چھوٹا سا گروہ

جتنے تجربے ہمارے ہاں کیے گئے ہیں ان کی مثال دنیا کے شاید ہی کسی ملک میں ملے۔یہ تجربے اب تک ناکام رہے ہیں۔ان کا مقصدتو ہمیشہ بہتری لانا رہاہے۔بہتری نہ آنا ان تجربات کی ناکامی کی دلیل ہے۔کبھی ہم صدارتی نظام کو اپنے جملہ مسائل کا حل سمجھ بیٹھتے ہیں۔لگتاہے کہ پارلیمنانی نظام کی وسعت اور جم غفیر مسائل کو دوچند کرنے کا سبب بن رہاہے۔پارلیمان کے نام پر لمبا چوڑا سیٹ اپ وسائل کے ضیاع کا باعث بن رہا ہے۔بھانت بھانت کی تجاویز۔آوازیں ۔ااور اشکال دھینکا مشتیوں کا سبب بن رہی ہیں۔، مسائل گھٹنے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔صدارتی نظام لایا جاتاہے۔کچھ مہینے کچھ برس یہ نظام بڑا کامیا ب رہتاہے۔پھر وہی بے چینی ، وہی بے کلی۔ بتایا جاتاہے کہ صدارتی نظام کچھ کامیاب نہیں،معلوم ہوتاہے کہ اس کی کامیابی مصنوعی تھی۔اسے جھوٹے پراپیگنڈے سے کامیاب ہونے کا تاثر دیا گیا۔صدارتی نظا م سے اکتائی قوم کو پھر پارلیمنانی نظام کی طرف لانے کی مہم شروع ہوجاتی ہے۔پھر سے وہی کھیل بس اس کی ترتیب تھوڑی سی بد ل گئی ۔پہلے پارلیمانی نظام میں کیڑے نکالے جاتے تھے۔صدارتی نظام کی خوبیاں بیان کی جاتی تھیں۔اب الٹاہوگیا۔اب صدار تی نظام کی قباحتیں ڈھونڈی جانے لگیں اور پارلیمانی نظام کے فیوض وبرکات ہائی لائٹ کیے جاتے ہیں۔کبھی صدارتی کبھی پارلیمنانی نظام تجربات کیے جارہے ہیں۔دھڑا دھڑ تجربات ہورہے ہیں۔ مطلب تو مسائل میں کمی کی تدبیر کرناہے ۔مگر مسائل ہیں کہ جان نہیں چھوڑ رہے۔ہر تجربہ ناکام ہورہاہے۔ہر کوشش نہ کامیاب ہورہی ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کچھ نیا کرنے کے چکر میں ہے۔تبدیلی اس کا ماٹو ۔عمران خان کے سوا لوگ کسی کو نہیں جانتے ۔تحریک انصا ف کے مخالفین کا یہ پراپیگندہ بے اثر ہورہاہے کہ عمران خاں دوسری جماعتوں کا کچر ا لیے ملک کا گند صاف کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔وہ قوم کو دھوکہ دے رہے ہیں۔عمران خاں کے چاہنے والوں کو یہ کچر ا نظر نہیں ٓرہا۔وہ کہتے ہیں کہ اصل چیز قیادت کا اچھا ہونا ہے۔نچلے لوگ خود بخود ٹھیک ہوجاتے ہیں۔پوچھا جائے کہ یہ حضرات پچھلے کئی برسوں سے مختلف وزارتوں اور عہدوں پر رہے ہیں تب تو یہ ہر قسم کے دھندے میں ملوث رہے۔اب کیوں کر سدھر گئے، جواب ملتاہے کہ تب قیادت کی کرپشن اور بد نیتی کے سبب بہک گئے۔عمران خاں کی دیانتدارانہ قیاد ت انہیں راہ بھٹکنے نہ دے گی۔بڑی تاویلیں دی جا رہی ہیں۔عمران خاں کے ساتھی بھی عوامی مزاج سے بے خبر نہیں ۔وہ بھی اپنے داغ دار ماضی پر مٹی ڈالنے کی تدبیریں کرتے رہتے ہیں۔کبھی خوشخبری سناتے ہیں کہ عنقریب چوروں اور ڈاکوؤں پر بڑا ہاتھ ڈالا جارہاہے۔بیرون ملک کرپشن کا جو پیسہ چھپایا گیا ہے،اس کی ریکوری کے لیے ایک کمیٹی بن چکی۔کبھی پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر سے متعلق کسی پیش رفت کا اعلا ن کیا جاتاہے۔اور کبھی ایک کروڑ نوکریوں کی بات کی جاتی ہے۔عمرا ن خان کے رفقاء اپنا اعتبار بنانے کی پوری کوشش میں ہیں۔بلدیاتی نظام میں تبدیلی کی باتیں ہورہی ہیں۔پیٹرول کی قیمتیں کم ہوچکیں۔اب دوسری سہولتوں سے متعلق غوروفکر جاری ہے۔

