اوپر کا خاکہ علم اور تجربہ کا موازنہ کرتا ہے اور اس کی
بنیاد پر حکمت اور جہالت کو بیان کرتا ہے۔
یہ خاکہ اور نیچے لکھی گئ تحریر میری ذاتی سوچ پر مبنی ہے، اس کا کوئی
دوسرا حوالہ نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے یہ بالکل ٹھیک ہو یا بالکل غلط ہو یا کچھ
ٹھیک اور کچھ غلط۔
مجھے ان باتوں کا احساس کئی مواقع پر ہوا، جب بھی یہ تذکرہ ہوتا کہ علم
زیادہ ضروری ہے یا تجربہ۔ ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں تو جو علم والے ہوتے ہیں
وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ بڑا اچھا کام ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ تجربہ بھی حاصل
کرنا ہے۔ اور جو لوگ تجربہ کار ہوتے ہیں مگر عالیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہوتے،
وہ کہتے ہیں کہ بھائی تجربہ ہی اصل چیز ہے باقی ساری تو کتابی باتیں ہیں
حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں، حقیقت تو تم کو پتہ ہی نہیں۔
اب اتنے سالوں کی تعلیم، تجربہ، علماء کی صحبت، تجربہ کار لوگوں کی صحبت
اور خود کے تجربہ سے میں نے یہ خاکہ تجویز کیا ہے جو ہمیں علم اور تجربہ کی
اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ اور پھر ہمیں ہماری زندگی میں رہنمائی کرتا ہے کہ
کون سا عمل درست ہے اور کون سا نہیں۔ جو عمل صحیح نہیں اس کو کیسے درست کیا
جائے۔
دئیے گئے خاکہ کا مختصر بیان کچھ اس طرح ہے۔
انسان کو صحیح عمل صحیح طریقہ سے کرنے کیلئے علم اور تجربہ دونوں کی ضرورت
ہوتی ہے۔ اگر اس کا تجربہ تابع ہے علم کے، جیساکہ اوپر والا تیر ظاہر کرتا
ہے تو اس کا عمل حکمت کے موافق ہوگا۔ اور اگر اس کا علم تابع ہوجاتا ہے
تجربہ کے تو پھر یہ عمل جہالت پر مبنی ہوگا، جیساکہ نیچے والا تیر ظاہر
کرتا ہے
اب کچھ مثالیں، اس کو سمجھانے کیلئے:۔
ہر ملک میں ٹریفک کے نظام میں لال بتی کا مطلب ہے کہ اس کے جلنے پر گاڑی
روک دینا چاہیئے۔ یہ علم کی بات ہوئی۔ اب اس میں تجربہ ہر انسان کا جو
مختلف ملکوں میں رہتے ہیں وہ مختلف ہوسکتا ہے۔ امریکہ میں رہنے والوں کے
تجربہ کی بنیاد پر بھی یہی کہیں گے کہ ہاں لال بتی پر رُکنا ہے۔ یہاں علم
اور تجربہ ایک ہی ہوگیا۔ یہاں ایک وضاحت کردوں کہ امریکہ والوں کا یہ تجربہ
اس بنیاد پر ہے کہ اگر لال بتی پر نہیں رُکے تو بھاری چالان لگے گا۔ اس کے
برعکس ملیشیاء والوں سے پوچھا جائے تو وہاں کا تجربہ بھی یہی کہے گا کہ لال
بتی پر رُکنا ہے، مگر اس تجربہ کی بنیاد چالان نہیں بلکہ اس پر ہے کہ ٹریفک
کے قوانین ہماری بہتری کیلئے ہیں اس پر عمل کرنے میں ہی ہمارا فائدہ ہے۔
اسیلئے وہاں لوگ بغیر کسی کے دباؤ کے اور پولس والوں کے ڈر کے بغیر ہی
ٹریفک قوانین پر عمل کرتے ہیں۔ اب اگر اِسی طرح سے ہمارے ملک پاکستان کا
حال دیکھا جائے تو یہاں تجربہ کہتا ہے کہ بھائی! جب لال بتی جل رہی ہو اور
کوئی اِدھر اُدھر نہ ہو تو بس دیکھ کر نکل لینا چاہیئے کیوں کھڑے رہ کر
اپنا وقت برباد کرتے ہو۔ تو ان تین ملکوں کے عمل میں ملیشیاء والوں کا
