عمران خان کے وزیر اعظم ہاؤس استعمال نہ کرنے پر
خلیجی اخبار میں شائع کیے گئے تجزیہ کے مطابق کہا گیا ہے کہ عمران خان کے
اس عمل سے خزانے کا بوجھ کم ہوگیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم ہاؤس استعمال نہ کرنے سے قومی خزانے کو پونے 2
ارب سے زائد کی بچت ہو رہی ہے۔ عمران خان نے وزیر اعظم ہاؤس عوامی فلاح کے
لیے استعمال کرنے کا عندیہ دیا تھا، انہوں نے اپنے خطاب میں وزرا کالونی
میں مقیم ہونے کا اشارہ دیا ۔ عمران خان جہاں بھی رہیں وزیر اعظم ہاؤس
منتقل نہ ہو کر عوام کو یہ واضح پیغام دیا ہے ۔
خلیجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق عوام پر عمران خان کے فیصلے کا نہایت
مثبت اثر اور یقین میں اضافہ ہوا۔ سادہ رہائش سے عوام میں اعتماد پیدا ہوا
کہ ٹیکس کا پیسہ ضائع نہیں ہو رہا ہے ۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ نواز شریف نے دو دہائیوں پہلے وزیر اعظم ہاؤس کی
عمارت کا افتتاح کیا تھا۔ وزیر اعظم ہاؤس کو مغل دور کے شاہی محلات کی طرز
پر تعمیر کیا گیا تھا۔ 5 وسیع باغیچے اور پھلوں کا ایک بڑا باغ وزیر اعظم
ہاؤس کا حصہ ہے۔ کئی تالاب، بڑا ہال، کمیٹی رومز بھی وزیر اعظم ہاؤس کا حصہ
ہے۔وزیر اعظم ہاؤس میں ملازمین، محافظ، پولیس و دیگر عملے کی رہائش گاہیں
بھی احاطے میں قائم ہیں۔ 50 افسران پر مشتمل پروٹوکول دستہ آؤ بھگت کے لیے
ہر وقت تیار رہتا ہے۔ شاہی عمارت کی حفاظت پر سالانہ 980 ملین روپے خرچ کیے
جاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم ہاؤس کے عملے کے لیے 700 ملین روپے مختص ہوتے
ہیں، 150 ملین روپے مہمانوں کے خیر مقدم،تحائف پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ وزیر
اعظم ہاؤس کی سالانہ تزئین و آرائش پر 15 ملین خرچ ہوتے ہیں۔رپورٹ میں مزید
کہا گیا کہ تحریک انصاف قیادت سمجھتی ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں 4 جامعات
قائم ہوسکتی ہیں
عمران خان کو اب انتہائی محتاط رہنا ہوگا اور تدبر و بصیرت کا عملی مظاہرہ
کرنا ہوگا۔ انہیں گفتگو کے دوران الفاظ کا بہتر انتخاب کرنا ہوگا۔ کابینہ
سازی ایک مشکل کام تھا جس طرح کرکٹ میں کپتان کو جیت کیلئے ٹیم کا انتخاب
میرٹ پر کرنا ہوتا ہے اسی طرح وزیراعظم کو گڈ گورنینس کیلئے مثالی، معیاری،
اہل اور دیانتدار کابینہ کی ضرورت ہے۔ ضروری تھا کہ کابینہ کا سائز چھوٹا
ہو تا اس میں خواتین کی پوری نمائندگی ہو تی۔ عمران خان اگر وسیع البنیاد
حکومت تشکیل دیں تو یہ اقدام حکومت اور ریاست دونوں کے مفاد میں ہوگا۔ اگر
وہ ریاست کو چلانے کیلئے موزوں افراد کا انتخاب کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو
پاکستان ایک سال میں سیاسی اور معاشی استحکام کا ہدف پورا نہیں کر سکے گا ۔
