اس عالمِ آب و گِل کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے
کہ یہاں کی ہر شے مسافر ہے اور ہر چیز راہی ہے ۔جب زندگی کی مسافت کٹ جاتی
ہے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ مسافر کا پیرہن سفر کی دُھول کے سوا کچھ بھی تو
نہیں۔عزیز جبران انصاری نے 3۔ستمبر 1940کو اپنی زندگی کے سفر کا آغاز کیا
۔اس سفر میں ان کے ساتھ جو احباب شریک سفر رہے ان کی زبانی عزیز جبران
انصاری کی شخصیت کی لفظی مرقع نگاری پر مبنی یہ وقیع کتاب مطالعۂ احوال کا
اہم بنیادی ماخذ ہے۔ عزیز جبران انصاری سے ملاقات کرانے کی خاطر وطن عزیز
کے اسی (80) کے قریب ممتاز ادیبوں نے اس کتاب میں اپنی انجمن خیال سجائی ہے
۔ اپنے عہدکے ان یگانۂ روزگار ادیبوں نے دل کش و حسین لفظو ں کاسائبان بنا
کر عزیز جبران انصاری سے وابستہ طاقِ دِل میں سجی یادوں کو جس منفرد انداز
میں زیب قرطاس کیا ہے وہ اپنی مثال آ پ ہے ۔ ان میں سے کچھ ادیب ایسے بھی
ہیں جو طویل عرصہ تک افق ادب پر مثل ِ آفتا ب و ماہتاب ضوفشا ں رہنے کے بعد
عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو گئے ۔ان کی تحریریں اب ایام گزشتہ کی
کتاب کی ایسی یادیں بن گئی ہیں جن کے نقوش تاابد لوح ِ دِل پر ثبت رہیں گے
۔ اس کتاب کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ اس میں عزیز جبران انصاری کی مستحکم
شخصیت او ر منفرد ا سلوب کے بارے میں قارئین کی دلچسپی کے لیے جو بے حد اہم
مآخذ شامل ہیں ان میں اس رجحا ن ساز ادیب کا منتخب کلام ،ملاقاتوں کا احوال
اور خود نوشت کے اوراق بھی شامل ہیں ۔ کتاب کے آغاز میں درج یہ شعر گہری
معنویت کا حامل ہے :
خدا جانے اسے کس رنگ میں لکھے گی کل دنیا
رقم جبرانؔ ہم خود آج اپنی داستاں کر لیں
عزیز جبران انصاری ادبی تحقیق اور تنقید کے معائر سے آگاہ ہیں اس لیے انھوں
نے اس کتاب میں اپنے بارے میں مستند معلومات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی
مقدور بھر سعی کی ہے ۔آئیے دھنک کے اُس پار دیکھیں کہ چھے سو چالیس (640)
صفحات کی اس کتاب میں کس جاں بخش اورطرب خیز انداز میں عزیز جبران انصاری
سے قارئین کی ملاقات کا اہتمام کیا گیا ہے ۔اردو زبان کے ان ممتاز ادیبوں
نے عزیزجبران انصاری کی باغ و بہار شخصیت اور منفرد اسلوب کے بارے میں جو
بے لاگ رائے دی ہے وہ محققین اور ادب کے عام قارئین کے لیے افادیت سے لبریز
ہے۔ بادی النظر میں یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ خضر کی رہنمائی کی باتیں ،آب
ِحیات کی سوغاتیں اور جاہ و حشمت کی سب باتیں محض داستانیں اور فنا کی
گھاتیں ہیں ۔کوہِ ندا کی سناونی سے جب ساتوا ں در کھلتا ہے تو وقت کے ہر
رستم کا زہرہ آب ہو جاتاہے ۔اس موقع پرگل و گلزار پر جان چھڑکنے والے
باغبان گلشن کوخدا حافظ کہہ کرعدم کے کوچ کے لیے رخت ِ سفر باندھ لیتے ہیں
،جہاں سے شاخ ٹُو ٹتی ہے وہیں سے نئی کونپل نمو پاتی ہے اور نئے عنادل کی
