شناخت کی چوری، شبہات کا ازالہ

’’یوم تحفظ ختم نبوت‘‘ کے حوالے سے آٹھ ستمبر کو راقم کا کالم بعنوان ’’شناخت کی چوری جرم ہے‘‘ جنگ لندن میں شائع ہوا جس میں عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے کچھ عام فہم حقائق بیان کیے گئے۔ بارہ ستمبر 2018 کو قادیانی جماعت سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد یحیٰی صاحب نے جنگ لندن میں کالم لکھ کرمیری تحریر کے کچھ اقتباسات پرتحفظات کا اظہار کیا۔آج فرض منصبی کے طور پر اسی مناسبت سے ان شبہات کا ازالہ کرنا ہے تاکہ حق آشکار ہواور الجھنیں دور ہوں ۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ’’محترم مسعود ہزاروی صاحب ماشاء اﷲ ایک پروفیسر ہیں اور ہمیں امید تھی کہ وہ عقائد کے اختلاف کے باوجود اپنے مضمون میں صرف حقائق بیان فرمائیں گے لیکن افسوس کہ ہمیں مایوسی ہی ہوئی- اگرچہ محترم پروفیسر صاحب کے مضمون میں کئی مواقع پرمذہبی تعلیمات اور تاریخی حقائق کو بیان کرنے میں انصاف کا خون کیا گیا ہے‘‘ ڈ اکٹر صاحب ناچیز نے بھرپور کوشش سے حق ہی بیان کیا۔ہر وہ شخص جو تعصب کی عینک اتار کر اور مخصوص نظریاتی خول سے باہر آکر ان معروضات کو پڑھے گا اسے حق واضح نظر آئے گا۔ یرقان کے مریض کو ہر چیز پیلی نظر آنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ واقعی ہر طرف زردی پھیلی ہے۔تاریخی حقائق کو بیان کرتے ہوئے انصاف کے قتل کی بات بھی حقیقت سے بہت دور اور آپ کی ذاتی رائے ہے۔کوشش ہوگی کہ ان حقائق کو مزید واضح کردیا جائے تاکہ شکوک و شبہات کے بادل چھٹیں اور عقیدہ ختم نبوت مزید تابناکی کے ساتھ اجاگر ہو۔ راقم نے پوری اخلاقی جرائت کے ساتھ بطور اقلیت قادیانیوں کے آئینی حقوق کی پاسداری کا برملا اعلان کرکے اسلامی رواداری کا ثبوت دیا۔ حالانکہ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم قادیانیوں کے حقوق کو اس طرح تسلیم نہیں کرتے جیسے باقی اقلیتوں کے ہیں۔ پھر بھی ڈاکٹر صاحب کی طرف سے یہ گلہ کہ میں نے قادیانیوں کے خلاف جذبات کو ابھارا ہے،سمجھ سے باہر اور حقیقت کے خلاف ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ قادیانی خود کو غیر مسلم اقلیت تسلیم نہ کر کے خود آئینی حقوق کی نفی کرتے ہیں۔ آگے چل کے ڈاکٹر صاحب میرے گزشتہ کالم کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں’’ ہم محترم پروفیسر صاحب کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ آپکا ایک جذباتی اندازِ گفتگو تو ہو سکتا ہے لیکن مذہب اسلام سے اسکا کوئی تعلق نہیں- پہلی بات تو یہ کہ مذہبی دنیا میں مذہبی قوانین کی پاسداری کو اولین ترجیح دی جاتی ہے نہ کی عالمی قوانین کو -کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ تمام عالمی قوانین دنیا میں موجود مذہبی قوانین یعنی شریعت پر پورا اترتے ہوں‘‘ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب موصوف سے ہماری گزارش ہے کہ یہ قطعا جذباتی انداز گفتگو نہیں بلکہ مسلمہ صداقت اور عالمگیر حقیقت ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ مذہبی اور عالمی قوانین میں اختلاف ممکن ہے۔ لیکن ہم تو بات کر رہے ہیں چوری کی۔ دنیا کا کوئی مذہب، عالمی قانون اورضابطہ اخلاق چوری کی اجازت نہیں دیتا خواہ مال کی ہو یا شناخت کی۔