اُردو لٹریچر میں پی ایچ ڈی کرنے اورشعروسخن سے گہرا لگاؤ
رکھنے والی کلثوم دارالفنا سے دار البقا کی طرف ہجرت کر گئی۔وہ خالصتاََ
ایک گھریلو خاتون تھی لیکن جب اُس کا ’’باؤ جی‘‘ آمر کے پنجۂ استبداد میں
گرفتار ہوا تو وہ دھاڑتی ہوئی شیرنی کی طرح نکلی اور فرعون صفت آمر کو لرزہ
بَر اندام کر گئی۔ اُس حیاکی پُتلی نے ثابت کر دیا کہ وہ سیاسی اسرارورموز
میں بینظیر بھٹو سے کسی طور کم نہیں۔ وہ ایک شفیق ماں تھی جو مرض الموت میں
مبتلاء ہونے کے باوجود اپنے بچوں کو شفقتوں بھری تسلیاں دیتی رہی۔ دَمِ
واپسیں بھی اُس کی زبان پر ’’وہ رحمٰن ہے، وہ رحیم ہے‘‘ جیسے الفاظ یہ
منادی کر گئے کہ وہ رَبّ ِ لَم یَزل کی رحمتوں سے کبھی مایوس نہیں ہوئی ۔
اچھا ہوا جو اُس بے سُدھ نے مریم کی پلکوں پر جھلملاتے موتی نہیں دیکھے،
حسن اور حسین کے چہروں پر چھائی اُداسی کی گہری لکیریں نہیں دیکھیں اور
اپنے ’’باؤ جی‘‘ کی درد میں ڈوبی کلثوم ،کلثوم کی صدائیں نہیں سنیں۔ اچھا
ہوا جو اُسے علم ہی نہ ہوا کہ اُس کا باؤجی اور مریم ہفتوں تک ہر روز اِ س
اُمید پر ہارلے سٹریٹ کلینک کا طواف کرتے رہے کہ کسی وقت تو وہ مسکراتی
نگاہوں سے اُن کا استقبال کرے گی۔ اچھا ہوا جو وہ بے خبر رہی کہ حاکمانِ
وقت نے جبر کی انتہا کرتے ہوئے اُس کی محبوب ترین ہستیوں کے نام ای سی ایل
میں عین اُس وقت ڈال دیئے جب وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ اچھا ہو
جو اُس کے کانوں پر نفرتوں کے سوداگروں کے یہ کریہہ الفاظ نہیں گرے کہ ’’سب
ڈرامہ ہے، سب فسانہ‘‘۔ اچھا ہوا جو اُس تک پستیوں کے باسی انسان نما درندوں
کے یہ الفاظ نہیں پہنچے ’’وہ تو کب کی مر چکی۔ اب انتخابات سے پانچ روز
پہلے اُس کی موت کی خبر دی جائے گی تاکہ عوامی ہمدردیاں حاصل کی جا سکیں‘‘۔
اگر وہ اپنے حواس میں رہتے ہوئے لازمۂ انسانیت سے تہی درندوں کے یہ الفاظ
سُن لیتی تو وقت سے پہلے مَر جاتی۔
مشرقی شرم وحیا کی وہ تصویر تو مر کے اَمر ہو گئی لیکن اُس کا ’’باؤجی‘‘
تنہا رہ گیا ۔۔۔۔ تنہا اور اُداس۔ نمازِجنازہ میں شریک ’’باؤجی‘‘ کی
اُداسیوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ کہہ رہا ہو
وہ صورتیں الٰہی کِس دیس بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
اُس کی 47 سالہ رفاقت اپنے انجام کو پہنچی۔ باؤجی کے چاہنے والے کروڑوں
لیکن جسے وہ چاہتا ہے، وہ تو اب صرف مٹی کی ایک ڈھیری۔ باؤجی کا اصل اثاثہ
تو کلثوم تھی جسے حاکمِ مطلق نے واپس بلا لیا۔ یہ باؤجی کے لیے ایک کڑی
آزمائش ہے لیکن قادرِمطلق آزمائش بھی اپنے بندوں ہی کی کرتا ہے، نافرمانوں
کی رَسی تو دراز کر دی جاتی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اِدھر بَنی گالہ میں
عمران خاں کے بیٹوں کے وی وی آئی پی پروٹوکول کی تیاریاں ہو رہی تھیں اور
اُدھر تین بار خاتونِ اوّل رہنے والی غریب الوطن بیگم کلثوم نواز اپنے خالقِ
حقیقی سے ملنے کی تیاریاں کر رہی تھی۔ رَبّ ِ ذوالجلال تو اپنی مخلوق کو
ایسی نشانیاں دکھاتا ہی رہتا ہے، یہ الگ بات کہ ہم اِس پر غور نہیں کرتے۔
اُس کی رحلت نے پاکستانی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی، کئی پرانے زخم پھر سے
ہرے ہو گئے اوردَورِآمریت کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ وہ ایک عہد کی داستان تھی
جس کا آخری باب دیارِغیر میں لکھا گیا۔ شریف میڈیکل سٹی کے فُٹ بال گراؤنڈ
