وزیراعظم عمران خان نے مستقبل میں ملک میں پیدا ہونے والی
پانی کی شدید قلت کو محسوس کرتے ہوئے جناب چیف جسٹس ثاقب نثار کی شروع کی
گئی ڈیمز کی تعمیر کے لیے چندہ مہم کو آگے بڑھاتے ہوئے دنیا بھر میں موجود
اور پاکستان میں موجود صاحب استطاعت پاکستانیوں سے مدد کیا مانگی کہ ہر طرف
ہل چل مچ گئی جس پر اپوزیشن جماعتیں اپنا گریبان پھاڑ کر ہر طرف چلاتی نظر
آئیں کہ کسی نے فقیر اورکسی نے انوکھا وزیراعظم کہا کہ جس نے ریاستی وقار
اور خودداری کو داؤ پہ لگانے کی نئی مثال قائم کی ہے اور ساتھ ہی ببانگ ِ
دہل اعلان کر دیا ہے کہ چندوں سے ملک نہیں چلتے صرف ہسپتال بنتے ہیں اور
عوام کو ڈیم کی آڑ میں ڈیم فول بنایا جا رہا ہے الغرض ہر کسی نے اپنی کدورت
کے مطابق اظہار کیا اور تحریک انصاف حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ۔۔مگراندرون
اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے ’’ لبیک ‘‘ کہا اور ہر کسی نے اپنی حیثیت
کے مطابق اپنا حصہ ڈالنے میں فخر محسوس کیاہے ۔ایسے میں تما م اپوزیشن
جماعتوں کی حسرت و حیرت ، ندامت ،ڈھٹائی اوربے یقینی دیکھ کر دل بے ساختہ
کہہ اٹھتا ہے کہ
عروجِ آدمی خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہِ کامل نہ بن جائے !
اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ ستر دہائیاں گزر گئیں اورڈیمز کی تمام تر
افادیتوں کے باوجودسابقہ حکومتوں میں سے کسی حکومت نے بھی اس مسئلے پر
سنجیدگی سے کوئی کام نہیں کیا بلکہ یہ کہنازیادہ درست ہوگا کہ پانی کسی کی
بھی ترجیحات میں شامل نہیں رہا اورسابقہ حکومتوں کی نا اہلی کی وجہ سے کوئی
بھی ہمیں پانی کے لیے قرضہ دینے پر بھی تیارنہیں ہے کیونکہ دنیا جان گئی ہے
کہ راہبر راہزن بن بیٹھے کہ ہم وہ قوم ہیں کہ 71 برسوں میں ہماری سابقہ
حکومتیں ایک گلاس صاف پانی بھی اپنے شہریوں کو مہیا نہیں کر سکیں اور جو
ترقیاتی منصوبوں کا راگ الاپتے ہیں اوربظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ سب اچھا
ہے مگر ساتھ یہ دردناک حقیقت ہے کہ دیہاتوں اور دوسرے صوبوں کی بات تو
چھوڑیں پاکستان کا دل لاہور جسے پیرس بنانے کا دعوی کیا جاتا رہا وہاں آج
عوام آرسینیک ملا پانی پی رہے ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی
جبکہ وزیراعظم عمران خان کو بھیک مانگنے کا طعنہ دینے والے گلے میں کشکول
لٹکائے ملک در ملک گھومنے والے ماضی کے سیاسی شعبدہ باز آج کے ارب نہیں
کھرب پتی ہیں مگر اس ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے اور بنیادی سہولیات زندگی کے
لیے سراپا احتجاج ہے اوریہ سیاسی بازی گرچندے کو ملکی و قومی وقار پر
سوالیہ نشان قرار دے کر ملک کو مذید بدنام کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ
مالیاتی اداروں سے بہتر شرائط پر مدد کی اپیل کرنی چاہیے تھی کیونکہ چندوں