تجربہ ان کے صحیح علم کے تابع نظر آتا ہے، تو یہ عمل حکمت پر مبنی ہوا۔
جبکہ ہمارے پاکستانیوں کے عمل میں تجربہ حاوی ہے علم پر کہ سب کو معلوم ہے
کہ لال بتی پر رُکنا چاہیئے لیکن رُکتے نہیں تو یہ ان کی جہالت ہے۔ اب اس
میں ان کا پڑھا لکھا ہونا یا نا ہونا برابر ہے۔ اب آپ کے ذہن میں سوال ہوگا
امریکہ کے عمل کے بارے میں؟ تو امریکہ والوں کا عمل تو درست ہے لیکن وہ
صحیح علم کی بنیاد پر نہیں بلکہ چالان کے ڈر سے ہے تو دیکھا گیا ہے کہ جہاں
چالان لگنے کا ڈر نہ ہو وہاں بھی ہمارے پاکستانی بھائیوں کی طرح امریکہ
والے بھی یہی کہتے ہیں کہ ہاں بھائی! دیکھ کر نکل لے وقت کیوں برباد کرتا
ہے۔ تو ان کا عمل نہ حکمت پر مبنی ہے اور نہ ہی جہالت پر۔ ان کا یہ عمل
عارضی ہے حالات کی مناسبت سے جبکہ ملیشیاء والوں کا عمل دائمی ہے۔
تو جو لوگ اپنے تجربہ کو علم کے تابع کرلیتے ہیں وہی حکیم کہلانے کے لائق
ہیں۔ اور جو لوگ علم کو تابع بنادیتے ہیں تجربہ کے تو یہ جہالت ہی کہی
جاسکتی ہے اس میں پڑھے لکھے ہونے یا نہ ہونے کا کوئی فرق نہیں۔
اب ایک اور مثال ہمارے دین کے اعتبار سے لکھتا ہوں۔ کہ اسلام سے پہلے کے
دور کو جہالت کا دور کہا جاتا ہے حالانکہ اس دور میں بھی بڑے بڑے پڑھے لکھے
لوگ موجود تھے اور بڑے بڑے تورات، زبور، اور انجیل کے عالم بھی موجود تھے۔
پھر بھی اس کو دورِ جاہلیت کہا جاتا ہے۔
یہ حقیقت ایک واضح دلیل بنتی ہے میرے خاکہ کی۔ کہ اسلام سے پہلے بڑے بڑے
علماء اور تعلیم یافتہ لوگ موجود تو تھے مگر ان کا عمل علم کی بنیاد پر
نہیں تھا بلکہ تجربہ کی بنیاد پر تھا۔ ان کا علم تابع تھا تجربہ کے۔ اسیلئے
یہ جہالت کہلاتی ہے۔ تو کعبہ میں بتوں کا ہونا اور اس سے مکہ والوں کو
فائدہ ملنا تجربہ کے نتیجے میں تھا کہ ساری دنیا کے لوگ ان کے تابع تھے اور
ان کا دبدبہ سب پر تھا کہ لوگ مجبور تھے ان کی بات ماننے کو۔ اور جو لوگ اس
ماحول میں پیدا ہوئے انھوں نے یہی دیکھا کہ بتوں سے ہی ہمارے مسائل حل ہوتے
ہیں۔ یہ سب تجربہ ہی تو تھا۔
اب جب اسلام آیا تو اس نے ہمیں صحیح علم عطا کیا کہ اللہ ایک ہی ہے اور وہی
ہمارے سارے کاموں کو بنانے والا ہے۔ اور یہ بت کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ اسلام
نے اس کا علم بھی دیا اور پھر کچھ معجزات کے ذریعے لوگوں کو تجربہ بھی
کرایا۔ لیکن فوراً سے بتوں کو نہیں نکالا گیا کیوں کہ تجربہ یہ تھا کہ بتوں
کو نکالنے پر پوری دنیا میں انتشار ہوگا۔ تو اس پر بتدریج محنت کی گئی اور
مکہ پر غلبہ حاصل کرکے سب سے پہلہ کام بتوں کو نکال کر پھینک دیا گیا۔ اس
طرح سے یہ سارا لائح عمل حکمت پر مبنی ہوا کیوں کہ یہاں تجربہ تابع رہا علم
کے۔ اس کے برعکس جنہوں نے علم آنے کے باوجود نہیں مانا اور اپنے تجربے پر
ہی ڈٹے رہے تو انھوں نے علم کو تابع کردیا تجربہ کے اور جاہل کہلائے۔
مثالیں تو بہت بتائی جاسکتی ہیں۔ سمجھنے کیلئے ایک بھی کافی ہے اور جو
سمجھنا ہی نہ چاہے تو وہی تو وہ ہے۔
تو جو لوگ اپنے تجربہ کو تابع کرینگے صحیح علم کے وہ ہی صحیح عمل والے ہیں
اور دنیا میں بہتری لانے والے ہیں۔ |