میں اُن کی نمازِجنازہ ہوئی جس میں شرکاء کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل۔
بس اتنا معلوم کہ تمام نیوزچینلز کے رپورٹرز متواتر چیخ رہے تھے ’’شریف
میڈیکل سٹی کے فُٹ بال گراؤنڈ میں کھڑے ہونے کی جگہ بھی باقی نہیں بچی لیکن
لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے‘‘۔ تا حدّ ِ نظر سَر ہی سَر تھے جو تین بار
خاتونِ اوّل رہنے والی مرنجاں مرنج کلثوم نواز کو سلامِ عقیدت پیش کرنے آئے
تھے۔ جاتی اُمرا میں میاں نوازشریف کی رہائش گاہ پر خواتین کی کثیر تعداد
موجود تھی جو بیگم صاحبہ کا آخری دیدار کرنے اور مریم نواز سے تعزیت کرنے
پہنچی تھی۔
پاکستان کی تقریباََ تمام سیاسی جماعتوں کے وفود نے نمازِجنازہ میں شرکت کی۔
وضعدار چودھری برادران (چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویزالٰہی) نمازِ جنازہ
میں شریک تھے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ جب لیاقت باغ راولپنڈی میں بینظیر
بھٹو کو گولی کا نشانہ بنایا گیا تو عین اُسی وقت میاں نوازشریف کے قافلے
پر بھی گولیاں چلائی گئیں۔ اِس کے باوجود کہ خطرات سَر پر منڈلا رہے تھے
اورمیاں نوازشریف کو آگاہ کر دیا گیا تھا کہ اُن کی زندگی کو شدید خطرہ ہے،
وہ جنرل ہسپتال راولپنڈی میں زخمی بینظیر کی عیادت کے لیے پہنچنے والے پہلے
قومی رَہنماء تھے۔ پھر اُنہوں نے انتخابی کمپین مؤخر کی اور گڑھی خُدا بخش
جا کر بینظیر بھٹو کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔ وہ تو اِس سانحے پر 2008ء
کے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کر چکے تھے لیکن آصف زرداری کے کہنے
پر وہ الیکشن میں حصّہ لینے پر آمادہ ہوئے۔ محترمہ کلثوم نواز کی
نمازِجنازہ میں پیپلزپارٹی کا وفد تو موجود تھا لیکن کہیں آصف زرداری نظر
آئے نہ بلاول زرداری۔ تحریکِ انصاف کے وفد نے بھی نمازِ جنازہ میں شرکت کی
لیکن شاید وزیرِاعظم عمران خاں کو یہ یاد نہیں رہا کہ 2013ء کے انتخابات سے
عین پہلے جب وہ لاہور کے ایک جلسے میں سٹیج سے گر کر زخمی ہوئے تو شریف
برادران انتخابی کمپین مؤخر کرکے شوکت خانم کینسر ہسپتال میں اُن کی عیادت
کو جا پہنچے، حالانکہ اُن دنوں کپتان ہر جگہ شریف برادران کے خلاف زہر
اگلتے رہتے تھے۔ اگر وزیرِاعظم عمران خاں، بیگم کلثوم نواز کی نمازِ جنازہ
میں شرکت کے لیے پہنچ جاتے تو اُن کا اپنا سیاسی قد ہی اونچا ہوتا لیکن اﷲ
تعالےٰ نے اُنہیں یہ توفیق ہی نہیں دی۔
بیگم کلثوم نواز کی بیماری کے دوران ہی حکم صادر ہوا کہ ایک مخصوص وقت تک
ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ شاید کچھ طاقتوں کو میاں
نوازشریف کو جیل بھیجنے کی جلدی ہی بہت تھی ۔ احتساب عدالت سے استثنیٰ بھی
منظور نہیں ہوا حالانکہ کیس تو شریف خاندان کے وکیل لڑ رہے تھے۔ میاں صاحب،
مریم نواز اور کیپٹن صفدر تو عدالت میں صرف حاضری لگوانے ہی جاتے تھے۔ اگر
بیگم صاحبہ کی بیماری کے دوران اُنہیں مستقل استثنیٰ مل جاتا (جیسے کہ
عمران خاں کو مِل چکا ہے) تو کم از کم وہ یہ عرصہ بیگم صاحبہ کے ساتھ گزار
کر اُس کرب میں کچھ کمی تو کر لیتے جس سے وہ آج گزر رہے ہیں۔ بیگم
صاحبہ اپنی بیٹی اور باؤجی کو پکارتی رہیں لیکن عدل کا جَبر جاری رہا۔ حیرت
ہے کہ پہلے ایک آمر نے باپ (میاں شریف) کی میت پر بیٹوں کو نہیں آنے دیا
اور آج ایک ماں (بیگم کلثوم نواز) کی میت پر بیٹے
نہیں۔ اِس کربناک کیفیت کو وہی جان سکتا ہے جو اِس سے گزر رہا ہو۔
|