صہیونیوں کاساری دنیاپرحکومت کاخواب کسی سے ڈھکاچھپانہیں
اورکئی یہودی مذہبی اورسیاسی رہنماؤں کی طرف سے کئی ایک پلان میڈیاکی بھی
زینت بن چکے ہیں، بالخصوص ٹرمپ کی طرف سے بیت المقدس یروشلم میں امریکی
سفارتخانے کومنتقل کرنے کے بعدموجودہ اسرائیل نے ایک اوراہم قدم یہ بھی
اٹھایاکہ اس نے اسرائیل کوایک ایسی یہودی ریاست بنانے کااعلان بھی کردیاہے
کہ یہ اپنے تمام وسائل سے دنیابھرکے یہودیوں کے حقوق کی حفاظت کی بی ذمہ
دارہوگی۔یہی وجہ ہے کہ ان دنوں اگرچہ مسلمانوں کوآخری حد تک زک پہنچانے
کیلئے یہودیوں نے ہندوؤں کوبھی آلۂ کاربنانے کی سازشوں پر عملدرآمدشروع
کردیاہے اورمقبوضہ کشمیرمیں اسرائیل ہی کی طرح ہندوؤں کی آبادی بڑھانے اور
اسے بھارت میں ضم کرنے پرعمل پیراہے مگرخود بھارت میں سیاست،معاشرت
اورصحافت میں بھی اس قسم کے اہل فکرونظراٹھ کھڑے ہوئے ہیں جوبھارت کے عوام
کوبھی یہودیوں کے عزائم سے باخبرکررہے ہیں۔بھارتی اخبار روزنامہ آزادمیں"ون
ورلڈگورنمنٹ''کے عنوان سے اصل صہیونی عزائم پرروشنی ڈالتے ہوئے ایک آرٹیکل
شائع کیاگیاہے جومذکورہ نقطہ ٔنظرکی عکاسی کررہاہے۔دانشورصحافی اللہ بخش
فریدی امن وسلامتی کے داعی اسلام اوراہل اسلام کے خلاف اکیسویں صدی کے
آغازہی سے جارحیت کا طویل ترین پس منظربیان کرنے کے بعدموجودہ دہشتگردی
اورمتوقع بربریت کی دیرینہ منصوبہ بندی کی جھلکیاں دکھانے کے ضمن میں لکھتے
ہیں:
فری میسن اورایلیومینٹیس یہ دویہودیوں کی انتہائی خفیہ اورطاقتورتنظیمیں
ہیں جوشیطانی منصوبے ون ورلڈگورنمنٹ نامی عالمی اقتدارکے حصول کے منصوبے کے
پس پردہ کام کررہی ہیں اوراقوام متحدہ کی نکیل ان کے خفیہ ہاتھوں میں
ہے۔1770ء میں اس شیطانی منصوبے (عالمی اقتدارتک رسائی حاصل کرنے کیلئے
مندرجہ بالاپروٹوکولز)کودورِ جدیدکی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے کافریضہ ''روحانیت
کی روشنی''ایلیومینٹیس نامی تحریک کے بانی نادیدہ قوت کے ترجمان فرنٹ مین
ویشیاپٹ کے سپردہوا۔ویشاپٹ ایک مسیحی ماہر قانون تھا جوجرمن کی گولڈ
اسٹڈیونیورسٹی میں قانون کاپروفیسراورایک کیتھولک پادری بھی تھا۔انسان دشمن
نظریات اورشرانگیزکاروائیوں کی وجہ سے اسے چرچ سے نکال دیاگیاتھا۔ بعدازاں
اس نے مسیحت چھوڑ کر ابلیسی فلسفۂ یہودیت کو اپنالیاتھا،یہودنے اس کے ذمے
یہ کام لگایاتھاکہ وہ صدیوں پرانے پروٹوکولزکے نئے دورکے تقاضوں سے ہم آہنگ
کرے تاکہ عالمی اقتدارتک رسائی سہل ہوسکے۔
ویشاپٹ نے اس کام کوایک معروف جرمن یہودی سنارروتھ شیلڈکی معاونت سے 1776ء
میں مکمل کرلیا۔ویشاپٹ کی خفیہ تنظیم ایلیومینٹیس یعنی ''داعیان روحانیت
یاروحانیت کی روشنی جو 1760ء میں قائم ہوئی اور1776ء میں عالمی منظرپراس
