یہ روش ہمیں کہیں کا نہ چھوڑے گی۔

جب تک ہم قانون ، انصاف ، اور ضابطوں کے خوگر نہ ہونگے۔نہ کوئی بہتر قومی تشخص ملے گا نہ ہی ریاست کو کوئی معتبر نام۔ہم اس وقت اقوام عالم کی نظر میں بڑے غیر ذمہ داری۔انتہاپسند اور شدت پسند قسم کی کوئی مخلوق ہے۔ہمیں چڑ تو بہت ہے مگر گریبان میں جھانکنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ممکن ہے ہم سے منسوب آدھی سے زائد باتیں جھوٹی اور تعصبانہ ہوں مگر یہ جو آدھی سے کم سچی قباحتیں موجود ہیں انہیں دور کرنے کی ضروت نہیں۔قانون کا دہرا معیار چاہتے ہیں۔اپنے لیے کچھ دوسروں کے لیے کچھ ، ٹریفک سگنل پر رکنا توہین سمھتے ہیں۔غلطی پر کوئی ڈانٹے تو دشمنی پر اتر آتے ہیں۔ادارے آپس میں گتھم گتھاہیں۔یہاں اختیار کا تعین اس کتاب کے اعتبار سے نہیں ہورہا جس میں یہ لکھے ہوئے ہیں۔بلکہ اپنی ہمت او رزو رکے بل بوتے پر کام نکالا جارہاہے۔

محترمہ کلثوم نواز کی وفات نے پاکستان میں غم کی لہر دوڑادی ہے۔بالخصوص مسلم لیگ (ن ) والے جوپہلے ہی بے زار بیٹھے تھے۔ان کی بے کلی دوچند ہوئی۔اس جماعت کے ساتھ پچھلے دو عشروں سے مخاصمت برتی جارہی ہے۔کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا گیا۔اس جماعت کی قیادت کے پر کاٹنا ۔اس کی راہیں مسدود کرنا مخالفین کا سب سے بڑا ٹارگٹ بنا رہا ہے۔ مخالفت کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ نوازشریف پاکستان میں جاری ستر سالہ منافقانہ کھیل کا حصہ بننے سے انکاری ہیں۔انہیں ریاست کو کھوکھلاکرنے والا پتلی تماشہ منظور نہیں۔یہ ایسا گھناؤنا کھیل ہے جس میں بند ربانٹ کرکے عوام کے حصے کے وسائل ہڑپ کیے جاتے ہیں۔ایک چھوٹا سا دھڑا یہ کھیل رچاررہاہے۔اور کثریت کے حقوق کو سلب کررہا ہے۔نوازشریف کی اسی بغاوت کے سبب پچھے دو عشروں سے یہ جماعت زیر عتاب ہے۔کچھ مجبوریاں حائل نہ ہوتیں تو اب تک اس جماعت اور اس کی قیادت کو اٹھا کر بحیرہ عرب میں پھینکا جاچکا ہوتا۔ محترمہ کلثوم نوازکی وفات متوالوں کے لیے ایک عظیم صدمہ ہے۔ جس طرح کی ناانصافی اور انتقام کااحساس پایا جارہا ہے اس سے لیگی کارکنان میں جزباتیت بڑھ رہی ہے۔اس سے قبل بڑے میاں صاحب کی وفات بھی ایسے ہی ایام میں ہوئی تھی ۔تب بھی شریف فیملی کوشدید قسم کی مخالفانہ کوششوں کا سامنا تھا۔کارکنان میں تب بھی شدید طیش پایا جارہاتھا۔اس کی قیادت تب بھی پابندیوں سے دوچارتھی ۔الطاف حسین سمیت دیگران تو جلا وطنی کے دوران تمام تر سیاسی مصروفیات نبھانے پرقادر تھے مگر شریف فیملی پر مکمل پابندیاں تھیں۔کچھ بے ایمان اس بات پر مصر ہیں کہ نوازشریف بھاگ گئے تھے۔مگر حالات وواقعات نے ثابت کردیا کہ وہ بھاگے نہیں نکالے گئے۔ 10ستبمر 2007کا دن اس جلاوطنی کی ساری حقیقت بے نقاب کرگیا۔یہ وہ دن تھاجب نوازشریف نے وطن واپسی کی کوشش کی۔ مشر ف حکومت نے پورازور لگادیا کہ میاں صاحب پاکستان نہ آسکیں۔سارے حربے استعمال ہوئے۔اس ایک دن نے کئی حقائق وا کیے۔اگر نوازشریف بھاگے تھے تو واپسی میں رکاوٹیں چہ معنی وارد۔آپ نے انہیں پکڑ کر جیل میں کیوں نہ بندکیا۔ ا س دن کے بعد شریف فیملی کو بھگوڑا قراردینا ناممکن ہوگیا۔

