جب پہلی صدی کی ابتدا ہوئی تو یکم محرم الحرام جمعہ
کا دن تھا۔اسلامی تاریخ کا پہلا مہینہ ابتدائی ایام میں لاکھوں دکھوں کی
مالا پہنے ہوئے ہے۔خلیفہ ثانی،مسلمانوں کے عروج کے محسن ،عاشق رسول صلی اﷲ
علیہ وسلم سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی شہادت کا واقعہ یکم محرم الحرام
کو پیش آیا۔پھر اسی محرم کی دس تاریخ کو نواسہ رسول ﷺ سیدنا حسین ابن علی
رضی اﷲ عنہم اور ان کے رشتہ داروں، غلاموں کو میدانِ کربلا میں شہیدکیا
گیا۔اِس واقعہ نے تاریخ اسلامی کے ساتھ آنے والی صدیوں میں اپنے دوررس
اثرات مرتب کیے۔محرم الحرام میں پیش آنے والے واقعات حادثاتی یااتفاقی نہیں
تھے ،بل کہ ان امور کا ہونا ازل سے اٹل تھا کہ ایسا ہو کر رہے گا۔حدیث پاک
میں ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کو چوم رہے
تھے، آپ کی آنکھوں سے اشک جارہی تھے اور فرمارہے تھے کہ میرے اس بیٹے کو
میری امت کے لوگ شہید کریں گے (مسند احمد وسنن ابی داوؤد)۔ حضرت حسین ؓ کی
شہادت کی یہ پیشن گوئی61 ھ میدان کربلا میں پوری ہوئی۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس
ؓ سے روایت ہے کہ میں ایک دن دوپہر کے وقت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو خواب میں
دیکھا،آپ کے بال مبارک بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے
ہاتھ میں خون کی ایک بوتل تھی، میں نے پوچھا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں
یہ کیا ہے ؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ یہ حسین ؓ اور ان کے ساتھیوں
کا خون ہے میں صبح سے اسے اکٹھا کررہاہوں(مسند احمد(1/242۔ میدان کربلا میں
پیش آئے اس واقعے سے انسانیت کو کئی اسباق ملتے ہیں۔جناب سیدنا حسین ابن
علی ؓ کا گھراناآل اہل بیت نے اﷲ کے امتحان میں سرخروئی حاصل کی اور کامیاب
و کامران ہو کر دنیا کو پیغام صبر دیا ۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے دونوں نواسوں سے بے حد پیار کرتے تھے۔حضرت
حسن ؓ سر سے کمر تک آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مشابہ تھے اور کمر سے پاؤں تک
حضرت علی ؓ کے مشابہ تھے ۔اور حضرت حسین ؓ سر سے کمر تک والد ماجد حضرت علی
ؓ کے مشابہ تھے اور کمر سے پاؤں تک آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مشابہ تھے ۔ایک
مرتبہ آپ ﷺاپنے حجرے سے باہر تشریف لائے تو دونوں نواسۂ رسول کاندھوں پہ
سوار تھے۔عرب میں بچوں کو کاندھوں پہ بیٹھانا عیب سمجھا جاتا تھا ۔حضرت عمر
رضی اﷲ عنہ نے دیکھا تو محبت میں فرمانے لگیـ:’’ کیا سواری ہے‘‘۔آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرمایا :’’ سوار ی کو نہ دیکھو سوارکو دیکھو‘‘۔ سرورکونین ﷺ
نے تربیت حسین ؓ میں محبت کو بدرجہ اعلیٰ رکھا اسی محبت کا نتیجہ تھا کہ
میدان کربلا میں تپتی ریت پہ ،نیزوں ،تلواروں کے درمیان معرکہ حق و باطل
میں قافلہ حسین ؓ نے یزیدیت کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا اور دین حق کا
جھنڈا لہرا کر دنیا کو یہ دیکھا دیا کہ برداشت کا اس سے منفرد کوئی تاریخی
سانحہ رونما نہیں ہوسکتا ۔اس دن حسین رضی اﷲ عنہ کے صبر کے سامنے صبر کے
سارے پیمانے بہت نیچے تھے ۔کیوں کے ان پیمانوں سے حسین ؓ کے صبر کو پرکھا
نہیں جا سکتا ۔ہر طرف تلواروں ،تیروں کی بوچھاڑ تھی،پے درپے حملے ہورہے
تھے،پانی بند کردیا گیا تھا،سہولتیں راحتیں چھین لی گئی تھیں،مظالم و مصائب
کے پہاڑ گرادئے گئے تھے،گلشن نبوت کے پھولوں کو ریت میں مسلا جاتا رہا ،قافلہ
اہل بیت خیمہ سے زندوں کو بھیجتے اور لاشہ لے کر لوٹتے،ظہر تک تقریباََ 22
افراد شہید ہوچکے تھے ،نماز کا وقت ہوا تو دشمن سے کہا ہمیں نماز پڑھنے دو
،شمر بہت ظالم تھا ،کہا ہم اجازت نہیں دیں گے تمہیں حالتِ نماز میں قتل
کریں گے ۔آپؓ نے فرمایا:’’ میرے قدموں میں لرزہ طاری نہ ہوگا ‘‘۔اورپھر
حالت جنگ میں نماز ادا کرکے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ کوئی یہ نہ کہے کہ میں
تو بیمار تھا نماز نہیں پڑھ سکتاتھا،یا مجھے کوئی عذر درپیش تھا اس لئے اﷲ
کی حکم کو چھوڑ دیا۔
واقعہ کربلا کا حقیقی پس منظر اجتماعی جرات و شجاعت کا مظہر ہے ۔اس سے پہلے
جتنے واقعات رونما ہوئے وہ انفرادی تھے۔حضرت حسینؓ اور ان رفقاء کی
قربانیوں کے سامنے سابقہ تمام قربانیاں اپنا اثر کھودیتی ہیں۔یہ واقعہ جن
حالات میں ہوا ایسے حالات میں کوئی بھی واقعہ تاریخ میں آج تک رونما نہ
ہوسکا تھا ۔اس معرکے کے واحد رہنما ء حضرت حسین رضی اﷲ عنہ تھے ۔آپ کے
رفقاء میں کسی ایک نسل قبیلہ کے لوگ شامل نہ تھے ، بل کہ یہ قافلہ بین
الاقوامی حیثیت کا حامل تھا ۔ ان میں آزاد ،غلام ،عربی ،قریشی ،غیر قریشی
ہر نسل کے سرفروش وجاں باز شامل تھے ۔اور وہ سب ایک ہی مقصدکیلئے متحد تھے
۔اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے انہوں نے دین حق پہ کوئی آنچ نہ آنے دی ۔
شہیدان کربلا نے ظالموں کے ظلم سہ کرجس جواں مردی و صبر و استقامت سے دشمن
کامقابلہ کیا وہ قیامت تک آنے والے انسانوں کو صبر کا درس دیتا رہے گا ۔
|