ہر طرف سے عمران خاں کو موقع دیے جانے کی بات کی جارہی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا اپنے پانچ سال پور ا کرنے تک تحریک انصاف کچھ کمال کربھی پائے گی یا نہیں؟۔کیا جو امیدیں قوم لگائے بیٹھی ہے پوری ہوپائیں گی؟ ہمارا اصل مسئلہ دعوے یا ایجنڈے نہیں ہیں۔کچھ او ر ہے۔دعوے اور یجنڈے تو ہر حکومت دیتی رہی ہے۔ انجام کار حالات جوں کے توں رہے ۔عمران خاں تبدیلی کا نعرہ لگارہے ہیں انہیں سمجھنا ہوگا کہ پچھلی حکومتوں کے دعووں اور ایجنڈوں کا حشر ایسا کیوں کر ہوا؟ ایسا کیا کیاجائے کہ تحریک انصاف کی حکومت کا انجام ایسا نہ ہو؟حکومت کے ابتدائی ایام کچھ کٹھا کچھ میٹھا کی تفیسر بنے رہے ہیں۔دو باتیں اچھی ملیں اورساتھ ہی دو خراب خبریں بھی پہلو بہ پہلو سننے کو موجود ہوئیں۔یوں لگتاہے جیسے وزیر اعظم کی نیک نیتی کی طاقت ان دنوں تھوڑی کمزور پڑرہی ہے۔ان کی ٹیم کے لوگ اپنا اپنا رنگ جمانے میں جزوی طو رپر کامیاب ہورہے ہیں۔پنجاب اور مرکز کی جہازی کابینائیں عمران خان کی نیک نیتی اور ان کی ٹیم کے کردار کے مقابلے کا ایک مایوس کن نتیجہ ہے۔ ان کی ٹیم کی منہ زوری جیت رہی ہے۔کچھ مذید منہ زوریاں بجلی مہنگی ہونے ۔اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی بار بار تجاویز دینے سے دیکھی جاسکتی ہیں۔

تجربات ہورہے ہیں۔نت نئے تجربات ۔عجب عجب سے تجربا ت کبھی صدارتی نظام کا تجربہ کبھی پارلیمانی آئین کا تجربہ ۔کبھی مذہبی گروہوں کو سپورٹ کرنے کی کوشش ۔کبھی وڈیرہ شاہی کو پروموٹ تو کبھی صنعت کاروں کی حوصلہ افزائی۔اب تبدیلی کا تجربہ کیا جارہاہے۔اب تک تجربات کامیاب نہیں ہوپائے۔دیکھیں تبدیلی کا تجربہ کیا گل کھلاتاہے۔بار بار تجربات کی ناکامی ایک سوالیہ نشان ہے۔سوچنا ہوگاکہ ہمار تجربات کیوں کر ناکام ہورہے ہیں؟کیا سبب ہے کہ بار با ر ہم ایک ہی طر ح کے تجربات کو دہرانے کی غلطی کرتے رہے۔ ہمارے تجربات ناکام ہونے کا سبب پلاننگ میں کمزوری نہیں ۔نہ ہی کوشش کی کوئی کوتاہی ہے۔اصل خامی شاید تجربات میں نہیں تجربات کرنے والوں میں ہے۔یہ لوگ اپنے تجربات میں تبدیلی تو کرتے رہتے رہتے ہیں۔مگر ان کی نیت او رمقصد میں کبھی فرق نہیں آیا۔ہر تجربہ ناکام ہونے کا سبب بھی ان کی نیب کی غلاظت کے سو ا کچھ نہیں ۔یہ ہر تجربے میں ریاست اور قوم کے مفاد کو ثانویت دینے کے جرم وار رہے ہیں۔انہوں نے ہر تجربے کو کچھ مخصوص مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنایا۔یہ چھوٹا سا گروہ ہمارے وسائل پر قابض ہے۔او ر اس کے آئے دن کے تجربے عوام کی سوچ بھٹکانے کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔اس چھوٹے سے دھڑے کے مفاد میں کبھی تعطل نہیں آیا ۔ریاست دو لخت ہو جائے تو ہوجائے ۔ان کی اکڑ او رشان میں کچھ فرق نہیں آتا۔قوم بھوکوں مرے یا کسی آسمانی آفت میں گھر جائے ان کی عیاشیاں جاری رہتی ہیں۔وزیر اعظم عمران خاں اگر تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو انہیں اس چھوٹے سے گروہ کا سامنا کرنا ہوگا۔۔سانپ کے منہ میں ہاتھ ڈال کرکچھ نکالنا کتنا مشکل ہے۔انہیں تب اس کا ادراک ہوگا۔ان کی ٹیم کی من مانیاں دیکھ کر بھی انہیں اس چھوٹے سے گروہ کی طاقت کا اندازہ ہورہا ہوگا۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123872 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.