پہلی ہنسی شغلانہ

وہ سات بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ بڑے پیار سے پلی۔ ادھر اس کے منہ سے جو بھی جائز ناجائز نکلتا‘ ادھر حاضر ہو جاتا۔ ماں باپ کے منہ کا لقمہ اس کے منہ میں ہوتا۔ کسی بات پر ایک ٹوکتا تو دوسرا اس پر چڑھ دوڑتا۔ ماں کسی کام کے لیے کہتی تو باپ روک دیتا کہ خود کر لو یا بنا لو‘ ساری عمر کام ہی تو کرنے ہیں۔ اسی طور سے دن اور ماہ و سال گزر گیے۔ کریماں المعروف لاڈو جوان ہو گئی۔ اب اسے سیانا ہو جانا چاہیے تھا لیکن بچپنا اس کی رگ و پے میں بس گیا تھا‘ اس لیے اس کا چلن اس کے بچپن کا رہا۔ وہ ہی ضد‘ وہ ہی ہٹ ہاں البتہ کسی ناکسی طرح میٹرک کر گئی۔ میٹرک بڑی تعلیم تھی۔ علاقے میں اتنی پڑھی لکھی کوئی اور لڑکی نہ تھی ہاں البتہ علاقے میں دو تین لڑکے میٹرک ضرور کر گئے لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی اس کی آنکھ کو نہ پورتا تھا۔ ان کا نام سنتے ہی ناک چڑھا لیتی جیسے وہ اس کے پاؤں کی مٹی بھی نہ ہوں۔ ان پڑھ اور گنوار تو اسے ڈنگر لگتے تھے۔ ان میں سے کسی کا کوئی ذکر کرتا تو کہتی: ہوں ان پڑھ گنوار پینڈو جیسے وہ خود شکاگو میں بسیرا رکھتی ہو۔ ہاں اس کے اس طور کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ اس کا دامن بےداغ رہا۔

مائی باپ کو اس کے بیاہ کی چنتا کھائے چلی جا رہی تھی، وہ سوچتے تھے کہ اچھا سا رشتے ملے تو اس کے ہاتھ پیلے کر دیں۔ بڑی تلاش اور کوشش کے بعد شہر کا ایک بابو ہتھے چڑھ ہی گیا۔ خوب صورت اور پڑھا لکھا تھا۔ اس کی قسمت مندی کہ اطراف میں ہاں کا نعرہ بلند ہو گیا۔ تین ماہ منگنی رہی اور پھر یہ گلاواں باؤ کے گلے میں پڑ ہی گیا۔

کریماں باؤ کے گھر میں دلہن بن کر آ گئی۔ رخصت کرتے وقت ماں نے بہت کچھ سمجھایا تھا لیکن اس نے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا۔ شادی کے کچھ دن سگنوں میں کٹ گئے اور پھر کل کل کا آغاز ہو گیا۔ لاڈو کے بھائی جگے تھے‘ انہوں نے باؤ جو شریف آدمی تھا‘ کو گز کی طرح سیدھا کر دیا۔ اس کے لیے درگزر اور گزارے کا دور شروع ہو گیا۔ کما کر لاتا‘ نخرے برداشت کرتا‘ اس کے باوجود اس کی کڑوی کسیلی باتیں سنتا۔ کیا کرتا‘ درگزر کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ باقی نہ رہا تھا۔ اوپر تلے تین بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہو گئیں۔ اولاد کا پیار انسان کو سب کچھ سہنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ سوائے چھوٹی بیٹی کے‘ باقی سب ماں کے قدموں پر تھے۔ ماں اور دوسرے بہن بھائی اسے پیو دی چمچی کہہ کر پکارتے۔ وہ بھی اپنے باپ کی طرح صابر لڑکی تھی۔ ان سب کی پرواہ کیے بغیر باپ سے پوری طرح اٹیچ رہی۔ باپ جب گھر آتا تو اس کے لیے ناشتے پانی کا پوری توجہ سے بندوبست کرتی۔

بڑھاپا آ گیا لیکن لاڈو کی وہ ہی عادتیں رہیں حالاں کہ اس کی ان غیر میچور باتوں کے سبب اس کے بہن بھائیوں نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ باؤ پہلے سالے اور سالی کے ہاتھوں مجبور تھا اور اب اولاد کے ہاتھوں مجبور ہو گیا۔ لاڈو کا پورا جثہ چبوں سے بھر گیا تھا لیکن حرکتیں وہ ہی پہلے کی سی رہیں۔

جب کبھی دونوں میاں بیوی بازار جاتے‘ باؤ کی جیب کا خیال کیے بغیر کسی ناکسی دوکان میں گھس جاتی۔ اس روز جب بازار جانے لگے تو اس نے گھر کے دروازے کی دہلیز پار کرنے سے پہلے ہی‘ لاڈو کا بڑے پیار سے ہاتھ پکڑ لیا جیسے نوبہاتا جوڑا گھر سے باہر جا رہا ہو۔ جعلی مسکان کے ساتھ اس کی طرف دیکھا۔ وہ بھی برا منائے بغیر کھل گئی۔

چھوٹی نے یہ رومانی انداز‘ جو پہلی بار وجود پکڑا تھا‘ دیکھ لیا۔ جو لینا تھا جب لے کر گھر آ گںے تو چھوٹی نے بڑی راز داری اپنے ابا سے ہاتھ پکڑنے اور مسکرانے کا راز پوچھ ہی لیا۔ وہ ہنس پڑا اور بڑی آہستہ آواز میں کہنے لگا: یہ جعل سازی نہ کرتا تو اور کیا کرتا‘ جیب دیکھے بغیر‘ ہر دوکان میں گھس جاتی ہے اور بچوں کی طرح ضد کرنے لگتی ہے۔ اپنے ابا کی بات پر وہ ہنس پڑی اس کی یہ ہنسی اس گھر کی پہلی ہنسی تھی۔ اس کے بعد چھوٹی بھی اپنے ابا سے اسی طور کا تعاون کرنے لگی۔ چھوٹی کے اس تعاون کے باعث اس گھر میں خانگی آسودگی کا دور شروع ہو گیا۔

فانی مقصو حسنی
About the Author: فانی مقصو حسنی Read More Articles by فانی مقصو حسنی: 184 Articles with 192367 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.