضابطوں پر اپنی مرضی کی ترمیم
کرے /کرائے یا اِنہیں اپنے یا کسی اور کے مذموم عزائم اور مقاصد کی تکمیل
کے لئے اور اِنہیں استعما ل کرنے کے لئے ہم کو کسی بھی قسم کی کوئی رائے دے
یا ہم پر کوئی حکم چلائے۔
جس طرح گزشتہ دنوں ویٹی کن سٹی میں119ممالک کے سفارتکاروں کے سالانہ خطاب
کے دوران عیسائی مذہب کے روحانی پیشوا پاپی،پوپ بینیڈکٹ نے اِس موقع کا
بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مذہب کی مظلومیت کا رونا روتے ہوئے حکومتِ
پاکستان سے مطالبہ کیا کہ پاکستان توہین رسالت کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے
اپنے ملک میں رائج ناموس رسالت ایکٹ کو فوری طور پر منسوخ کرے جس سے
پاکستان میں آباد اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اِس موقع پر عیسائیوں کے
اِس سب سے بڑے روحانی پیشوا پاپی پوپ بینیڈکٹ نے اپنا م٠قف کچھ یوں بیان
کیا کہ اِس قانون کو عذر بنا کر اقلیتی عیسائی برادری کے خلاف استعمال کیا
جارہا ہے اِس کا کہنا تھا کہ پاکستان ناموسِ رسالت قانون ختم اور آسیہ بی
بی کو رہا کرے اور ساتھ ہی مذہب عیسائیت کے ماننے والوں کے روحانی پیشوا
پاپی پوپ بینیڈکٹ نے حکومت پاکستان کو زور دیتے ہوئے یہ بات بھی دُہرائی کہ
سلمان تاثیر کے قتل کے بعد اسلامی قوانین میں فوری پیش رفت کی اشد ضرورت ہے
اور پاکستانی حکومت ملک میں آباد مسیحی برادری کو تحفظ فراہم کرے تاکہ
پاکستان میں عیسائی برادری تشدد اور بغیر کسی امتیازی سلوک کے اپنے مذہبی
عقائد کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے۔
جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں صرف عیسائی ہی اقلیت میں نہیں رہتے
اور بھی دوسرے مذاہب کے ماننے والے یہاں آباد ہیں اور سب اپنے اپنے مذہبی
عقائد کے مطابق اپنے معاملات اچھی طرح سے ادا کرتے آئے ہیں اور کر رہے ہیں
کسی کو کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی اور اِسی طرح عیسائی مذہب کے ماننے والوں
کو بھی اِن کے مذہبی عقائد کی ادائیگی کے سلسلے میں نہ تو پہلے کبھی کوئی
پریشان لاحق تھی اور نہ آج اِنہیں اپنی مذہبی عقائد کی ادائیگیوں میں کوئی
رکاوٹ ہے تو پھر ویٹی کن سٹی میں 119ممالک کے سفارتکاروں کے سالانہ خطاب کے
دوران عیسائیوں کے بڑے روحانی پیشوا پاپی پوپ بینیڈکٹ کو بھلا کیا پڑی تھی
کہ وہ صرف اپنی مسیحی برادری کی مظلومیت کا رونا یوں روتا کہ جیسے پاکستان
میں آباد عیسائیوں کی مذہبی آزادی ختم یا محدود کی جارہی ہے حالانکہ
پاکستان میں بسنے والے کسی بھی عیسائی مذہب کے ماننے والے سے پاپی پوپ
بینیڈکٹ اگر خود پوچھے تو یہ اِسے ضرور بتائیں گے کہ پاکستان میں اِنہیں ہر
وہ مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے جو امریکا، یورپ اور دنیا کے کسی بھی ملک میں
بسنے والے کسی بھی عیسائی کو حاصل ہے۔ مگر اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی
پاپی کٹ کو صرف اپنی برادری ہی پاکستان میں سب سے زیادہ مظلوم نظر آرہی ہے۔
اگرچہ عیسائیوں کے اِس بڑے روحانی پیشوا پاپی پوپ بینیڈکٹ کی طرف سے آج یہ
کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ اِس نے اُمت مسلمہ اور بالخصوص پاکستان میں رائج
اسلامی قوانین کے خلاف کوئی نازیبا الفاظ ادا کئے ہوں اور کوئی نیا پاپ کیا
ہو بلکہ بینیڈکٹ نے آج دنیا کے 119ممالک کے سفارت کاروں کے سامنے پاکستان
میں بسنے والی مسیحی برادری سے متعلق جس طرح اپنی مظلومیت کا رونا رویا ہے
اور حکومت ِ پاکستان سے ملک میں رائج اسلامی قوانین میں ترامیم کرانے کے
لئے کہا ہے یہ اِس سے قبل بھی کئی مرتبہ اِسی اکڑائی سے حکومت پاکستان پر
اپنا ایسا ہی حکم چلا چکا ہے کہ وہ ملک میں آباد مسیحی برادری کو مذہبی
آزادی کے حصول کے خاطر پاکستان میں رائج امتیازی اسلامی قوانین میں ترامیم
کرے جس کے بعد حکومتی حلقوں نے جب بھی اِسلامی قوانین میں ترامیم کے لئے سر
اٹھایا تو ہر مرتبہ الحمداللہ! پاکستان میں آباد ایک اللہ اور ایک رسول ﷺ