صدا زندگی کے پیہم رواں رہنے کی دلیل بن جاتی ہے ۔خورشید ِجہاں تاب کی ایک
شعاع ہی شبنم کی فنا کا پیغام بن جاتی ہے مگر زندہ و تابندہ الفاظ فنا کی
دستبرد سے محفوظ رہتے ہیں ۔بقا کا راز اسی میں پوشیدہ ہے کہ عظمت انسانیت
کے لیے انسان جان کی بازی لگا دے ۔یہ وہ جری تخلیق کار ہیں جنھوں نے ہر عہد
میں حرف صداقت لکھنا اپنا شعار بنایا اور حریت ِ ضمیر سے جینے کی راہ
اپناتے ہوئے حریتِ فکر و عمل کا علم بلند رکھا ۔ان کی حق گوئی و بے باکی
کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔کتاب ’ جبران سے مِلیے‘ میں عزیز جبران انصاری کی
شخصیت کی لفظی مرقع نگاری کرنے والوں کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے :
ہمیں کو جرأت اظہار کا سلیقہ ہے
صدا کا قحط پڑے گا تو ہم ہی بولیں گے
ذیل میں وطن عزیز کے ان ممتاز ادیبوں کے نام ترتیب ( الف بائی ) سے دئیے جا
رہے ہیں جن کے اشہب ِ قلم کی جولانیوں کے اعجاز سے اس معرکہ آرا کتاب میں
انسان شناسی کے متعدد نئے امکانات سامنے آ ئے ہیں :
آزاد رشیدی شہباز نگری،آفاق صدیقی پروفیسر ، آ نسہ شہرین قمر ، ابن صفی ،
ابن عظیم فاطمی، احسن علی احسن ، اختر سعیدی ، اطہر ہاشمی ،الطاف حسین قاضی
، انجم شادانی ، انعام الحق جاوید ،انور احمد علوی ،انور سدید ڈاکٹر ، انیس
الرحمٰن ڈاکٹر ،ایس ایم معین قریشی ڈاکٹر ،تاج صدیقی،ثبین سیف ،جہاں گیر
عباسی پروفیسر،حسرت کاس گنجوی ڈاکٹر ،حسین مجروح ،حمیر ا راحت ،رئیس
امروہوی، سائرہ غلام نبی ،سرفراز شاہد،سردار احمد خان پروفیسر ڈاکٹر ،سلمیٰ
لطیف ،شاہد بخاری ،شجاع الدین غوری ،شمس الحق پروفیسر ،صابر علی ہاشمی
ڈاکٹر سید،طاہر سلطانی،عاصی کرنالی،عثمان رمز پروفیسر،عصمت زیدی،علی حیدر
ملک ،عنایت علی خان پروفیسر،غلام شبیر رانا پروفیسر ڈاکٹر ، قاری
عبدالرحمٰن مجاہد ،قاسم جلال ڈاکٹر سید ،قمر وارثی،کلیم اﷲ فاروقی
پروفیسر،گلزاراحمد راہی،محبوب سبحانی،محسن بھوپالی،معراج جامی سید،معین
کمالی ،مہر الٰہی شمسی،منظر ایوبی پروفیسر، نسیم خان سیما پروفیسر ڈاکٹر
،نسیم سحر ،نسیم انجم ،نکہت بریلوی،ن۔م نیازی، نیناعادل ،وضاحت نسیم،وفا
بریلوی۔
اس کتاب کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ عزیز جبران انصاری کی
شخصیت بہ ظاہرایک پُر سکون سمندر ہے مگر اس کی تہہ میں پنہاں دُرِ نایاب
سطح کے نیچے سمٹے تلاطم کا احساس و ادراک مطالعہ احوال کا اہم ترین تقاضا
ہے ۔یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ یہی وہ پہلو ہیں جو قاری کے فکر و خیال کو
مہمیز کرتے ہیں۔رخشِ حیات پیہم رو میں ہے گردش ِایام کے نتیجے میں یہاں
زندگی ایک جبر مسلسل کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔ ماہرین علم بشریات کی
رائے ہے کہ معاشرتی زندگی میں افراد کے باہمی تعلقات ،روّیے اور رُوپ
مسکرانے ، للکارنے ،دھتکارنے ،سسکنے ،بسورنے ،آہیں بھرنے ،آنکھیں چار کرنے
