مقام ِسیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور پیغام ِکربلا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تاریخ ِاسلا م کا اہم باب ایثار،قربانیوں اور شہادتوں سے معنون ہے،جب کہ اللہ کی وحدانیت اور نبی کریم ﷺ کی ختم نبوت پر یقین اور اقرار کرنے والے ہر مسلمان مرد و عورت کی زندگی اسی جذبہ سے عبارت ہوتی ہے،اور تکمیل ایمان کے لیے ارشاد باری تعالیٰ بھی یہی ہے "آپ کہہ دیجیئے میری نماز اور میری عبادتیں اورمیراجینا اورمیرامرناسب اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والاہے ۔(الانعام ۔162)بلاشبہ اسلام کے ابتدائی زمانہ کے مصائب وآلام سے پُراور تکلیف دہ حالات ہوں یا غزوات اور جنگوں کی تاریخ ،ہر ایک موقع پر صحابہ کرام میں فنائیت کا یہ جذبہ ہی غالب نظر آتا ہے ،"اللہ کے لیےجینے اور اللہ ہی کے لیے مرنے "کا جذبہ قرون اولیٰ میں بدرجہ اتم موجود تھا ،انہی مواقع میں سے ایک موقع معرکہ کربلا کا بھی ہے،جس کے دو پہلو مدنظر رہنے چاہیں ،اول یہ کہ جگر گوشہ بتول ،نواسہ رسول ﷺ،حیدر کراررضی اللہ عنہ کے فرزند ارجمند ،جنت کے نوجوانوں کے سردار سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا مقام و مرتبہ،اور دوم واقعہ کربلا سے اہل ایمان کو کیا پیغام اور سبق ملتا ہے؟

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ خانوادہ نبوت کے چشم و چراغ اور چمنستان ِنبوت کے چہکتے ہوئے عندلیب تھے ،رسول اللہ ﷺنے آپ کے بارے میں ارشاد فرمایا "(سیدنا) حسن وحسین ( رضی اللہ عنہما ) جنت کے نوجوانوں کے سردارہوں گے ۔(الترمذی)اسی وجہ سے آپ کا لقب "سید شباب اہل الجنۃ " اور "ریحانۃ النبی "مشہور تھا،رسول اللہ ﷺ نے آپ کانام بھی خود تجویز فرمایا اور آپ سے بے حد محبت و شفقت فرماتے تھے ،حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو حسن وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے محبت رکھے اس نے مجھ سے محبت رکھی اور جو ان سے بغض رکھے اس نے مجھ سے بغض رکھا۔(سنن ابن ماجہ)

حضرت سعید بن راشد سے مروی ہے کہ یعلی بن مرہ نے ان سے بیان کیا کہ وہ لوگ نبی ﷺ کے ساتھ ایک دعوت ِطعام کے لئے نکلے۔ حسین ؓ گلی میں کھیل رہے تھے، نبی ﷺ لوگوں سے آگے بڑھے اور اپنے ہاتھ پھیلا دئیے (حضرت حسین) ادھر ادھر بھاگنے لگے، نبی ﷺ ان کو ہنساتے رہے یہاں تک کہ ان کو پکڑ لیا آپ نے ایک ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا سر کے اوپر رکھا اور بوسہ لیا فرمایا حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں ، اللہ اس سے محبت رکھتے ہیں جو حسین سے محبت رکھتے ہیں حسین پیشانی ہیں پیشانیوں میں سے۔(سنن ابن ماجہ)آپ ﷺ روزانہ اپنے دونوں نواسوں کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے گھر دیکھنے جاتے اور ان سے پیار کرتے تھے،جب رسول اللہ ﷺ نے دنیا سے پردہ فرمایا تو اس وقت آپ کی عمر تقریباً سات برس تھی،آپ اپنے نانا کے کافی حد تک ہم شکل تھے،آپ بچپن سے ہی اصلاح و تعلیم کی طرف رجحان رکھتے تھے ،سخاوت،عبادت وریاضت اور کثرت سے روزے رکھنا آپ کا معمول تھا،حضرات شیخین رضوان اللہ علیھم اجمعین اپنے اپنے دور خلافت میں آپ پر شفقت اور آپ کی رسول اللہ ﷺ سے قرابت کا بدرجہ اولیٰ لحاظ رکھتے اور آپ کے اکرام میں کسی قسم کی کمی نہ فرماتے تھے ،حضرت امیر المومنین سیدنا عثمان کے دور خلافت میں آپ نے سن 30 ہجری میں طرستان کے جہاد میں شرکت کی جب کہ مدینہ منورہ پر بلوائیوں کے حملے کے دوران آپ رضی اللہ عنہ بیتِ امیر المومنین کی حفاظت کے لیے اپنے بھائی حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور دیگر نوجوانوں کے ساتھ ہمہ وقت موجود رہے تھے۔

