حق کی بات

قصہ مختصر/ پروفیسر حافظ سجاد قمر
بے خطر کودپڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
ناموس رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم عشق کا معاملہ ہے۔یہاں پر عقل کی تمام سرحدیں ختم ہو جاتی ہیں۔اور ویسے بھی عشق میں عقل کا گزر ہی ممکن نہیں۔اور عشق آقائے دوجہاں ﷺ سے ہو تو وہاں پر سوال جواب ’’چہ معنی دارد‘‘

مغرب نے ایک نیا وطیرہ اختیار کر لیا ہے تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد وہ یہ دیکھنے کے لیے کہ مسلمانوں میں کتنی غیرت باقی ہے۔نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی نہ کوئی گستاخانہ حرکت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور پھر منہ کی کھاتے ہیں۔

اسی طرح ہمارے حکمران طبقے کے اندر بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو حکمرانوں سے اس نوع کی غلطیاں کرواتے رہتے ہیں۔گذشتہ دور حکومت میں ختم نبوت ﷺ کے فارم میں الفاظ کی تبدیلی کا معاملہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ نئی حکومت نے ایک قادیانی کو اکنامک ایڈوائزر ی کونسل کا ممبربنا دیا۔جس پر پوری قوم سراپا احتجاج بن گئی۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اپنے آپ کو مجاہد ختم نبوت کہلانے والے اور بڑے بڑے جغادری اس کے حق میں ایسی ایسی دلیلیں لیکر آئے کہ جو خود عاطف میاں کو بھی معلوم نہیں تھیں۔ حیرت اس بات کی ہے کہ جہاں ایک طرف پوری قوم اور دوسری طرف چند نام نہاددانشور جو دور دور سے شرعی حوالے لے کر آ رہے تھے کہ الاماں و الحفیظ جیسا کہ کہا جارہا تھا کہ جناب اس ملک میں تمام مذاہب کے لوگ بستے ہیں اور یہ کہ یہاں ہر شہری کا برابر کا حق ہے تو پھر عاطف میاں کی مخالفت کیوں ہے۔؟
لیکن وہ کیا جانے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں،بات اگر اقلیت کی ہو تو کبھی بھی کسی ایک مسلمان نے کسی ہندو سکھ یا عیسائی پر کوئی اعتراض نہیں کیا،پاکستان میں اقلیتوں کی ہر جگہ سیٹیں اوراسمبلیوں میں کوٹہ مختص ہے۔اس میں جہاں اور لوگ ہیں وہاں پر قادیانی بھی آ سکتے ہیں لیکن وہ نہیں آتے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیر مسلم نہیں سمجھتے۔یعنی وہ اپنے عقائد بھی رکھنا چاہتے ہیں اور اندر ہی اندر سے مسلمانوں کو دیمک کی طرح چاٹنابھی چاہتے ہیں۔

جو قوم ختم نبوت ﷺکے حلف نامے میں ایک لفظ کی تبدیلی برداشت نہیں کر سکتی وہ ایک جیتے جاگتے قادیانی کو کیسے برداشت کر سکتی ہے۔پھر یہ مسئلہ حوالوں سے زیادہ محبت اور عقیدت کا معا ملہ ہے۔مسلمان کٹ تو سکتا ہے لیکن نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ناموس پر کوئی حرف برداشت نہیں کر سکتا۔جب خود اﷲ فرماتا ہے کہ کہ میں نے تمھارے دین کو مکمل کر دیا ہے۔اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرما تے ہیں کہ میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں تو پھر سوال جواب اور کسی دلیل کی کوئی ضرورت نہیں۔

