حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم کے بزرگ صحابی، دین کی خاطر سب سے زیادہ تکلیفیں اٹھانے والے،
مہاجرین حبشہ میں سے تھے، دو قبلوں کی طرف نماز پڑھنے والے اور جنگ بدر و
حنین اور دیگر غزوات میں شریک ہونے والے، آپ کے والد جناب یاسر ابتدائی
زمانے میں اسلام قبول کرنے والے اور آپ کی والدہ جناب سمیہ اسلام کی پہلی
شہید خاتون تھیں، کفار ِ قریش جناب یاسر، جناب سمیہ ان کے بیٹے عمار
وعبداللہ کو حضرت بلال، حضرت خباب اور حضرت صہیب کے ہمراہ پکڑے لیتے اور
انہیں لوہے کی زرہیں پہنا کر صحرائے مکہ میں دھوپ میں کھڑا کردیتے تھے، جب
سورج اور لوہے کی تمازت کی وجہ سے ان کی قوت برداشت ختم ہوجاتی تو ان سے
کہتے اگر آسودگی چاہتے ہو تو کلماتِ کفر کہو اور نعوذ باللہ نبی اکرم صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کا انکار کرو۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس خاندان کے بارے میں کہتے: خدایا!
آلِ یاسر کو بخش دے اور تو نے تو بخش بھی دیا ہے، مشرکین قریش نے جناب عمار
یاسر کو آگ میں بھی پھینک دیا تھا لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
کی دعا کی بدولت آگ نے انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچائی۔
ہجرت مدینہ کے بعد مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت عمار کا باقی لوگوں کی نسبت
دگنے پتھر اٹھانا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ان کی شان میں
ارشاد تاریخ میں عیاں ہے۔
صحیح بخاری کے مطابق عمار دگنے پتھر اٹھاتے تھے تاکہ ایک حصہ اپنا اور
دوسرا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہو، آنحضرت صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم ان کے چہرے سے گرد صاف کرتے شاباش دیتے اور ٹھنڈی آہ بھر کر
فرماتے: آہ عمار! تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اکثر یہ فرمایا کرتے تھے کہ
:عمار حق کے ساتھ ہے اور حق عمار کے ساتھ ہے، عمار خواہ جہاں بھی ہو،عمار
مومن کامل ہے۔
9صفر 37ہجری نوے سال کی عمر میں جنگ صفین کے دوران حضرت علی علیہ السلام کی
رکاب میں جنگ کرتے ہوئے جناب عمار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شہید ہوگئے۔ حضرت
امیرالمومنین علیہ السلام نے آپ کی نماز جنازہ پڑھی اور اپنے دستِ مبارک سے
انہیں دفن کیا، آپ کی شہادت کے وقت حضرت علی علیہ السلام نے کلمہ استرجاع
''انا للہ و انا الیہ راجعون'' زبان پر جاری کیا اور فرمایا: جو شخص عمار
کی شہادت پر غمزدہ نہ ہو اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔ جب کبھی میں حضرت
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہاں تین
افراد دیکھے تو اُن میں چوتھے عمار ہوتے تھے اور اگر پانچ اشخاص دیکھے تو
ان میں چھٹے عمار ہوتے تھے۔ عمار پر ایک مرتبہ جنت واجب نہیں ہوئی بلکہ کئی
مرتبہ وہ اس کے مستحق قرار پائے۔ |