پاکستان کو نفرتوں کی نہیں بلکہ برداشت اور رواداری کی ضرورت ہے۔
عمران خان سیاسی تقریروں میں نیلسن منڈیلا، لی کوان اور مہاتیر محمد کے
حوالے دیتے رہے ہیں۔ قائداعظم اور علامہ اقبال انکے رول ماڈل ہیں۔اﷲ تعالیٰ
نے عمران خان کو تاریخ کے اہم موڑ پر مثالی قیادت اور معیاری گورنینس دینے
کا سنہری موقع دیا ہے۔ خدا کرے وہ نیا پاکستان تشکیل دینے میں کامیاب
ہوجائیں اور بیس کروڑ عوام سکھ چین اور عزت و آبرو کے ساتھ زندگی گزارنے کے
قابل ہوسکیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں کے عوام نے عمران خان پر اپنے اعتماد
کا اظہار کیا ہے لہذا عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے انہیں حکومت چلانے
کا فیئر چانس ملنا چاہیئے۔
اگر چہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے مشن کے مطابق کام اور کام کو اپنا مطمح
نظر بنا لیا اور اب تک خود زیادہ وقت دے کر اپنے ساتھیوں کو بھی اِسی راہ
پر چلنے کی نشاندہی کی۔اس کے علاوہ انہوں نے زیادہ زور اخراجات میں
کمی،پروٹوکول کی نفی اور سادگی پر دیا ہے، خود بھی ابھی تک عمل کرتے دکھائی
دیتے ہیں کہ دفاتر اور میٹنگوں میں کھانے وغیرہ کی روائت ترک کر کے چائے پر
اکتفا کیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان بوجوہ یہ توقع کرتے ہیں کہ ان کے
وزراء مدد گار اور مشیر بھی اس پر عمل کریں گے، یہی وجہ ہے کہ بیشتر وزراء
نے تو تنخواہ اور سرکاری کار تک لینے سے گریز کیا ہے۔ نامزد گورنر حضرات نے
ذاتی رہائش گاہ پر رہنے کا اعلان کر دیا ہے، تاہم اِس سلسلے میں بہت جلد جو
دو مثالیں سامنے آئیں اْن کی وجہ سے تبدیلی تنقید کی زد میں ہے۔اگرچہ میڈیا
اور سیاسی جماعتیں اِس امر کی قائل ہیں کہ حکومت کو اپنے پروگرام کی تکمیل
کے لئے وقت ملنا ضروری ہے،تاہم میڈیا کا یہ فرض بھی تو ہے کہ وہ چیئرمین
تحریک انصاف وزیراعظم عمران خان کے ویژ ن کی خلاف ورزی ہو تو نشاندہی ضرور
کرے اور میڈیا کو یہ فرض تعصب کے بغیر غیر جانبداری سے نبھانا چاہئے۔ہماری
گزارش یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان جس پروگرام کا اعلان اور اِس پر عمل کی
تلقین کرتے ہیں ،اس پر عمل درآمد کا بھی دھیان رکھیں۔یہ درست ہے وہ وزراء
کی کارکردگی مانیٹر کرا رہے ہیں تاہم خود اپنے اردگرد ہونے والی خلاف ورزی
پر ابتدا ہی میں توجہ دینا ضروری ہے۔فواد چوہدری کا قادیانیوں کی حمائت میں
بیان انتہائی غیر مناسب تھا جس سے مسلمانوں کی دل شکنی ہوئی ہے
پاکستان تحریک انصاف تحریری طور پر ایک جماعت ہے لیکن یہ اس سے کئی گنا بڑی
ہے۔یہ ایک ایسے خوشحال پاکستان کا خواب ہے جہاں ہر مرد اور عورت کی خوداری
ہو اور وہ انسانیت کے اصولوں پر عمل کرتے ساتھی شہریوں کا خیال رکھیں۔