وقت ابھرکرسامنے آئی جب یہ شیطانی منصوبہ پایہ تکمیل کوپہنچا۔اس تنظیم
کابنیادی ایجنڈابھی صہیونیت کے شیطانی منصوبہ کی تکمیل تھا۔عبداللہ بن
سبااورحسن بن سبا(لعنتہ اللہ علیہ) یہودی کے فکروعمل کاتسلسل تھی جوانہوں
نے خلافتِ راشدہ کے عظیم فطری نظام حکومت کے خلاف شروع کی تھی۔اس
دہشتگردتنظیم نے پوری دنیامیں صرف ایک حکمران کے کنٹرول کی بڑے سائنسی
اندازمیں منصوبہ بندی کی۔یہ خالصتاً شیطانی منصوبہ تھاجس کے تحت ایساانقلاب
لانامقصودتھاجس میں ابلیسی فلسفہ عالمگرسطح پرتمام اقدارکوبہالے
جائیاورتمام مذاہب اورحکومتیں تہہ وبالاہونے کے بعدیہودکے عالمی
اقتدارکوخواب شرمندہ ٔتعبیرہوسکے
1840ءمیں روحانیت کے ان داعیوں،روحانیت کی روشنی بکھیرنے والوں نے جنرل
البرٹ پائیک کواپنے شکنجے میں پھنسالیااوراسے اپنے مذکورہ شیطانی منصوبے
صرف ایک حکمران کے کنٹرول کے کام کوبتدریج آگے بڑھانے اوراسے عملی جامہ
پہنانے کی ذمہ داری سونپی۔جنرل البرٹ پائیک نے 1859ء سے 1871ء کے دوران
مکمل عرق ریزی اوریکسو ئی سے اس منصوبے کوعملی شکل دی اورعالمی سطح پرتین
بڑے انقلاب اورتین بڑی جنگوں کی منصوبہ بندی کی نشاندہی کی۔جنگوں کوانگیخت
کرنے والے عوامل کی جزئیات طے کیں پہلی ،دوسری اورتیسری جنگ عظیم کے فریقین
طے کیے اوریہ بھی طے کیاکہ کس جنگ میں کس فریق کوکن ذرائع سے شکست
دیکرکیانتائج حاصل کرنے ہیں۔پہلی اوردوسری جنگ عظیم کے واقعات اوران کے پس
پردۂ یہودکے مقاصداوراثرات کو دنیا کاہرباشعورشخص دیکھ چکاہے۔
جنرل البرٹ پائیک نے دوسری عالمی جنگ کے جومناظراورمقاصدطے کیے تھے،وہ یہ
ہیں:
1۔دوسری جنگ ہوگی جس میں برطانیہ یقیناًحصہ لے گا۔
2۔برطانوی شاہی خانوادہ صہیونیت کاسرپرست ہوگا۔
3۔ترکی کوہرحال میں برطانیہ کے خلاد صف آرأ کیا جائے گا
4۔ترکی کوہرحال میں شکست دی جائے گی کیونکہ اس نے ارضِ فلسطین میں یہود
کواراضی فروخت کرنے سے انکارکیاکہ وہ وہاں آبادہوتے۔
5۔جہاں تک ممکن ہوسکے غیریہودکوایسی جنگوں میں الجھاناہے جس سے انہیں کسی
کسی علاقے پرمستقل قبضہ نصیب نہ ہوبلکہ جوجنگ کے نتیجے میں معاشی تباہی
اوربدحالی کاشکارہوں اورپہلے سے تاک میں بیٹھے ہوئے ہمارے مالیاتی ادارے
انہیں امدادفراہم کریں گے۔اس ط رح ہماری بے شمارنگراں آنکھیں ان پرمسلط
ہوکر ہماری ناگزیرضروریات کی تکمیل کریں گی۔خواہ ان کے اپنے اقدامات کچھ
بھی ہوں اس کے ردّ ِعمل میں ہمارے بین الاقوامی حقوق ان کے قومی حقوق
کوبہالے جائیں گے۔اس طرح ہمارے حقوق اس انداز میں ان پر لاگوہوجائیں گے جس
طرح کبھی ان کی اپنی حکومت ان سے مطالبہ کرتی تھی۔(تاریخ اس بات کی شہادت
دیتی ہے کہ یوں ہی ہواکہ پہلی اوردوسری جنگ عظیم میں اہل یورپ نے بے شمار