سے ملک نہیں چلتے تو ہم تو یہ کہتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کے ناجائز
اثاثوں کو بیچ کر اور مبینہ لوٹی دولت واپس لا کر اس ڈیم کو تعمیر کرنا
چاہیے تھا چہ جائیکہ عوام کو سولی پر لٹکایا جاتا ۔۔؟ اب یہاں پر نو منتخب
حکومت اپنے وعدوں کو ایفا کرنے میں کمزور نظر آتی ہے کہ لوٹی ہوئی دولت
واپس لانے کا وعدہ کیا گیا مگر ایک بار پھر عوام سے کبھی چندہ اور کبھی
اشیائے ضروریہ پر قیمتیں بڑھانے کا عندیہ دیکر ملکی خزانے کے خساروں کو
پورا کر نے کی کوشش کی جانے لگی ہے جبکہ پاکستانی خواہ وہ کسی بھی حیثیت
میں ہو ں اور کہیں بھی ہوں وہ جناب چیف جسٹس کی خواہش کے حسین خواب کو امر
کرنے کے لیے دل و جان سے کوشاں ہو چکے ہیں لیکن قیمتیں بڑھنے کے عمل کو
کبھی نہیں سراہیں گے ۔بات اتنی سیدھی نہیں ہے جتنی نظر آتی ہے بلکہ کڑے
احتساب کا دعوی بھی دھرے کا دھرا رہ گیا ہے اور ابتدا خیبر پختونخواہ سے ہو
چکی ہے ۔۔
سال 2014 میں سابق صوبائی حکومت نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی
ہدایت پر صوبے کے سرکاری محکموں سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ایک ایکٹ کے تحت
پاکستان میں پہلی دفعہ خیبر پختونخواہ میں ایک بااختیار اور خود مختار
احتساب کمیشن قائم کیا تھا جو صوبے کے وزیراعلیٰ کو جوابدہ نہیں تھا اور
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل حامد خان کو اس کا ڈائریکٹر جنرل احتساب مقرر کیا
تھا ۔احتساب کمیشن نے ایک سال کے اندر اندر کاروائیاں کرتے ہوئے کرپشن کے
الزامات میں سو سے زیادہ گرفتاریاں کیں اور احتساب عدالتوں میں ریفرنسسز
دائر کئے اور کروڑوں روپے ریکور کر کے صوبائی خزانے میں جمع کروائے مگر جب
طاقتور سیاسی شخصیات کے گرد گھیرا تنگ ہوا تو احتساب ایکٹ میں ترمیم کے
ذریعے احتساب کمیشن کو شٹ اپ کال دے دی گئی جس پر جنرل حامد خان مستعفی ہو
گئے اور اس ادارے کو پس پردہ تالے لگ گئے پھر کسی بھی مستقل ڈائریکٹر جنرل
کی تقرری نہ ہوسکی اور اب اس ادارے کو ختم ہی کر دیا گیا ہے ۔اس تبدیلی پر
حکومتی ترجمان یوسف شوکت زئی کہتے ہیں کہ گذشتہ دور میں صوبائی حکومت کو
نیب پر اعتماد نہیں تھا اس لیے کرپشن کی روک تھام کے لیے الگ ادارہ قائم
کیا تھا تاہم اب مرکذ میں اپنی حکومت ہے اور اداروں کو مضبوط بنایا جا رہا
ہے تو الگ ادارے کی ضرورت نہیں رہی جس کی واضح مثال بابر اعوان کا استعفی
ہے ۔ ۔احتساب کی زد میں آئے ہوئے بہت سے لوگ جناب وزیراعظم کے ساتھ بیٹھے
رہتے ہیں اور جو اسیر ہیں وہ بھی پیر ہیں کہ ان کو ہر قسم کی سہولیات حاصل
ہیں اور ابھی تک ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے جو کہ عام عوام کے
لیے جائز نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی لوٹی دولت واپس آتی ہوئی نظر آرہی ہے
البتہ جو تھا وہ بھی شاید جاتا نظر آرہا ہے کیونکہ تحریک انصاف کا حال یہ