اس مسئلے پر قوم تو مشتعل اور اپنے جذبات رکھتی تھی لیکن وہ لوگ داد کے مستحق ہیں جنہوں نے حکمران پارٹی کے اندر رہ کر اس کی مخالفت کی اور اس کو ختم کرنے میں اپنا کردار بھی ادا کیا۔اس میں اہم ترین کردار وفاقی وزیر م ہبی امور ڈاکٹر نور الحق قادری کا ہے جنہوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔اور لوگوں نے بھی اپنی اپنی جگہ پر زبان اور قلم سے اپنا کردار ادا کیا جن میں انجینئر افتخار احمد نمایاں ہیں۔اتفاق سے جس دن یہ فیصلہ آیا اسی دن محترم مولانا علی محمد ابو تراب صاحب کے ہمراہ وزیر مذہبی امور ڈاکٹر نور الحق قادری صاحب سے ملاقات ہوئی۔چونکہ میڈیا کے ذریعے ان کے کردار کے بارے میں معلوم ہوا تھا لہذا ان کو اس مسئلے کے حل پر مبارک باد پیش کی۔

ڈاکٹر نور الحق قادری 2002 سے 2013 تک ممبر قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر زکو ٰۃ و عشر بھی رہے ،آپ نے ایم ایس سی اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔اتفاق سے ان کے دو اساتذہ سے بھی ان ہی دنوں میں ملاقات ہوئی جن میں اسلامی نظریاتی کونسل کے موجودہ چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز بھی وفاقی وزیر کے استاد رہے اور ان کو اپنا ہونہار شاگرد قراردیتے ہیں۔

ڈاکٹر نور الحق قادری صاحب نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ان کو بلایا اور اس مسئلے پر رائے طلب کی۔قادری صاحب نے کہا کہ یہ مسئلہ انتہائی نازک ہے اور کہا کہ میں کوئی مفتی نہیں کہ فتویٰ دوں۔لیکن فوری طور پر جو بیان کر سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ قادیانی دو طرح کے ہیں،ایک پیدائشی اور دوسرے وہ جنہوں نے بعد میں اسلام کو ترک کر کے قادیانیت اختیار کی تا ہم اس کے شرعی یا غیر شرعی ہونے سے زیادہ یہ ہے کہ پاکستان کی مسلم سوسائٹی میں یہ کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں۔چونکہ یہ ناموس رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم کا مسئلہ ہے۔ اور اس حوالے سے پا کستان کا معاشرہ انتہائی سخت اور حساس ہے۔پھر یہ بھی ہے کہ کسی مسئلے کو دیکھنا چاہیے کہ اس میں نقصان زیادہ ہے یا فاہدہ اور ایک آیت بھی پڑھی جس کا ترجمہ یہ ہے۔
(البقرہ آیت219)اور اس میں جو گناہ(نقصان)ہے وہ نفع سے زیادہ ہے۔

ڈاکٹر نور الحق قادری کے دلائل پر عمران خان نے کہا کہ ہم ان کو امام نہیں بنا رہے اور نہ ہی اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئر مین…… تو پھر کیا حرج ہے؟لیکن قادری صاحب نے کہا کہ اس مسئلے میں جہاں پوری عوام کی رائے ایک طرف ہے اور اس کی حساسیت زیادہ ہے۔لہذا اس کو ترک کر دینا چاہیے۔قادری صاحب کے زور دینے پر وزیر اعظم نے یہ تسلیم کر لیا کہ عاطف میاں کو ہٹایا جائے اورکہا کہ اسد عمر کو کہتے ہیں کہ وہ اس سے استعفی لے لیں اور آج یہ ہو گیامیرا یہ مانناہے کہ اچھی بات کی تائید ہونی چاہیے ،ایسے مواقع پر اپنی کھل کراپنی رائے کا اظہار کرنا اور آزادانہ حق کی بات برملا کہنا ہی اصل کام ہے۔شیخ رشید جو الیکشن بل کے موقع پر تو احراروں کو آواز دے رہے تھے اور بہت سارے دوسرے بھی لیکن اس موقع پرایسے سب نے چپ سادھ لی تھی۔تا ہم ڈاکٹر نور الحق قادری صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بروقت کلمہ حق کہا اور یوں ایک مسئلہ حل ہو گیا۔جو کام کرے اس کو کریڈٹ ملنا چاہیے۔امید ہے کہ ڈاکٹر صاحب آئندہ بھی اپنے حصے کا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

Hafeez Usmani
About the Author: Hafeez Usmani Read More Articles by Hafeez Usmani: 58 Articles with 46052 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.