ھم کس طرف جا رھے ھیں ۔۔۔

ھم کیا کر رہے ہیں اور کس طرف جا رھے ھیں ۔۔۔

دنیا میں جس قوم نے بھی ترقی کی اس نے اپنی زبان میں ھی ترقی کی اور اپنی ثقافت کو ھی عر وج بخشا لیکن ھم کو پتہ نہیں کیا ھو گیا ھے نہ صرف اپنی قومی زبان کو بھولتے جا رھے ھیں بلکہ اپنی ثقافت بھی ختم کرتے جا رھے ھیں ۔۔

یہ ہماری پیدائش سے بہت پہلے کی بات ہے جب مدرسہ کو اسکول بنا دیا گیا تھا، لیکن انگریزی زبان کی اصطلاحات دورانِ تعلیم استعمال نہیں ہوتی تھیں۔

صرف چند انگریزی کے الفاظ مستعمل تھے، مثلا"
ہیڈ ماسٹر،
فِیس،
فیل،
پاس اور جمعرات کو لاسٹ ورکنگ ڈے (کیونکہ اُن دِنوں اتوار کی بجائے جمعہ کے دن سرکاری چھٹی ہوتی تھی)
کہا جاتا تھا اس دن آدھی چھٹی یعنی ہاف ڈے ہوتا تھا۔

انگلش میڈیم اسکول میں پیپر اور سرکاری سکول میں پرچہ کہا جاتا تھا
پھر استاد کو سر کہا جانے لگا-
سارے اساتذہ ٹیچرز بن گئے۔
پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو زوال شروع ہوا وہ اب تک جاری ہے۔

اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت،
کلاس میں تبدیل ہوگئی-
اور جو ہم جماعت تھے وہ کب کلاس فیلوز بن گئے۔

ہمیں بخوبی یاد ہے کہ
اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم، ہفتم، ہشتم، نہم، دہم، جماعتیں ہوتی تھیں،
اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح لکھا ہوتا تھا۔
پھر ان کمروں نے کلاس روم کا لباس اوڑھ لیا-
اور فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں۔
تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے۔

گرمیوں کی چھٹیوں اور سردیوں کی چھٹیوں کی جگہ سمر ویکیشن اور وِنٹر ویکیشن آگئیں۔
چھٹیوں کا کام چھٹیوں کا کام نہ رہا بلکہ ہولیڈے ہوم ورک ہو گیا ۔

پہلے پرچے شروع ہونے کی تاریخ آتی تھی اب پیپرز کی ڈیٹ شیٹ آنے لگی۔
امتحانات کی جگہ ایگزامز ہونے لگے-
ششماہی اور سالانہ امتحانات کی جگہ مڈٹرم اور فائینل ایگزامز کی اصطلاحات آگئیں-
اب طلباء امتحان دینے کیلیے امتحانی مرکز نہیں جاتے بلکہ سٹوڈنٹس ایگزام کیلیے ایگزامینیشن سینٹر جاتے ہیں۔

قلم،
دوات،
سیاہی،
تختی، اور
سلیٹ
جیسی اشیاء گویا میوزیم میں رکھ دی گئیں ان کی جگہ لَیڈ پنسل اور بال پین آگئے-
کاپیوں پر نوٹ بکس کا قبضہ ہوگیا-

نصاب کو کورس کہا جانے لگا
اور اس کورس کی ساری کتابیں بیگ میں رکھ دی گئیں۔
ریاضی کو میتھس کہا جانے لگا۔
اسلامیات اسلامک سٹڈی بن گئی-
انگریزی کی کتاب انگلش بک بن گئی-
اسی طرح طبیعات فزکس،
معاشیات اکنامکس،
سماجی علوم سوشل سائنس میں تبدیل ہوگئیں-

پہلے طلبہ پڑھائی کرتے تھے اب اسٹوڈنٹس سٹڈی کرنے لگے۔
پہاڑے یاد کرنے والوں کی اولادیں ٹیبل یاد کرنے لگیں۔
اساتذہ کیلیے میز اور کرسیاں لگانے والے، ٹیچرز کے لیے ٹیبل اور چئیرز لگانے لگے۔

داخلوں کی بجائے ایڈمشنز ہونے لگے۔
اول، دوم، سوم اور آنے والے طلبہ فرسٹ، سیکنڈ، اور تھرڈ آنے والے سٹوڈنٹ بن گئے۔
پہلے انعام ملا کرتے تھے پھر پرائز ملنے لگے۔
بچے تالیاں پیٹنے کی جگہ چیئرز کرنے لگے۔
یہ سب کچھ سرکاری سکولوں میں ہوا ہے۔

باقی رہے پرائیویٹ سکول،
ان کا تو پوچھیے ہی مت۔
ان کاروباری مراکز کیلیے کچھ عرصہ پہلے ایک شعر کہا گیا تھا،