کو ماننے والے اور عاشقان مصطفی ﷺ اِس معاملے میں حکومت کے سامنے ایک سیسہ
پلائی ہوئی دیوار کے مانند کھڑے ہوگئے۔اور پھر حکومت کچھ نہ کرسکی اور اِس
بار بھی ایسا ہی ہے بلکہ آج تو پاکستان کے مسلمان پہلے سے زیادہ مضبوط و
متحداور منظم ہوکر حکومت کے سامنے اِس کی آنکھ میں آنکھ ڈالے کھڑے ہیں اور
یہ حکومت کو اپنے جذبہ ایمانی سے للکار رہے ہیں کہ اگر اِس نے کسی بھی
صُورت میں ناموسِ رسالتﷺ کے قانون میں ترامیم کرنے کی کوشش کی تو یہ اِس کے
حق میں بہت بُرا ہوگا۔
ہاں البتہ ! اِس سارے منظر و پس منظر میں اَب یہ تو حقیقت ہے کہ شائد حکومت
کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھ آچکی ہے کہ کسی کے دباؤ میں آکر ناموسِ رسالت ﷺ
میں اگر ترمیم کی گئی تو حکومت کا یہ عمل اِس کے لئے بھی ٹھیک نہیں ہوگا
اور اِس کے ساتھ ہی ملک میں ایک ایسا بھونچال آجائے گا کہ حکومت کو اِس سے
جان چھڑانی مشکل ہوجائے گی تب ہی تو ایک تقریب سے خطاب کے دوران ہمارے ملک
کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے یہ واضح کردیا کہ ناموسِ رسالت ﷺ ایکٹ
میں کوئی تبدیلی نہیں کررہے ہیں جبکہ اِن کا اِس موقع پر آسیہ بی بی سے
متعلق یہ کہنا تھا کہ آسیہ بی بی کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہوگا جس کے
بعد بعض مذہبی اور سیاسی حلقوں سمیت عوامی سطح پر بھی یہ سوال اُبھر کر
سامنے آرہا ہے کہ وزیراعظم کے اِس وعدے اور بات پر چلو بالفرض یقین کر لیا
جائے کہ حکومت ناموسِ رسالتﷺ ایکٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کرے گی..... مگر
کیا آسیہ بی بی کو اُس قانون کے مطابق سزا دی جائے گی جس کا مطالبہ ملک کے
مذہبی اور عوامی حلقے بڑی شدت سے کر رہے ہیں...؟اگر ایسا نہیں تو پھر وزیر
اعظم یوسف رضا گیلانی نے عوام کو آسیہ بی بی کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کے
حوالے سے کس قانون کی یقین دہانی کرائی ہے......؟یہاں میرا یہ کہنا ہے کہ
وزیراعظم کیا ہے اچھا ہوتا کہ آپ یہ بھی واضح کردیں کہ آسیہ بی بی کے ساتھ
اسلامی قوانین کے مطابق ہی سلوک ہوگا یا کسی اور قانون کے تحت اِس کے ساتھ
کوئی سلوک روا رکھا جائے گا.....؟؟؟تاکہ ملک کے مذہبی حلقے اور عوام آج جس
مخمصے اور الجھن کا شکار ہوگئے ہیں وہ اِس سے نکل سکیں۔
بہرکیف! آج ملک کی تمام مذہبی جماعتوں نے پاپی پوپ بینیڈکٹ کے پاکستان میں
رائج اسلامی قوانین میں ترامیم سے متعلق کئے جانے مطالبے پر اپنے جس غم و
غصے کا اظہار کیا ہے اِسے حکومت ِ پاکستان کو بھی اچھی طرح سے سمجھنا چاہئے
اور ساتھ ہی حکومت ِپاکستان کی جانب سے لازمی طور پر عیسائیوں کے روحانی
پیشوا پاپی پوپ بینیڈکٹ کو ایسے خطوط لکھے جانے چاہئیں کہ جس میں حکومت ِ
پاکستان اِسے یہ واضح کرے کہ وہ پاکستان میں رائج کسی بھی اسلامی قوانین
میں ترامیم سے متعلق اپنی رائے دینے سے قطعاََ اجتناب برتے جس کی جانب سے
بار بار ایسے مطالبوں کی وجہ سے پاکستانی مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو شدید
ٹھیس پہنچتی ہے اور امُت مسلمہ بھی مشکل سے دورچار ہوجاتی ہے ۔اور ساتھ ہی
حکومت ِ پاکستان پاپی پوپ بینیڈکٹ سے یہ بھی ضرور کہے کہ وہ پاکستان اور
بالخصوص مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کرنے سے بھی باز رہے جس کی
وجہ سے مسلمانوں میں عیسائیوں کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔
اور یہاں آخر میں میرا اپنی حکومت کو یہ مشورہ ہے کہ یہ کام اگر حکومت ِ
پاکستان مصالحتوں کا شکار ہوکر(جیسا کہ یہ اکثر و بیشتر ایسے بہت سے
معاملات میں ہوجایا کرتی ہے) خود نہیں کرسکتی تو یہ کام ملک کی تمام مذہبی
جماعتوں کو خود کرنے دے وہ باہم متحد اور منظم ہوکر عیسائیوں کے روحانی
پیشوا پاپی پوپ بینیڈکٹ سے اپنے مذہبی معاملات کے حوالے سے پہنچنے والی ہر
ٹھیس کا خود جواب لے لیں گیں۔اور آئندہ اِسے نہ صرف پاکستان سے متعلق ہی
نہیں بلکہ اُمتِ مسلمہ کے بھی کسی معاملے میں مداخلت کرنے سے روک دیں گیں۔ |