اس تحریک کے بانی عمران خان کا مقصد تمام افراد کیلئے انصاف کی یکساں
فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔کیونکہ ان کا یقین ہیکہ ایک منصف معاشرہ ہی
کامیابی کی منزلیں طے کرتا ہے
بنیادی طور پر تحریک انصاف چاہتی ہے کہ ہر پاکستانی بحثییت قوم اپنی بہترین
تصویر پیش کرے اور ہمارے لیے دنیا میں نام پیدا کرے۔ہم یقین رکھتے ہیں کہ
پاکستانی تمام قدرتی وسائل ،محنتی،قابل اور مخلص لوگوں سے مالامال ہے۔ لیکن
بدقسمتی سے ناانصافی اور کرپٹ حکمرانوں کی وجہ سے ہم اپنے وسائل کو بھرپور
طور پر بروئے کار نہیں لا سکے۔ہم پاکستان کو خود مختار قوم دیکھنا چاہتے
ہیں جو اپنی عوام کے مفاد کو اہمیت دیتے ہوئے خودمختار فیصلے کرے پاکستان
تحریک انصاف کے اولین مقاصد میں سے ایک مقصد ہمارے عدالتی نظام کو آزاد
کرانا تھا تاکہ تمام شہری چاہے وہ امیر ہوں یا غریب ان کو یکساں انصاف
فراہم ہو۔ہمیں فخر ہے کہ پاکستان وکلا تحریک میں مرکزی کردار ادا کرنے کے
بعد اور تمام افراد کیلئے ان کی سماجی درجہ بندیوں اور آبادیات کے باوجود
منصف نطام کی مسلسل وکالت کر رہا ہے
تحریک انصاف کا ایک اور مقصد پاکستان میں بے ایمان اور کرپٹ حکمرانوں کے
چنگل سے نجات حاصل کرنا ہے جنہوں نے پاکستان کی عوام سے پیسہ لوٹ کر بیرون
ملک اپنی دولت میں بھرپور اضافہ کیا
پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد 25 اپریل 1996 میں لاہور میں رکھی
گئی۔پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں اپنی پہلی نشت 2002 کے الیکشن
میں حاصل کی۔جب عمران خان نے میانوالی سے قومی اسمبلی کی نشست جیتی۔تحریک
انصاف نے 2008 میں کرپشن کے خلاف اپنے بنیادی موقف کو برقرار رکھتے ہوئے
الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور 2013 میں 7.5ملین ووٹ حاصل کر کے دوسری بڑی
جماعت بن کر سامنے آئی۔ہم نے خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی جہاں ہماری
مرکزی توجہ ایک عام انسان تھا۔تمام افراد کیلئے یکساں انصاف کی فراہمی کو
یقینی بنانے کیلئے خودمختار اور آزاد پولیس کا قیام،سرکاری سکولوں کی تجدید
نو جس کے نتیجے میں 34000 سے زائد طالب علم پرائیویٹ اسکولوں سے سرکاری
اسکولوں میں منتقل ہوئے،صحت کی حکمت عملی میں تبدیلی تاکہ ضرورت مند افراد
کی نگہداشت کی جا سکے اور بدعنوان نظام میں نمایاں کمی شامل ہیں جن کی
پزیرائی ہمارے بدترین مخالفین بھی کئے بنا نہ رہ سکے
پاکستان تحریک انصاف کیلئے ناقابل فراموش لمحہ مینار پاکستان پر 30 اکتوبر
2011 کس عظیم والشان جلسہ تھا جہاں تمام آبادیات سے تعلق رکھنے والے افراد
بالخصوص نوجوان نسل اور خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی تاکہ عمران خان کو