ہے کہ بھان متی نے کنبہ جوڑا ،کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا کے مصداق تمام
جماعتوں کے للچائے ساتھ ملا تے چلے گئے اور نظریاتی کارکنان ناراض ہو کر
ساتھ چھوڑ تے چلے گئے ۔۔
مجھے کہنے دیجئے کہ ہمارے ملک میں بے حیائی ،عریانی ،فحاشی اور کرپشن جیسے
اخلاقی جرائم شاید کبھی ختم نہیں ہوسکیں گے کیونکہ ہم لوگ آدھے تیتر اور
آدھے بٹیر نام کے مسلمان ہیں ۔عوام بھی طاقتور کی سزا پر تڑپ اٹھتے ہیں اور
اس کی پردہ پوشی کے لیے جواز تلاشتے ہیں جبکہ غریب کو ایک روٹی چرانے پر
پکڑ کر مارتے اور مرواتے ہیں جبکہ اخلاقی گراوٹ کا اندازہ اس سے کر لیں کہ
اگر چوری کا ارتکاب کرنے والی عورت ہی ہو تو سر بازار اس کی چادر تار تار
کر دیتے ہیں اور درندوں کے طرح وار کرتے ہیں ۔۔مگر رکیئے۔! درندگی کا سلسلہ
یہیں پر ختم نہیں ہوتا اگر وہی عورت پولیس تک پہنچ جائے یا پہنچا دی جائے
تو اس کے ساتھ وہ روح فرسا سلوک ہوتا ہے کہ پھر وہ مجبوری میں سب کچھ کرنے
میں اپنی نجات سمجھتی ہے ۔۔ ہم فحاشی پھیلانے والوں کو سر پر بٹھاتے ہیں
اور نیکوکاروں کا تمسخر سر عام میڈیا پر اڑاتے ہیں ۔پہلے غلط کاموں کے لیے
جگہیں مخصوص تھیں مگر آج نیشنل چینلز اور کیبلز کے ذریعے ہر طرح کے ناچ
گانے چلتے رہتے ہیں اور آواز اٹھانے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے
بلکہ جناب چیف جسٹس نے جب فحاشی کے خلاف ایکشن لیا تو فحاشی مافیا کے
سپورٹرز نے جناب چیف جسٹس کے اس ایکشن کے خلاف یوں آواز اٹھائی کہ شرفاء نے
انگلیاں دانتوں میں دبا لی تھیں ۔۔سوال یہ ہے کہ اسلامی ریاست کو مغربی رنگ
دینے والامجرم کون ہے ؟ انسانیت کا قاتل کون ہے ؟ راہزن کون ہے ؟ عورتوں کو
سر عام نچانے والا کون ہے ؟فحاشی اور راہزنی کی حوصلہ افزائی کرنے والا کون
ہے ؟ سر بازاراسلامی اور قومی اقدار کو نیلام کرنے والا کون ہے ؟ احساس
زیاں کو ختم کرنے والا کون ہے ؟ کس نے عدم برداشت کو عام کیا ہے ؟ وہ کون
ہے جس نے چھپ کے پینے والوں کے حوصلوں کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ پیتے ہیں اور
اتراتے ہیں مگر شرماتے نہیں ہیں ۔ان سب برائیوں کا ذمہ دار یہی معاشرہ ہے۔۔
کیونکہ اب عوام کی اکثریت یہ سب دیکھنا چاہتی ہے اور دشمن ازل سے یہی چاہتا
تھا کہ مسلمان اپنی ہی آگ میں جل کر خاک ہو جائیں ۔۔ نبی پاکؐ نے جب مدینہ
منورہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تونیکی ،پاکیزگی اور بھائی چارے کو
فروغ دیا اور سب کو یوں شیرو شکر کر دیا کہ
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا ۔۔۔۔۔۔نہ کوئی بندہ نواز
پھر’’ رہا ڈر نے بیڑے کو موج بلاکا ۔۔ ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا‘‘۔۔
مگر آج ہمارے سیاستدانوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے کہ عوامی فلاح و بہبود کے
لیے نہ خود کچھ کرتے ہیں اور نہ کسی کو کرنے دیتے ہیں کہ’’ اشرفیاں لٹیں ،