واقعہ کربلا ہماری اسلامی تاریخ کا ایک تلخ باب ہے ،کہ کربلا کے میدان میں پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے لاڈلے اور چہیتے نواسے کو اسی کے ماننے والوں نے اپنے خاندان سمیت بے دردی سے شہید کردیاتھا ،یہ ایک حقیقت ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے یزید" جو کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے جانشین کے طور پرسن 60 ہجری میں خلیفہ بنا تھا "کی بیعت سے انکار کیا تو کوفہ والوں نے حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے نام ہزاروں خطوط روانہ کئے جن میں تحریر تھا "اب اس وقت ہمارا کوئی اما م نہیں ہے ،آپ تشریف لے آئیے کہ شاید اللہ آپ کے ذریعے سے ہم لوگوں کو حق پر جمع کردے ،یہاں جو اموی گورنر نعمان بن بشیر (رضی اللہ عنہ )ہیں ہم ان کے پیچھے جمعہ اور عید تک نہیں پڑھتے ،اور اگر ہمیں معلوم ہو جائے کہ آپ ادھر کے لیے روانہ ہو گئے ہیں تو ہم ان شاء اللہ ان کابستر باندھ کر شام بھیج دیں گے۔"(طبری ج6ص197)لیکن عبیداللہ بن زیادکے گورنر کوفہ بننے کے ساتھ ہی اہل کوفہ کے تیور بھی بدل گئے اور حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے نمائندہ حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو تنہا چھوڑ دیا ،جنہیں گورنر کوفہ نے شہید کروادیا تھا یاد رہے کہ کوفیوں کی بےوفائی سے قبل حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو کوفیوں کی وفا داری کا خط لکھ دیا تھا،اور حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ یہ خط موصول ہونے کےبعد اپنے اہل وعیال اور نوجوانوں سمیت کوفہ کی طرف عازم سفر ہوچکے تھے،اس موقع پرحضرت ابن عباس ،حضرت ابوسعیدخدری ،حضرت جابر بن عبداللہ ،حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنھم سمیت کبار صحابہ کرام نے کوفہ کی طرف جانے روکا مگر آپ عزم مصمم کرچکے تھے۔یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب ابن زیادکی فوج" جس کی قیادت عمرو بن سعد بن وقاص کر رہا تھا " نے آپ کا راستہ روکا تو آپ نے عمرو کے سامنے تین شرائط رکھیں ،اول یہ کہ مجھے چھوڑ دو میں جہاں سے آیا ہوں وہیں لوٹ جاؤں ،دوم یہ کہ مجھے یزید کے پاس جانے دو،سوم یہ کہ کسی سرحد کی طرف نکل جانے دو ۔عمرو نے اس پر آمادگی کا اظہار کیا مگر ابن زیاد نے ان شرائط کو مسترد کردیا اور یزید کے لیے آپ کی بیعت یا آپ کی گرفتاری سے کم کسی صورت رضا مند نہ تھا ۔(طبری) جب کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ خود یزید سے رو برو ملاقات اور گفتگو کے خواہاں تھے۔

چنانچہ 10 محرم الحرام کو میدان کربلا میں سیدناحسین رضی اللہ عنہ کی قیادت میں یہ قافلہِ حریت داستان ِعزم وشجاعت رقم کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرتا ہوا سرخرو ہو گیا جب کہ ہزاروں خط لکھنے والے کوفیوں کی تلواریں ابن زیاد کے بھیجے ہوئے لشکر کے ساتھ اہل بیت کے پاکیزہ خون سے رنگین تھیں ،جو کہ اہلبیت رسول ﷺ کے ساتھ بدترین غداری اور دھوکہ تھا ،جب کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے جس مسئلہ کو حق جانا ،کھٹن حالات کے باوجود اس پر پورے شرح صدر کے ساتھ ڈٹ گئے یہاں تک کہ اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی ۔آپ کی شہادت یہ درس دیتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہر متاع ِعزیز سے قیمتی تر شے ہے جس کے قیام کے لیے جان قربان کر دینا اصل کامیابی ہے،شہید کی موت حیاتِ جاوداں کی ابتداء ہے جس پر فخر کیا جاسکتا ہے ندامت،ماتم اور واویلا نہیں کیا جاسکتا ہے۔

Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 275734 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More