،زہر مار کرنے ،کھانسنے اور چھینکنے کی صورت میں موسموں کے مانند رنگ بدلتے
ر ہتے ہیں۔اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ تزکیہ نفس کے سلسلے میں محض چھینکنا ہی
غم سے نجات پانے میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔گویا چھینکنا بھی ایک ایسا فعل بن
جاتا ہے جو سمے کے سم کے ثمر کے مسموم اثرات کو کافورکرنے کی مسحور کن صورت
سامنے لاتا ہے ۔ زندگی آموز ادب کی تخلیق کے لیے گردشِ حالات سے ناخو ش و
بیزار رہنے کے بجائے اپنے حصے کی مشعل کو فروزاں رکھنا از بس ضروری ہے۔اس
کتاب میں شامل مضامین کا بہ نظرغائر مطالعہ کرنے سے اس بات کا یقین ہو جاتا
ہے کہ تمام مضمو ن نگاروں نے اپنی رجائیت پسندی اور وسیع النظری کا ثبوت
دیتے ہوئے ایک عبقری دانش ور کے بارے میں حقائق کی گرہ کشائی کرنے میں کوئی
تامل نہیں کیا ۔
عزیز جبران انصاری نے زندگی بھرحوصلے او رامید کا دامن تھام کر سفاک ظلمتوں
میں بھی چراغِ تمنا فروزاں رکھنے کی راہ دکھائی ہے ۔ عزیز جبران انصاری نے
خو د اعتمادی،عزتِ نفس ،فن کار کی انا اور خودداری کا بھرم قائم رکھتے ہوئے
جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے جس بے باکی سے معاشرتی زندگی سے وابستہ
تلخ حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے وہ ہر اعتبار سے لائق صدر شک و
تحسین ہے ۔ان کا اسلوب معاصرین کے لیے ایک مثال بن گیا ہے جسے لمحات کے
بجائے ہر عہد کی علمی و ادبی تخلیقات ، تخلیقِ ادب کے محرکات اور تاریخی
واقعات میں پزیرائی ملے گی۔ اپنے خون جگر کی آمیزش سے اپنی دنیا آپ پیدا
کرنے والے اس بلند ہمت تخلیق کارنے عزم و یقین کے ساتھ افکارِ تازہ کی
جستجوکی خاطرروشنی کے جس سفر کا آغاز کیاوہ آنے والی نسلوں کے دلوں کو ایک
ولولہ ٔ تازہ عطا کرتا رہے گا اور جہانِ تازہ کی نوید سناتا رہے گا۔عزیز
جبران انصاری کی طرز ِ فغاں کے بارے میں یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی
ہے کہ ذوقِ سلیم سے متتمع تخلیق کاروں کے لیے مستقبل میں یہی طرزِ ادا
ٹھہرے گی ۔ مضمون نگاروں کا اس امر پراتفاق ہے کہ ایک پُر عزم تخلیق کار کی
حیثیت سے عزیز جبران انصاری نے قارئین کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی سعی
کی ہے کہ حیاتِ جاوداں کا را زستیز میں پنہاں ہے ۔ وقت کی مثال بھی سیلِ
رواں کی مہیب متلاطم موجوں کی سی ہے ۔کوئی بھی شخص اپنی قوت ،ہیبت اور ثروت
کے باوجود بیتے لمحات کی چاپ اور آب رواں کے لمس کو دوبارہ محسوس کرنے سے
قاصر ہے ۔ سردی ،گرمی ،خزاں اور بہار کی طر ح وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا
۔افلاک سے پُر درد نالوں کا جواب ضرور آتا ہے ،قفس آباد طیور کی فغاں میں
نہاں کرب سے یہ بات عیاں ہے کہ خزاں کے سیکڑوں مناظر دیکھنے کے بعد فروغ
گلشن و صوت ہزار کا موسم اب دُور نہیں ۔آسمان کا رنگ بدلتے ہی صیاد کے