کوئلوں پر مہر ‘‘کے مصداق فضول کاموں پر خرچ اور جائز کاموں کے لیے کنجوسی
کہ پانامہ لیکس میں دینے کو پیسے تھے ، ایون فیلڈ فلیٹس اور سر محل خریدنے
کو پیسے تھے ،لاہور میں انفراسٹرکچر پر لگانے کو پیسے تھے ، ناکام تشہیری
اور ادھورے منصوبوں کی آڑ میں لٹانے اور کھانے کو پیسے تھے مگر ڈیم بنانے
کے لیے پیسے نہیں تھے ۔صاف پانی منصوبے کی آڑ میں بھی عوام کو لالی پاپ دیا
گیا اور اب ریکارڈ جلا دیا گیا ہے ۔کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ ۔۔۔۔کرامات کرو ہو
کہنا پڑے گا کہ ہندوؤں اور بعض قائدین میں ایک چیز مشترک ہے کہ ہندو اپنے
مردے کو آگ لگاتے ہیں تاکہ حساب نہ دینا پڑے اور ن لیگی قائدین منصوبوں اور
اپنی کار کردگیوں کے ریکارڈ کوجلا دیتے ہیں ۔ صاف پانی پراجیکٹس جس کے خلاف
نیب میں تحقیقات جاری ہیں اور 70ارب کے فراڈ کا الزام ہے اور حالیہ تحقیقات
میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ صاف پانی پراجیکٹس کے لیے علی عمران کے پلازے
میں دفتر لیا گیا تھا اور اس مد میں علی عمران کو سرکاری خزانے سے بھاری
رقم ادا کی گئی تھی اور نیب کی تحقیقات میں مذید انکشافات ہونے کے اندیشے
کے مد نظرلیگی قائدین متفکر تھے مگر اب پرسکون ہیں کیونکہ گذشتہ روز اس میں
آگ لگ گئی ہے اور ریکارڈ سمیت ایک آدمی بھی جان بچانے کی کوشش میں جان گنوا
بیٹھا ہے ۔غریب تو کل بھی مر رہا تھا اور آج بھی مر رہا ہے ۔۔درج بالا
اقدامات اور امکانات کا زندگی انتظار نہیں کرتی جو لمحہ گزر جائے وہ لوٹ کر
نہیں آتا جو آج ہے بس وہی ہے اس لیے تشہیری منصوبوں کی طرح اس نہایت اہم
چندہ مہم میں کہیں عوام کے بنیادی حقوق پس پرد ہ نہ ڈال دئیے جائیں کیونکہ
پانی کا مسئلہ بنیادی ضرورہے مگر وہ تو چندے کے پیسوں یا کسی دیگرحکمت عملی
سے حل ہو جائے گا مگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے بنیادی اقدامات
فوراً شروع کرنے چاہیے ۔کہـ’’ لڈو کہنے سے منہ میٹھا نہیں ہوتا ‘‘لہذا
ڈیلیوری کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی ورنہ اس بار آنکھوں میں دھول جھونکنا
سیاستدانوں کو مہنگا پڑے گا کیونکہ عوام باشعور اور اپوزیشن پر فتور ہو چکی
ہے ۔
تاہم وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا خاص طور پر ایمبولینس کو راستہ دینے
کے لیے وی آئی پی موومینٹ روکنے کے لیے احکامات جاری کر نا اور یہ کہنا کہ
بے شک انکی یا انکی سیکیورٹی کی گاڑیاں کیوں نہ ہوں وہ سڑک کے کنارے روک دی
جائیں کیونکہ ایمبولینس کو راستہ دینا انسانیت کی بہترین خدمت ہے اوریہ
ہدایت کرنا کہ اس کلچر کو عام کیا جائے بلاشبہ ان کا یہ اقدام نہایت ہی
قابل تحسین ہے اور امید ہے کہ پورے پاکستان کے صاحب اختیار و اقتدار یہ
اچھی مثال پکڑیں گے ۔ بلاشبہ جب ہم ملک و قوم کے لیے نو منتخب حکومت کے
ایسے مثبت اور مفید اقدامات و جذبات دیکھتے ہیں تو پر امید ہو جاتے ہیں کہ
تبدیلی اور خوشحالی آبھی سکتی ہے ! |