محترمہ کلثوم نوا ز کی وفات بھی جن ایام میں ہوئی وہ بھی کچھ اسی طرح کا ماحول بنائے ہوئے ہیں۔ان کے میاں ۔داماداور بیٹی ایک مشکوک فیصلے کے تحت جیل میں ہیں۔یہ اتنا کمزور فیصلہ ہے کہ اسے نہ عوام نے ہضم کیا نہ عالمی برادی مطمئن ہوپائی۔فیصلہ دینے والے ججز صاحبان کا رویہ اس قدر متنازعہ رہا کہ غیر جانبداری پر سوال اٹھنے لگے۔اگر کسی کیس میں جج یہ کہے کہ ایسا فیصلہ دیں گے جو بیس سال تک یاد رکھا جائے گا تو اس کیس کے فیصلے کی ساکھ کا ندازہ لگایا جاسکتاہے۔بظاہر یہی لگتاہے کوئی بھی غیر جانبدار بینچ دوسری ہی پیشی میں اس مشکوک فیصلے کو ملیا میٹ کردے گا۔محترمہ کلثوم نوازایک سال ایک مہینہ کینسر کے موذی مرض سے لڑتی رہی ہیں۔اس تمام عرصہ میں ان کی فیملی کو شدید پریشانی اور مشکلات کا سامنا تھا۔ مخاصمت رکھنے والوں نے ان کی بیماری کو لے کر بھی بڑے جھوٹ بولے ۔ڈرامہ قرار دیا گیا۔بھاگنے کی کوشش کہا گیا۔الیکشن کے قریب یہ تک کہہ دیا کیا کہ محترمہ وفات پاچکی ہیں۔نوازشریف ان کی موت کا الیکشن کے بالکل قریب اعلان کرکے عوامی ہمدری سمیٹیں گے۔اس قدر شیطانیت پائی گئی کہ جب بھی کوئی ایسی خبر آتی جو محترمہ کی صحت میں کسی قدر بہتری آنے سے متعلق ہوتی تو اس کا مذاق اڑایاگیا۔اسے ڈرامہ قراردیا گیا۔ڈیل کے لیے کوئی شعبدہ بازی تصور کیا گیا۔محترمہ کی وفات کے بعد کچھ لوگ تفویض کی گئی جھوٹ گھڑنے کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے۔

غلطی ،کوتاہی ہوجانا بڑی بات نہیں بڑی بات اس کے دفاع میں ڈٹ جاتاہے۔ہم اپنی کوتاہیاں جاننے کے باوجود انہیں دو رکرنے پر آمادہ نہیں ۔اپنی قباحتوں کے مضمرات بھگتتے رہتے ہیں پھر بھی ہوش کے ناخن لینے پر آمادہ نہیں۔لاقانونیت ۔دھکے شاہی اور اندھیر نگری کا یہ ماحول ہمارے مستقبل کی بڑی ڈراؤنی تصویرچھپائے ہوئے ہیں۔ہماری آزاد ی داؤ پر لگی ہے۔ہمارا تشخص مجروح ہے۔سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔سمجھ میں بھی آرہا ہے مگر اصلاح پر آمادہ نہیں۔ ریاست کے بارے میں عالمی رائے زنی بڑی منفی۔پورے کا پورامعاشرہ گھٹن کا شکارہے۔سخت قسم کی منافقانہ روش ہے۔بلبلا بھی رہے ہیں کچھ کرنا بھی نہیں چاہتے۔کبھی کچھ کیا بھی تو کچھ نہ حاصل ہوا۔بجائے عقل اور تجربے کو استعما ل کرکے کوئی مستقل اور دیرپا لائحہ عمل ڈھونڈا جائے۔ نت نئے تجربے کیے جارہے ہیں۔کبھی جمہوریت کے نام پر کبھی مذہب کے نام پر کبھی آمریت کے نام پر ۔اب تبدیلی کے نام پر نیا تجربہ کیا جارہاہے۔یہ تجربات فضول ہیں۔جب تک ہم خرابی کی اصل جڑ کو نہ اکھاڑیں گے۔کچھ نہ ملے گا۔ہم پھلدار پودے کو کاٹ دینے اور خاردار پودے کو پانی دینے کی حماقت جب تک نہ چھوڑیں گے سدھار ممکن نہیں۔کوئی اصلاح کے لیے آگے بڑھے تو اس کی ٹانگیں کھینچتے ہیں۔کوئی بگاڑ کے لیے آئے تو اس کی سہولت کاری کرتے ہیں۔غیر ذمہ دارانہ اور بدنیتی پر مبنی روش جب تک موجو د ہے۔اصلاح کے لیے کیے جانے والے سارے تجرے ناکام ہوتے رہیں گے-

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 140965 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.