ہاتھوں کے توتے اُڑ جائیں گے ۔در کسریٰ پر صدا کرنے والے اس حقیقت سے آگا ہ
ہیں کہ ان کھنڈرات میں اُڑتی ہوئی خاک،ملخ و مُور ،بُوم و شِپر،زاغ و زغن ،
جامد و ساکت پتھروں اور حنوط شدہ لاشوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔
ایک کثیر التصانیف ادیب کی حیثیت سے عزیز جبران انصاری کے ہر صنف ادب میں
اپنی تخلیقی فعالیت کا لوہا منوایا ہے ۔زود نویس ادیبوں کے بارے میں اکثر
ناقدین کی یہ رائے کہ ان کی زود نویسی بھی ادب کی ثروت میں غیر معمولی
اضافہ کا وسیلہ ثابت ہوتی ہے ۔اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ
حزم و حجاب ،مصلحت اندیشی اور بلاجواز اعتدال تخلیقِ فن کی راہوں میں سدِ
سکندری بن کر حائل ہو جا تا ہے ۔عزیز جبران انصاری کے خیال میں تخلیقِ ادب
میں فراوانی جہاں تزکیہ نفس کے سلسلے میں تخلیق کار کے لیے شادمانیوں کا
وسیلہ ثابت ہوتی ہے وہاں اس کے معجز نما اثر سے عملی زندگی میں یہ فقید
المثال کامرانیوں کی نقیب بھی ہے ۔ عزیز جبرا ن انصاری کی شخصیت اور اسلوب
پر لکھے گئے ان مضامین کے مطالعہ سے قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ایک جری
تخلیق کار تیشۂ حرف سے ہر فصیلِ جبر کو پا ش پاش کرنے پر قادر ہے۔اس کے
باوجود ادیب کی زندگی میں کئی ایسے سخت مقامات بھی آ تے ہیں جہاں وہ محو
حیرت رہ جاتا ہے اور اس کی کوئی امید بر نہیں آ تی اور نہ ہی اصلاح احوال
کی کوئی صورت دکھائی دیتی ہے ۔ایسے مقامات میں کورانہ تقلید ،توہم پرستی
اور جہالت کے سراب اور اِن کے پیدا کردہ فتنے ہیں جنھیں حساس تخلیق کاردِل
پر ہاتھ رکھ کر پر نم آ نکھوں سے دیکھنے کے بعد ان کے تباہ کن اثرات کے
بارے میں سوچتا ہے اور اس طرح دُہرے عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ ایسے جان
لیوا سانحات اور سخت واقعات کی تاب لانا بہت کٹھن مرحلہ ہے ۔یہ و ہ مصائب و
آلام ہیں جو فکری بے اعتدالیوں کاسبب بن کر معاشرتی زندگی میں زہر گھول
دیتے ہیں۔انسان صبح خیزیوں ، رہزنوں،قزاقوں او راچکوں سے تو جان بچا کر
بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو سکتا ہے مگر رہبرجب پیرِ تسمہ پا بن جائیں تو اس
الم ناک ستم کا ازالہ کیسے ممکن ہے ۔ چربہ سازی ،سرقہ ،کو ر مغزی ،بے بصری
اور تقلید کی مہلک روش سے ایسی فکری کجی پیدا ہوتی ہے جو ذہنی افلاس کی را
ہ ہموار کر کے تخلیقی عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہے ۔
اس کتاب کے مضمون نگاروں نے عزیز جبران انصاری کے اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ
کرتے وقت اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ عزیز جبران انصاری کے منفرد اسلوب سے
قاری جس پر لطف اور حیات آفریں تخلیقی فعالیت سے متعار ف ہوتا ہے اس کے
سوتے مصنف کے ذہن و ذکاوت کے ساتھ ساتھ قلب و نظر کی اتھاہ گہرائیوں سے بھی
پُھوٹتے ہیں ۔عزیز جبران انصاری نے ذہن و ذکاوت کو تخلیقی عمل میں چراغِ