مکتب نہیں دکان ہے یہ خام مال کی
مقصد یہاں پہ علم نہیں روزگار ہے

اور تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رویا جائے،
ہمارے گھروں میں بھی اردو کو یتیم اولاد کی طرح ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہے۔
زنان خانہ اور مردانہ تو کب کے ختم ہو گئے۔
خواب گاہ کی البتہ موجودگی لازمی ہے تو اسے ہم نے بیڈ روم کا نام دے دیا۔

باورچی خانہ کچن بن گیا
اور اس میں پڑے برتن کراکری۔
غسل خانہ پہلے باتھ روم ہوا پھر ترقی کر کے واش روم بن گیا۔
مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے۔

پہلی منزل کو گراونڈ فلور کا نام دے دیا گیا اور دوسری منزل کو فرسٹ فلور۔
دروازہ ڈور کہلایا جانے لگا اور پہلے گھنٹی بجتی تھی اب ڈور بیل بجنے لگی۔
کمرے روم بن گئے۔
کپڑے الماری کی بجائے کیبنٹ میں رکھے جانے لگے۔

"ابو جی" یا "ابا" جیسا پیارا اور ادب سے بھرپور تخاطب دقیانوسی لگنے لگا،
اور ہر طرف پاپا، پاپا کی گردان لگ گئی حالانکہ پہلے تو پاپے صرف کھانے کے لئے ہوا کرتے تھے اور اب بھی کھائے ہی جاتے ہیں-
اسی طرح شہد کی طرح میٹھا لفظ "امی" یا امی جان "ممی" میں تبدیل ہو گیا۔

سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔
چچا چچی،
تایا تائی
ماموں ممانی،
پھوپھا پھوپو،
خالو خالہ سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ "انکل اور آنٹی" میں تبدیل ہوگئے۔
بچوں کے لیے ریڑھی والے سے لے کر سگے رشتہ دار تک سب انکل بن گئے
یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔
ساری عورتیں آنٹیاں۔ چچا زاد،
ماموں زاد،
خالہ زاد بہنیں و بھائی سب کے سب کزنس میں تبدیل ہوگئے
نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس کی۔
بس ایک نام تبدیلی کے زد سے بچ گیا،
کام کرنے والی پہلے بھی ماسی تھی اب بھی ماسی ہے۔

گھر اور سکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازار انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتا۔
دکانیں شاپس میں تبدیل ہو گئیں اور ان پر گاہکوں کی بجائے کسٹمرز آنے لگے
آخر کیوں نہ ہوتا کہ دکان دار بھی تو سیلز مین بن گئے جس کی وجہ سے لوگوں نے خریداری چھوڑ دی اور شاپنگ کرنے لگے۔
سڑکیں روڈ بن گئیں۔ کپڑے کا بازار کلاتھ مارکیٹ بن گئی
یعنی 'اس نے کس ڈھب سے مذکر کو مونث بنادیا'۔
کریانے کی دکان نے جنرل اسٹور کا روپ دھار لیا اور نائی نے باربر بن کر حمام بند کردیا ( جہاں شان سے حمام گرم ہے کی تختی آویزاں رہتی تھی) اور ہیئر کٹنگ سیلون کھول لیا۔

ایسے ماحول میں دفاتر بھلا کہاں بچتے۔
پہلے ہمارا دفتر ہوتا تھا جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ ملا کرتی تھی اب آفس بن گیا اور منتھ ٹو منتھ سیلری ملنے لگی۔ جو صاحب تھے وہ باس بن گئے۔
بابو کلرک اور چپڑاسی پِیَن بن گئے۔
پہلے دفتر کے نظام الاوقات لکھے ہوتے تھے اب آفس ٹائمنگ کا بورڈ لگ گیا-

سود جیسے قبیح فعل کو انٹرسٹ کہا جانے لگا۔ طوائفیں آرٹسٹ بن گئیں
اور محبت کو 'لَوّ' کا نام دے کر محبت کی ساری چاشنی اور تقدس ہی چھین لیا گیا۔
محبوب بوائے فرینڈ اور محبوبہ گرل فرینڈ بن گئی۔
صحافی رپورٹر بن گئے اور خبروں کی جگہ ہم نیوز سننے لگے۔

کس کس کا اور کہاں کہاں کا رونا رویا جائے۔

اردو زبان کے زوال کی صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں، عام آدمی تک نے اس میں حدالمقدور حصہ لیا ہے-

اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوبصورت زبان اردو کا حلیہ مغرب سے مرعوب ہو کر کیسے بگاڑ لیا۔
وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اور مستعمل بھی ہیں ان کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

ہم کہاں سے کہاں آگئے اورکہاں جارہے ہیں؟
دوسروں کا کیا رونا روئیں،
ہم خود ہی اس کے ذمہ دار ہیں،
دوسرا اور کون ہوسکتا ہے؟

اللہ پاک ھم پر کرم فرمائیں اور ھمیں اس راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں جس پر اللہ پاک نے انعام کیا امین ثم امین

Rizwan Iqbal ch.
About the Author: Rizwan Iqbal ch. Read More Articles by Rizwan Iqbal ch.: 12 Articles with 12032 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.