حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم کی اھمیت پر
زور دیتے ہوٸے فرمایا جس کا مفھوم حصول علم کی خاطر کتنا طویل سفر بھی ہو
کرنا ہے۔لیکن اس کے مقاصد اگر حاصل نا ہو سکین تو کی جانے والی تمام کاوشیں
اور اٹھاٸی جانے والی تمام مشکلیں بے فاٸدہ ثابت ہونگی۔تدریسی عمل ایک ایسا
ہےجو معلم اور متعلم دونوں پر منحصر ہوتا ہےاس میں اہم کردار معلم سرانجام
دیتا ہے۔معلم کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ ان تمام عوامل کو مدنظر رکھنا پڑتا
ہےجو بچوں کیلٸےدوران تعلیم ایسی رکاوٹوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں جو
تعلیمی عمل کو یا تو سست کر دیتے ہیں یا مکمل طور پر روک دیتے ہیں۔بنیادی
طور پر طلبإ کو قابلیت کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔جن میں
پہلا درجہ زہین طلبإ کا آتا ہے۔ان طلبإ کو سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے
کیونکے ملکی ترقی کی خاطر ان سے ذیادہ توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ لیکن مسلسل
کامیابی خود اعتمادی کے بعد جب ضرورت سے ذیادہ خوداعتمادی کے دہانے پر لا
کھڑا کرتی ہے تو یہ صلاہیتیں اپنی بربادی کے ساتھ ملکی زوال کے عنصر کو
مضبوط کرتی چلی جاتی ہیں۔اس طرح قابلییت کے فقدان کے باعث متوسط اور ناقابل
لوگوں سے گزارا کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|