راہ سمجھا ہے جب کہ دل و نگاہ کی نوائے سروش کی امین وجدانی بصیرتیں اُنھیں
سدا منزلوں کا پتا دیتی ہیں ۔ان کے اسلوب سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے
کہ زندگی کی کلفتیں ،آلام ِ روزگار کی تمازتیں ،پُر آشوب حالات ،صبر آزما
لمحات اور عزیزوں کی دائمی مفارقت کے صدمات میں تپ کر انسان کندن بنتا ہے
۔اپنے تجربات کی بنا پر انھوں نے واضح کر دیا کہ وقت کی اہمیت ،جد و جہد کی
افادیت ،صبر و استقامت کی برکت،مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی
روایت کو پروان چڑھانے سے دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے کی تمنا پوری ہو
سکتی ہے ۔اس کتاب کے مضامین جامِ جہاں نما کے مانند ہیں جس میں عزیز جبران
انصاری کی ہفت اختر شخصیت کے تمام پہلو جلوہ گر ہیں ۔علم دوستی ،ادب پروری
اور انسانی ہمدردی عزیز جبران انصاری کی شخصیت کے نمایاں اوصاف ہیں ۔قدرتِ
کاملہ کی طرف سے انھیں جو دِلِ بینا عطا کیا گیا ہے،اس میں سارے جہاں کا
درد سمٹ آ یا ہے ۔ان کے مزاج میں بے پایاں مروت ،بے لوث محبت ،بے باک صداقت
،اخلاق و اخلاص،عجز و انکسار،نرم دلی ،عظمت انساں کے لیے جد و جہد اور
ایثار کے جذبات کی فراوانی ہے ۔ہر درماندہ رہروکے دکھوں کا مداوا کرنے کے
لیے مرہم بہ دست پہنچنا عزیز جبران انصاری کا شیوہ ہے ۔
قحط الرجال کے موجودہ دور میں عزیز جبران انصاری جیسے مصلح اور خادم خلق
ادیب کا وجود اﷲ کریم کا انعام سمجھنا چاہیے ۔ معاشرتی زندگی میں حرص وہوس
کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے باعث اقدار و روایات کی زبو ں حالی نے گمبھیر صور
ت اختیار کرلی ہے ۔آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ وعدہ معافوں ،لفافوں ،لوٹوں
،لٹیروں اور مرغانِ باد نما کی صورت میں جہالت او رخست و خجالت کے مظہر
ایسے مسخرے ہر طرف دندنانے اور ہنہناتے پھرتے ہیں جن کی ڈھٹائی دیکھ کر
انسان ششدر رہ جاتا ہے ۔ان اجلاف و ارذال اور سفہاکے چنڈو خانے اور قحبہ
خانے کا مطبخ آ ب دار خانے کا رشک دکھائی دیتا ہے ۔اس پر طرفہ تماشا یہ ہے
کہ جامہ ٔ ابو جہل میں ملبوس یہ بز اخفش حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر
اپنے مکر کی چالوں سے ا پنی جہالت کا انعام ہتھیانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں
۔ وقت کے ایسے سانحات اور شقاوت آمیز ناانصافیاں حساس تخلیق کاروں کے لیے
سوہانِ روح بن جاتی ہیں ۔اس کتاب میں عزیزجبران انصاری کی زندگی کا پورا
منظر نامہ دیکھ کر قاری حیر ت زدہ رہ جاتا ہے۔ عزیزجبران انصاری نے جس طر ح
ستاروں پر کمند ڈالی ہے اُسے پیشِ نظر رکھتے ہوئے قاری بے اختیار پکار
اُٹھتا ہے کہ عززی جبران انصاری نے جس انداز میں پرورش لوح و قلم کی ہے وہ
اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔بہ قول اختر الایمان:
کون ستارے چھو سکتا ہے راہ میں سانس اُکھڑ جاتی ہے |