ایشیائی وافریقی ریاستوں پرقبضہ کیامگروہ کسی پراپنامستقل قبضہ برقرارنہ
رکھ سکے اورپھریہودکے مالیاتی ادارے تعمیر نوکے خوبصورت نام سے ان علاقوں
میں داخل ہوئے اورسودی قرض کی امدادسے سب کویرغمال بناتے چلے گئے ۔دوسری
جنگ عظیم سے لیکرآج تک جتنی جنگیں ہوئیں ان کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ان
میں یوں بھی ہواکہ ادھرجنگ ہورہی تھی اورادھرجنگ کروانے والے یہوداوریہودکی
لونڈی اقوام متحدہ اوراس کے مالیاتی اداروں ورلڈبینک،آئی ایم ایف وغیرہ میں
اس کی تعمیرنوکی باتیں ہو رہی تھیں۔ابھی حال ہی میں افغانستان اورعراقکی
مثالیں پیش نظررکھیں کہ ادھرجنگ جاری تھی اورادھرجنگ مسلط کرنے والے
امریکااوریواین اومیں تعمیرنوکی باتیں ہورہی تھیں یہاں یہ سوال پیداہوتاہے
کہ کیاکوئی اپنے دشمن کونقصان پہنچاکراس کی عمارت کوگراکردوبارہ اس کو اپنے
قدموں پرکھڑاکرنے کی بات کرتاہے؟ہرگزنہیں۔اس سے ظاہرہوتاہے کہ یہ لوگ ایک
سوچے سمجھے منصوبے پرعمل پیراہیں جس کامقصدعالمی اقتدارکاحصول ہے۔
6۔لیگ آف نیشنزتشکیل دی جائے گی۔لیگ آف نیشنزکابعدازاں نام تبدیل کرکے
یواین اورکھاگیا،اس کے مقاصداوراس کے عزائم کیاہیں، ہر باشعورشخص جانتاہے
کہ یہ یہود کے صدیوں پرانے منصوبے عالمی اقتدارکوعملی جامہ پہنانے
اوردنیاکے تمام مذاہب اورحکومتوں کوتہہ وبالاکرنے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔اس
پس منظرمیں اقوام متحدہ پر یہودیوں کے تسلط کااندازہ اس بات سے
لگایاجاسکتاہے کہ اقوام متحدہ کے اس انتہائی اہم اداروں میں ان کے اہم ترین
عہدوں پر73یہودی فائزہیں۔اقوام متحدہ کے صرف نیویارک کے دفترمیں22شعبوں کے
سربراہ یہودی ہیں اوریہ انتہائی حساس شعبے ہیں جواس بین الاقوامی تنظیم کی
پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔
یونیسکومیں9شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں۔آئی ایل اورکی تین شاخیں تومکمل
طورپریہودی حکام کی تحویل میں ہیں۔ایف اے اوکے گیارہ شعبوں کی سربراہی
یہودیوں کے پاس ہے ۔عالمی بینک میں 6اورانٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم
ایف)میں9شعبوں کے سربراہ وہ لوگ ہیں جن کاتعلق یہودیوں کی عالمی تنظیم فری
میسن سے ہے۔یہ تمام عہدے یہودیوں کے پاس ہیں۔انتہائی اہم اور حساس ہیں
اوریہ لوگ ان کے ذریعے تمام بین الاقوامی امورپراثراندازہورہے ہیں،اس کے
علاوہ بے شماریہودی اور ان کے گماشتے ہرہر شعبے میں موجودہیں۔ذرااندازہ
لگائیں کہ اگریہ افراد کسی مرکزی تنظیم کے زیراثرکام کررہے ہوں تووہ عالمی
سیاسیات،معاشیات اورمالیات کارخ جس سمت چاہیں موڑسکتے ہیں اوربعینیہ یہی
وہی کام ہے جووہ انجام دے رہے ہیں۔ |