یقین دلایا جا سکیکہ پاکستان کے موجودہ نظام کے خلاف وہ عمران خان کے ساتھ
شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد دسمبر 2011 کراچی کے جلسے نے
اس بات پر مہر لگا دی کہ اس تحریک نے پاکستان کو ہمیشہ کیلئے تبدیل کرنا ہے
کیونکہ ملک کی نوجوان نسل نے اس ملک کی ملکیت کو تسلیم اور اپنانا شروع
کردیا۔ان کی تبدیلی کیلئے ثابت قدمی چٹان کی طرح مضبوط تھی۔ بغیر کسی شک و
شبہ کے اس تحریک کا موازنہ جناح کی تحریک پاکستان سے کیا جا سکتا ہے۔عمران
خان اس "نئے پاکستان کی جدوجہد" کہتے ہیں وعدے اور حلف:عمران خان نے
پاکستان سے چھ وعدے کئے۔اس کے بدلے میں پاکستانیوں سے 4 حلف لئے۔یہ وعدے
درج ذیل ہیں:
1-میں اپنی قوم سے کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا2-میں اور میری حکومت ملک میں
ناانصافی کے خلاف جہاد کرے گی
3-میں اپنی تمام دولت پاکستان میں رکھوں گا۔میں دوسرے حکمرانوں کی طرح نہیں
جو حکومت تو پاکستان میں کرتے ہیں لیکن اپنی دولت بیرون ملک رکھتے ہیں۔
4-میں تحریک انصاف کی حکومت کے دوران کوئی بھی غیر منصفانہ فائدہ لینے کی
اجازت نہیں دوں گا
5-میں قوم کے ٹیکس کی حفاظت کروں گا۔یہ گورنر،وزیراعظم اور وزیراعلی کی
رہائش پر خرچ نہیں ہوگا۔حکومت تحریک انصاف گورنر ہاوس کی فصیل توڑ دے گی
6-ہم بحیثیت پاکستانی بیرون ملک پاکستانیوں کے ساتھ کھڑے ہونگے
پاکستان کی عوام سے لئے گئے 4 حلف کی تفصیل درج ذیل ہے1- پاکستان سے موجودہ
نظام کے خاتمے کیلئے تعاون2- ظلم کرنے والوں سے خوف نہیں کھانا اور برائی
کے خلاف مشترکہ جنگ میں تعاون
3سچ بولنا اور پاکستان کے ساتھ وفادار رہنا4- پاکستان کو خوشحال اور
خودمختار ملک بنانے کیلئے مشترکہ جدوجہد کرنا۔ہمارا نظریہ:
بحثیت قوم ہم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتے جب تک ہماری معیشت عالمی قرض
خواہوں اور چندہ دینے والوں پر انحصار کرے گی۔عالمی چندہ دینے کی حکمت عملی
نے ایک عام شہری کا باعزت طریقے سے زندگی گزارنا محال کردیا ہے۔ہمیں
خودمختاری کیلئے کوشش کرنی ہو گی۔خودمختاری کا مقصد آپ کو عالمی معیشت سے
علیحدہ کرنا ہرگز نہیں ہے۔یہ ہمارے اس ارادے کو ظاہر کرتا ہے کہ سرکاری
اداروں پر عوام کا اعتماد بحال کرنے سے ہی ہم ان کی قابلیت کا بھرپور
استعمال کر سکتے ہیں اور ان کو بہتر مستقبل کیلئے حرکت میں لا سکتے ہیں۔ ہم
ایسی نئی اور قابل اعتبار قیادت لائیں گے جو حکومت اور عوام کے درمیان
اعتماد کے نئے تعلق کو قائم رکھتے ہوئے پاکستان کی سیاسی اور معاشی
خودمختاری بحال رکھیں گے
صرف لوگوں کی متحرک شرکت کے ذریعے ہی ہم اجتماعی طور پر انسانی اور مادی
وسائل کو بروئے کار لا سکتے ہیں۔ہم قابل اعتبار جمہوریت،حکومتی
شفافیت،قیادت کے احتساب کے ذریعے سیاسی استحکام کیلئے پر عزم ہیں