پھر ڈاکٹرصاحب کا ئی کہنا کہ’’ اسلام کا لفظ تو سابقہ انبیائے کرام کیلئے بھی استعمال ہوا‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن پاک میں سابق انبیاء کیلئے لغوی معانی میں دین اسلام کالفظ استعمال ہوا جس کا معنی ہے Submission ہے کیونکہ اسلام عربی کا لفظ ہے جبکہ انبیائے سابقین کی مختلف زبانیں تھیں۔یہ بات ہے بھی بعثت نبویﷺ سے پہلے کی ،لیکن ہم بات کررہے ہیں نبی کریم ﷺ کی بعثت مبارکہ کے بعد کی۔ڈاکٹر صاحب آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ پچھلی چودہ صدیوں میں شرق سے غرب تک کوئی غیر اسلامی مذہب بشمول ابراہیمی مذاہب (عیسائی و یہودی)کے اپنے لئے’’ اسلام‘‘ کی شناخت اور نام استعمال نہیں کرتا بلکہ ہر ایک کی اپنی الگ شناخت ہے۔دنیا کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ’’اسلام‘‘ محمد ﷺکے لائے ہوئے دین کی پہچان اور نام ہے۔اسلام کا نام کسی انسان نے نہیں بلکہ اﷲ تعالی نے بذریعہ وحی خود مقرر کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے ورضیت لکم الاسلام دینا (الانعام3 ) (اور میں تمہارے لئے جس دین پر راضی ہوں وہ اسلام ہے)۔ احادیث مبارکہ کی روشنی میں قبر میں بھی جب امت محمدیہ سے سوال ہوگا کہ’’ مادینک (تیرا دین کیا ہے؟) تو اہل حق یہی جواب دیں گے دینی الاسلام ( میرا دین اسلام ہے)۔نبی کریمﷺ نے ارکان اسلام کا ذکریوں فرمایا ’’بنی الاسلام علی خمس‘‘ کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔1974کی اسمبلی میں ہمارے اکابرین کی طرف سے غیر مسلموں کیلئے اسلام کی شناخت کی چوری روکنے کے موقف کا ذکر کرکے ڈاکٹرنے خود ہی ثابت کردیا کہ یہ کوئی میری ذاتی اختراح نہیں بلکہ ہمیشہ سے اہل اسلام کا یہی موقف رہا ۔یاد رہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں علمائے اسلام اور عوام الناس نے مرزا قادیانی ک صاحب کے موقف کو رد کر کے اسے اسلام پر ایک ڈاکہ قرار دیا البتہ یہ بھی یاد رہے کہ آئینی طور پر مرزا ناصر صاحب کے بر ملا اس انکارکے بعد ہی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیاتھا کہ ’’ اسلام محمدﷺ کے دین کا مخصوص برانڈ نام نہیں‘‘۔ آگے چل کے جناب ڈاکٹر صاحب رقمطراز ہیں کہ ’’محترم پروفیسر صاحب نے اپنے مضمون میں یہ بھی بیان فرمایا کہ:نبی کریم ﷺ کے وصال مبارک کے کچھ ہی عرصہ بعد مسیلمہ کذاب نے اس شناخت کو چوری کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا۔ سیدنا صدیق اکبرؓ نے اس کے خلاف کارروائی کی- ہم نہایت ہی ادب کے ساتھ محترم پروفیسر صاحب کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ تاریخ کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی یہ جانتا ہے کہ مسیلمہ کذاب نے نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد نہیں بلکہ آپ ﷺ کی زندگی میں ہی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کردیا تھا اور حضرت ابوبکرؓ نے مسیلمہ کذاب پر لشکرکشی اس کے جھوٹے مدعی نبوت ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کی وجہ سے کی تھی‘‘ ڈاکٹر صاحب نے اس پیرا گراف میں جو چوٹیں ان جانے میں راقم پر لگائی ہیں اگر اس کو سچ مان لیا جائے تو اس کی زد میں سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب موصوف کے مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب بھی آ جائیں گے۔ انہوں نے بھی لکھا ہے کہ مسیلمہ کذاب نے وصال نبوی کے بعد ہی دعوی نبوت کیا تھا اور حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کے دور میں اس سے جنگ دعوی نبوت کی وجہ سے تھی نہ کہ بغاوت کی وجہ سے۔ فقط دو حوالے مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کی کتابوں سے پیش کروں گا۔ مرزا صاحب’’ ملٖفوظات جلد آٹھ صفحہ نمبر 277 ‘‘پر لکھتے ہیں ’’میرے نزدیک آنحضرتﷺ کے بعد بہت بڑا احسان اس امت پر حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کا ہے کیونکہ ان کے زمانے میں چار جھوٹے پیغمبر ہو گئے۔ مسیلمہ کذاب کے ساتھ ایک لاکھ آدمی ہوگئے‘‘۔ دوسرا حوالہ یہ کہ مرزا صاحب اپنی کتاب روحانی خزائن جلد نمبر آٹھ صفحہ 334-335 پر لکھتے ہیں ’’ فان رسول اﷲ ﷺ لما توفی نزلت المصائب علی الاسلام والمسلمین۔ وارتد کثیر من المنافقین و تطاولت السنۃ المرتدین وادعی النبوۃنفر من المفترین واجتمعت علیہ اہل البادیہ حتی لحق بمسیلمۃ الکذاب من مائۃ الف من الجھلۃ الفجرہ‘‘ ترجمہ: نبی کریمﷺ کے وصال مبارک کے بعد اسلام اور مسلمانوں پر کئی مصائب ٹوٹ پڑے۔ کئی منافق مرتد ہو گئے جن کی زبانیں لمبی ہو گئیں۔کئی ایک جعل سازوں نے جھوٹی نبوت کے دعوے کردیے اور بہت سے بدو ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ مسیلمہ کذاب کے ساتھ ایک لاکھ جہلا اور بد کار شامل ہوگئے‘‘ ان دونوں حوالوں کا بغور جائزہ لیں توواضح طور پر مرزا صاحب کہہ رہے ہیں کہ جب نبی کریمﷺ کا وصال ہو گیا تو اس کے بعد جھوٹے مدعیان نبوت اٹھ کھڑے ہوئے، جن میں مسیلمہ کذاب کا دونوں جگہ واضح ذکر کیا۔ اب ہمیں الزام دینے کی بجائے ڈاکٹر صاحب خود ہی فیصلہ کرلیں کہ ان کا اپنا موقف درست ہے یا ان کے مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کا؟

آگے چل کے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ’’محترم پروفیسرمسعود صاحب مزید اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:7 ستمبرہماری تاریخ کا وہ روشن اور تاریخ ساز دن ہے جب ہزاروں مسلمانوں نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے طویل جدوجہد کے بعد پارلیمنٹ سے مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی ماننے والوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قراردلوانے میں کامیابی حاصل کی۔ محترم پروفیسر صاحب سے ہم اس ضمن میں اتنا ہی عرض کرتے ہیں کہ نہ جانے کونسی تاریخ آپ نے پڑھی ہے جس نے آپ کو یہ بتلایا کہ ''ہزاروں'' مسلمانوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا- حقیقت یہ ہے کہ 1953 کی تحریک سمیت چند گنتی کے افراد ہیں جن کی جانیں اینٹی احمدیہ تحریکات میں گئی ہیں- ہم اُن افراد کی جانوں پر بھی دلی افسوس کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتے لیکن محترم پروفیسر صاحب سے یہ عرض کرتے ہیں کہ محض عوام کو جذباتی کرنے اور احمدیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی خاطر خدارا حقائق کو مت بگاڑیئے- اور اگر آپ پھر بھی مصر ہیں تو ہماری درخواست ہے کہ پاکستان کے کسی بھی مستند ادارے کی کوئی ایسی رپورٹ یا گوشوارہ بطور ثبوت قارئین کے سامنے پیش کیجئے تاکہ آپ کے دعویٰ کی تصدیق ہو جائے‘‘۔ ڈاکٹریحٰی صاحب بلا تحقیق الزامات لگانا اچھی روش نہیں۔ہم نے وہی تاریخ پڑھی ہے جو اب بھی موجود ہے اور حوالہ جات بھی آپ کی تشفی کیلئے پیش خدمت ہیں۔ آپ نے کہاکہ’’ حقیقت یہ ہے کہ 1953 کی تحریک سمیت چند گنتی کے افراد ہیں جن کی جانیں اینٹی احمدیہ تحریکات میں گئی ہیں‘‘ آپ کا یہ کہنا ان ہزاروں شہدائے ختم نبوت کے ساتھ زیادتی ہے جنہوں نے اپنے پیارے نبی محمد رسول اﷲﷺ کی ناموس اور ختم نبوت کے تحفظ کیلئے اپنی عزیز جانوں کے نذرانے پیش کیے۔یاد رہے کہ یہ ظلم کی داستان اسی دور میں لکھی گئی جب سر ظفر اﷲ خان پاکستان کے وزیر خارجہ تھے اور عملا حکومت میں قادیانیوں کا اثر و رسوخ تھا۔ ویسے تو سینکڑوں کتب اور اخبارات کے تراشے موجود ہیں جن میں صرف 1953کی تحریک ختم نبوت میں دس ہزار شہداء اور ہزارہا لوگوں کے در بدر ہونے کا واضح ذکر موجود ہے۔لیکن کالم کے دامن میں اتنی وسعت نہیں کہ سارے حوالے لکھ سکوں۔البتہ چند غیر جاندار لوگوں کی کتب کے حوالے پیش کروں گا جو غیر مسلم ہیں اور اپنے وقت کے معتبر مورخ اور وقوعہ نگار ہیں، امید ہے کہ ڈاکٹر صاحب ان حقائق کے انکار کی جرائت نہیں کر سکیں گے۔۔ Wikipedia 1953 Lahore riots ... کے عنوان کے تحت لکھتا ہے کہ"The Lahore riots of 1953 were a series of violent riots against the Ahmadiyya Movement, a non islamic movement whose followers falsly claim to be Muslims, mainly in the city of Lahore, Pakistan as well as the rest of Punjab, which were eventually quelled by the Pakistan Army who declared three months of martial law. The demonstrations began in February 1953, soon escalating into citywide incidents, including looting, arson and the murder of somewhere between 200 and 10,000 people,while thousands more were left displaced.
ترجمہ:’’1953 ء کے لاہور فسادات احمدیہ تحریک کے خلاف تھے جن کے پیروکار جعلی طور پر مسلمان ہونے کا دعوی کرتے تھے۔ یہ فسادات لاہور شہر اور پنجاب کے دیگر حصوں میں برپا تھے۔اس کے نتیجے میں پاکستان آرمی نے تین ماہ کیلئے مارشل لاء لگا دیا۔ان مظاہروں کا آغاز فروری 1953میں ہوا اور جلد ہی لوٹ مار اور جلاؤ گہراؤ میں بدل گئے۔ان فسادات میں دو سو سے دس ہزار افراد قتل ہوئے جبکہ ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے‘‘ وکی پیڈیا نے پانچ مستند حوالہ جات کے ساتھ یہ حقائق بیان کیے ہیں جنہیں وکی پیڈیا پر 1953 Lahore riots کے عنوان کے تحت بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ کالم کا دامن متحمل نہیں ورنہ سارے حوالہ جات درج کرتا۔ آگے چل کرڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ’’پروفیسر ہزاروی صاحب مزید رقمطرازہیں کہ:احمدیت کا مسئلہ یہ ہے کہ عقیدہ ختم نبوت کا انکار کرکے مرزا قادیانی کو انہوں نے نبی بنایا ہوا ہے۔۔ اس ضمن میں دو نہایت ہی اہم باتیں ہم محترم پروفیسر صاحب اور قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں- پہلی بات تو یہ کہ احمدی ہرگز ہرگز عقیدہ ختم نبوت کا انکار نہیں کرتے یہ ہم پر بہتانِ عظیم ہے- ہم احمدی آیت خاتم النبیین کے نازل ہونے کے باوجود ایک نبی کی آمد کے قائل ہیں- فرق صرف اتنا ہے کہ آپ اُسی اسرائیلی مسیح ناصری کے دوبارہ جسمانی طور پر آسمان سے نزول کے قائل ہیں جبکہ احمدی یہ مانتے ہیں کہ وہ بابرکت وجود امت محمدیہ میں ہی پیدا ہونا تھا‘‘- داکٹر یحٰی صاحب ! ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کے قائل اور منتظر اسلئے ہیں کہ نبی مکرمﷺ کی متواتر احادیث نے ان کی آمد کی خبردی اور پیشین گوئیاں فرمائی ہیں۔ اسی پر آغاز اسلام سے ابھی تک امت مسلمہ کا اجماع چلا آرہا ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی صاحب سے پہلے کسی معتبر شخصیت کا حوالہ پیش کریں کہ حضورﷺ نے جس مسیح کی آمد کی پیشین گوئی فرمائی ہے وہ عیسیٰ بن مریم علیھماالسلام کی بجائے مرزا غلام احمد بن چراغ بی بی ہوگا۔جب مرزا صاحب نبوت کا دعوی کرتے ہیں اور تم ان کو نبی مانتے ہو تو یہی ختم نبوت کا انکار ہے۔ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے تاویلوں کا سہارا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ دوسری بات یہ کہ ذخیرہ احادیث میں کوئی ایک بھی عیسی علیہ ا لسلام سے منسوب جملہ ایسا نہیں کہ انہوں نے تشریف لا کر اپنی نبوت کا اعلان کرنا ہے۔ وہ تو نبی کریمﷺ کے دین کا پرچار کریں گے۔ جبکہ مرزا قادیانی صاحب کی کتابوں’’ نجم الھدی صفحہ نمبر 15 ، انوار الاسلام صفحہ نمبر 30اور آئینہ کمالات صفحہ نمبر547 ‘‘ پر موجود ہے کہ جو کوئی مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہ مانے وہ ولد الحرام،جنگلوں کے سور،جہنمی اور کنجری کے بیٹے ہیں (العیاذ باﷲ)آگے چل کے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ’’خاکسار آپ کو یہ یاد دلوانا چاہتا ہے کہ 1974میں کی گئی آئینی ترمیم کے مطابق ’’جو شخص انحضرت محمد عربی ﷺ کے خاتم النبیین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا جوحضرت محمد ﷺ کے بعد کسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے وہ آئین یا قانون کے اغراض کے لئے مسلمان نہیں ہے‘‘۔ ہمیں امید ہے کہ محترم پروفیسر صاحب ہمارے ساتھ اس حقیقت پر اتفاق کرینگے کہ تقریباً تمام مسلمان فرقے بشمول بریلوی، دیوبندی اہل حدیث اور شیعہ حضرات، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثتِ ثانی کے بعد انکو مشروط طور پر یا کسی نہ کسی مفہوم میں سچا نبی یا سچا دینی مصلح ہی تسلیم کرتے ہیں اسلئے یہ تمام فرقے ائینِ پاکستان کی شق 260 کے مطابق مسلمان نہیں ہیں‘‘- ڈاکٹرصاحب ! آپ آئین پاکستان کی شق 260 من مانی تشریح کرکے خلط مبحث کے مرتکب ہوئے ہیں۔آئین کی یہ شق اپنے معنی و مفہوم میں بالکل واضح ہے کہ جو بندہ نبی کریمﷺ کے بعد نبوت کا دعوی کرے اور کوئی اس کو سچا نبی مانے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔

حضرے عیسی علیہ السلام کا دور نبوت گزر چکا۔وہ کوئی نئے نبی بن کر تشریف نہیں لائیں گے بلکہ ان کی حیثیت دین محمدی کے پیر و کار کی ہوگی۔لھذا یہ آپ نے کہاں سے نکال لیا کہ ہم کسی نئے نبی کی آمد کے قائل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے اتنی گزارش ہے کہ صاف گوئی سے کام لیں حقائق کو توڑ مروڑ کر خلط مبحث کا ارتکاب کرکے لوگوں کو الجھانا اچھی روش نہیں۔ امید ہے آئندہ محطاط رہیں گے۔
 

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219003 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More