نئے ڈیمز کی تعمیر کے خلاف ملک دشمن عناصر سرگرم کیوں ۔؟؟

پانی کا مسئلہ پاکستان سمیت دیگرممالک میں پیش آنے کی پیش گوئی ہے ،جس پر متعلق ممالک کے سربراہان نے پانی کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے سر جوڑ لئے ہیں کیوں کہ پانی کا مسئلہ کسی بھی جنگ سے زیادہ خطر ناک ثابت ہوگا ۔اگر بات کی جائے پاکستا ن اور بھارت کی تو یہ دونوں ممالک بحران میں سرفہرست ہیں ، پاکستان میں جب سے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ’’ڈیمز‘‘ بنانے کیلئے اقدامات اٹھائے ہیں قوم نے ان کے احسن اقدام کو سراہاتے ہوئے ’’ڈیمز فنڈز‘‘ میں حصہ ڈالنا شروع کردیااس عمل میں اس وقت بہت تیزی آئی جب وزیر اعظم عمران خان نے ڈیمز بنانے کے لئے پاکستانی قوم سے اپیل کی ۔ دنیا بھر سے پاکستانی نے اس عمل کی حمایت کی ہے اور حصہ ڈالنا شروع کردیا ہے ۔ لیکن چند سوافراد اس مہم کے مخالف ہیں جس میں سابق حکمران ، موجود اپوزیشن اراکین بھی شامل ہیں ۔خبر یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے قوم منصوبوں کے مخالفین سے نمٹنے کے لئے وزراء کو میڈیا ٹاک شوز پربحرانوں کے ذمہ داروں کو بے نقاب کرنے کی ہدایت کردی ہے۔

دوسری جانب پاکستان کی نئی حکومت تحریک انصاف کی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے بھارت کے حکمرانوں نے بھی بہت سی اپنی پالیسیوں میں تبدیلی شروع کردی ہے ، میڈیا رپورٹس سے معلوم ہو ا ہے کہ سب سے پہلے بھارتی حکومت نے فوج کی کارکردگی سے نالاں ہوکر ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کو فارغ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔رواں سال سے اس پر عمل درآمد بھی شروع کردیا جائے گا ،دوسرااقدام یہ بھی ہے ۔ قیام پاکستان سے لیکر اب تک جو پاکستان مخالف مہم میں رقم استعمال کی گئی ہے ، وہ پوری دنیا کے سامنے رکھنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے جو چند دنوں تک منظر عام پر لائے جانے کا امکان ہے ۔غیرملکی میڈیا کے نمائندوں کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا جارہے کہ بھارتی حکومت کے دوسرے اقدام سے پاکستان سمیت کئی قریبی ممالک میں ایک پھر ’’پاناما لیکس‘‘ طر ح کی ہلچل پیداہوسکتی ہے ۔

کیونکہ پاکستان میں عذاب الٰہی کی صورت میں آنیوالے سیلابوں نے سرکاری ونجی املاک اور انسانی جانوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیتے ہیں۔ہرسال ملک بھر میں کشمیر‘ وادی نیلم‘ گلگت بلتستان‘ خیبر پی کے‘پنجاب اور سندھ کے نقصانات کا تخمینہ 800 ارب سے زیادہ ہے۔ ان میں اربوں روپے کی ذاتی زمینیں‘ مکانات‘ کاروبار‘ کھیت‘ فصلیں‘ بازار‘ ہوٹل‘ پلازے‘ مال تجارت‘ مویشی اور گودام شامل ہیں۔

بھارتی حکومت ہرسال ’’ڈیمز‘‘ کی مخالفت کے لئے اربوں روپے پاکستان کے خلاف خرچ کرتی ہے ۔لیکن اب صورت حال کافی تبدیل ہوچکی ہے کیو نکہ بھارت میں جنرل الیکشن کی آمد ہے اور مودی سرکارکو بھارت سمیت دنیا بھر میں ایک مضبوظ بیانیے کی ضرورت ہے ۔ جس کے پیش نظر بھارتی ماہرین کی حکومت کو آراء ہے کہ وہ پاکستان مخالف حصہ لینے والے دوستوں جن پر اربوں روپے سالانہ خرچ کیا جاتے ہیں ان پر دباؤڈالے اگر بات نہیں مانتے تو ان لوگوں کے نام پوری دنیا میں بے نقاب کردیں۔ غیرملکی میڈیا کے نمائندوں کی جانب سے دعویٰ مزید یہ بھی کہا جارہاہے کہ ’’ڈیمز‘‘ مخالف مہم میں پاکستان کے کئی اہم سیاستدانوں اور سابق وزراء کے نام بھی منظر عام پر آسکتے ہیں اور یہ رپورٹ تمام ثبوتوں کے سامنے منظر عام پر لانے کیلئے ایک ٹاسک فورس خفیہ طور پر کام کرنے میں مصروف ہے ۔ جس سے دونوں ممالک کے عوام کو اپنے دشمنوں کا پتہ چل سکے گا ۔ اس سلسلے میں ’’ اخبارات ، ٹی وی چینل یا فلم انڈسٹری ‘‘ کے لوگوں کو بھی شامل کیا جائے گا ۔

امیدکی جارہی ہے کہ بھارت نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر رکوانے کیلئے سندھ اور سرحد میں گزشتہ 20 سال سے اربوں روپے کی تقسیم سے اپنے ایجنٹ تیار کئے اور کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی تحریکیں‘ مظاہرے‘ سیاسی جلسے‘ ریلیاں‘ اخباری بیانات‘ سیمیناروں کا انعقاد کرایا! آج اگر کالا باغ ڈیم ہوتا تو ملک میں بجلی کا بحران نہ ہوتا نہ مہنگی بجلی 6 سے 12 روپے یونٹ ہوتی نہ مہنگائی کا طوفان اٹھتا‘ نہ مزدور بجلی نہ آنے سے فیکٹریوں سے نکالے جاتے نہ کاروبار دکانیں 8 بجے بند کرنا پڑتیں‘ نہ امپورٹ‘ ایکسپورٹ کا کاروبار متاثر ہوتا نہ قومی ترقی رکتی نہ غریب اتنے بڑے پیمانے پر پانی کے ریلوں سے تباہ ہوتے!! چھوٹے ڈیم بھی کشمیر‘ خیبر پی کے‘ بلوچستان کی رود کوہیوں پر تعمیر نہ کرنا قومی جرم ہے۔کا جواب جلد پاکستانی قوم کو مل جائے گا ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پانی کا مسئلہ عالمی جنگ سے بھی زیادہ نقصان دے ہے ڈیمز مخالفین کے تمام بیانات ، افوائیں بے بنیاد ہیں ، ملک عناصر صرف اور صرف اپنی ذات کے لئے لوگوں گمراہ کررہے ہیں ۔ہمیں اپنی نئی نسل کے لئے پانی کے مسئلہ میں حکومت اور عدلیہ کا بھر پور ساتھ دینا ہوگا ۔ تاکہ پانی بحران پیداہونے سے پہلے تمام انتظامات مکمل کرلئے جائے ورنہ آنے والی نسل ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 15 Articles with 12592 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.