ہم وفاقیت اور فعال صوبائی خودمختاری پر یقین رکھتے ہین۔ہم ایسے اعتدال
پسند معاشرے کیلئے کوشاں ہیں جو نفرت اور مذہبی تعصب کا قلع قمع کردے۔ہماری
توجہ مزہبی شدت پسندی کی بنیادی وجوہات کی طرف مرکوز ہے۔ جو کہ ناانصافی
،غربت،بیروزگاری اور جہالت ہیں۔جبکہ اسلام اور دو قومی نظریہ، پاکستان کی
بنیاد رہیں گے۔معاشرے میں خوف لانے کیلئے مذہبی ہٹ دھرمی کو جوش و جزبات
ختم کرنے کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بر عکس ایک خالص اسلامی
معاشرہ برداشت،اعتدال پسندی اور اپنے پسند کے مذہب کے مطابق آزادی کے ساتھ
بغیر کسی خوف کے زندگی گزارنے کو ترغیب دیتا ہے۔فرقہ پرستی ایک لعنت ہے جس
کا معاشرے سے خاتمہ ضروری ہے۔
ہماری خاندانی روایات معاشرے کو یکجا کرتی ہیں۔ہمیں ضرور ان کو محفوظ اور
مضبوط کرنا چاہئے کیونکہ مستقبل میں وہی ہماری کامیابی کا راز ہیں۔پیسنے
والی غربت اور ناانصافی کے باوجود یہ خاندانی ساخت اور نظام ہی تو ہے جو
سماجی تانے بانے جوڑے ہوئے ہے۔
صرف قانون پاس کرنے سے وہ زمینی حقائق جو لوگوں کو بچوں کو کام پر بھیجنے
پر مجبور کرتے ہیں،تبدیل نہیں کئے جا سکتے۔ہم صحت و نشونما اور تعلیم کے
لئے بچوں کی موجودہ مایوس کن صورت حال سے منہ نہیں موڑ سکتے۔بچوں کی مکمل
پرورش کیلئے ہماری ماوں کا صحت مند اور تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔
ایک اسلامی معاشرے کو اپنے بزرگ شہریوں جو سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتے
ہیں،مکمل خیال رکھنا چاہیے۔ان کو خاص توجہ اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے
نہ صرف اس لئے کہ وہ غیر محفوظ ہوتے ہیں بلکہ سب سے زیادہ انمول اور معاشرے
کا سب سے زیادہ نظرانداز کیا ہوا حصہ ہیں
ہمارا مقصد
مشترکہ نظریے پر منحصر،متنوع افراد کے درمیان سیاسی اتحاد کی نشونما اور
اسے برقرار رکھنے میں پاکستان ایک مثالی تجربہ ہے۔مشترکہ قومی اتحاد کے تار
سے جوڑنے کے باوجود ہماری ثقافت امیر اور متنوع ہے۔جس میں مذہبی اقلیتیں
بھی شامل ہیں۔ثقافت اور نسلی تنوع اختلاف نہیں لایا بلکہ ہمارے معاشرے کو
مالدار اور متحمل بناتا ہے۔ہمیں اس ثقافتی اور روایتی تنوع کے فروغت کیلئے
تمام مواقع استعمال کرنے چاہیں۔
قومی خودمختاری کو بر قرار رکھتے ہوئے ایک ایسے منصف معاشرے کا قیام جس کی
بنیاد انسانی اقدار ہوں۔ہمارے سماجی،ثقافتی اور مذہبی اقدار کے مطابق سیاسی
اور معاشی انتخاب کے خودمختار اور ناگزیر حق کو پاکستان تحریک انصاف بحال
کرے گی۔ہم وسیع بنیادوں پر تبدیلی کی تحریک ہیں جن کا مقصد انصاف پر مبنی
ایک آزاد معاشرے کا قیام ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ قومی گجدید تبھی ممکن ہے جب
عوام صحیح معنوں میں آزاد ہوگی۔ |