نو آبادیاتی دور میں برصغیرکے مسلمانوں کو جن صبر
آزما حالا ت کا سامنا کرنا پڑا، پروفیسر احمد سعید نے اپنی کتاب’’ حصول
پاکستان ‘‘ ان پر مفصل بحث کی ہے ۔اپنے موضوع کے اعتبار سے بر صغیر کے
مسلمانوں کی جد وجہد آزادی کے بارے میں مستند تاریخی معلومات پر مبنی قابل
مطالعہ بنیادی مآخذ سے مزین یہ ایک ایسی حوالہ جاتی تاریخی کتاب ہے جسے ہر
عہد کا مورخ قدر کی نگاہ سے دیکھے گا اور علمی و ادبی حلقوں میں اسے سر آ
نکھوں پرجگہ دی جائے گی ۔ اس کتاب کے مطالعہ سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی
ہے کہ نوجوان نسل کو اقتضائے وقت کے مطابق اپنی قومی تاریخ کے نشیب و فراز
پر نظررکھنی چاہیے ۔ ایک گونہ بے خودی کی جستجو میں وادیٔ خیال میں مستانہ
وار گھومنے والوں کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ایام ِ گزشتہ کی
کتاب کے اوراق کا مطالعہ بھی ذوقِ سلیم کو مہمیز کرتا ہے اوراس معدن میں
تاریخ کے بیش بہا جو زر و جواہر پنہاں ہیں انھیں نظر انداز کرنا ایک مہلک
غلطی کے مترادف ہے ۔ پروفیسر احمد سعید نے واضح کیا ہے کہ تاریخ صداقتوں کی
امین ہوتی ہے اور صداقتوں کا دامن تھام کر منزلوں کی جانب رواں دواں رہنا
زندہ اقوام کا شیوہ ہوتاہے ۔ آزادی کے استحکام ، قومی کردار کی تشکیل اور
قومی تشخص کی خاطرتاریخی حقائق سے آ گہی اور ان کا تحفظ وقت کا اہم ترین
تقاضا ہے ۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ تاریخی صداقتوں کی تکذیب
اور تاریخی واقعات کی تمسیخ سے زندگی کی اقدارِ عالیہ ،درخشا ں روایات اور
اخلاقیات کا پُورا منظر نامہ گہنا جاتا ہے ۔مورخ نے اپنی اس کتاب میں تحریک
پاکستان سے وابستہ حقائق کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ اس سے نہ صرف حریتِ
فکر و عمل کے جذبات کو مہمیز کرنے کی سعی کی گئی ہے بل کہ فلسفۂ حیات کے
بارے میں بھی مثبت شعور و آگہی بیدار کرنے میں مدد ملی ہے ۔ہر دور میں
نابغہ ٔ روزگار ہستیوں نے اپنے جرأت مندانہ کردار ،شخصی وقار ،انسانیت کی
فلاح اور سربلندی کی خاطر کیے جانے والے افعال اور اعمال سے تاریخ کا رخ
بدلنے کی مقدور بھر کوشش کی ۔سمے کے سم کا ثمر بھی انھیں یاس و ہراس کا
شکار نہ کر سکا اور جریدۂ عالم پر ان کا دوام ثبت ہو گیا ۔ مصنف کو اس بات
کا شدت سے احسا س ہے کہ قحط الرجال کے موجودہ دور میں معاشرتی زندگی کے
تضادات اور بے ہنگم ارتعاشات نے زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی ہیں ۔
ماہرین عمرانیات کی رائے ہے کہ ہماری سماجی زندگی کی محرومی یہ ہے کہ بے
لوث محبت ،سپاس گزاری ،بے باک صداقت ،حریتِ ضمیر سے جینے کی روش اور احتسابِ
ذات کا عنصر اب رفتہ رفتہ عنقا ہونے لگا ہے ۔اس مسموم ماحول میں نمود و
نمائش ،تکلف کی روادای اور تصنع کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث موقع پرستی ،
منافقت اور دروغ کو فروغ ملا ہے ۔
ایک قابل مورخ کی حیثیت سے پروفیسر احمد سعید نے واضح کیا ہے کہ مغربی یورپ
میں ترکی النسل سلطنت عثمانیہ ( 1299-1922)کے خاتمے کے بعد پاکستان دنیا کی
سب سے بڑی آزاد اسلامی مملکت بن کر دنیا کے نقشے پر اُبھرا ۔تین سو بانوے
(392)صفحات پر مشتمل اس کتاب کی ثقاہت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا
ہے کہ اس میں فاضل مورخ نے تاریخ کے جن اہم بنیادی ماخذ سے استفادہ کیا ہے
ان میں ایک سوچھہتر ( 176)اردو مآخذ ،اٹھاسی (88)انگلش مآخذ اور بر صغیر کے
پانچ (5) ممتا زاخبارا ت ( روزنامہ انقلاب ،لاہور ، روزنامہنوائے وقت ،لاہور
، روزنامہ رنجیت ،لاہور،ہفت روزہ زندگی ،لاہور اور ہفت روزہ اخبارِ جہاں ،کراچی
) شامل ہیں ۔ تقسیم ہند کے وقت برطانوی استعمار کے مکر کی چالوں سے تحریکِ
پاکستان کو نا قابل تلافی نقصا ن پہنچا اور بر صغیر کے مسلمانوں کو آزادی
کے ثمرات سے محروم کرنے کی مذموم موششیں کی گئیں ۔ ہماری قومی تاریخ کا
مطالعہ ایک ایسے درد کا مظہر ہے جسے جس پہلو سے بھی پلٹا جائے درد ہی سامنے
آتاہے ۔سازشو ں کا جو سلسلہ حیدر آباد دکن سے شروع ہوا اُس کے نتیجے میں نہ
صرف اس ریاست میں مسلمانوں کا ساڑھے چھے سو سالہ اقتدار ختم ہوا بل کہ نو
آزاد مملکتوں کی سرحدوں کے تعین کا نقشہ ہی بدل گیا ۔ ریاست حیدر آباد دکن
میں مسلمانوں کی آبادی گیارہ فی صد اور ہندو پچاسی فی صد تھے ۔ ریاست حیدر
آباد کی سالانہ آمدنی نو کروڑ روپے تھی اس لیے طالع آزما اور مہم جُو
بھارتی سیاست دانوں نے سونے کی اس چڑیا کو زیرِ دام لانے کی ٹھان لی۔ اس
ریاست کے آخری حاکم نے بھار ت کے ساتھ الحاق کے بجائے برطانوی دولتِ مشترکہ
کے اندر رہتے ہوئے اپنی آزاد ا ور خود مختار حیثیت بر قرار رکنے کی خواہش
کا اظہا رکیا تو بھارتی مسلح افواج نے جورو ستم کا ایک بھیانک باب رقم کیا
اور آپریشن پولو شروع کر کے مسلمانوں کی متمول ریاست پر دھاوا بو ل دیا اور
مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی ۔ اس بھارتی چنگیزیت کے نتیجے میں چالیس
ہزار بے گناہ مسلمان لقمۂ اجل بن گئے ۔ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ آبادی اور دو
لاکھ چودہ ہزار مربع کلو میٹر رقبے کی مسلمانوں کی اس خود کفیل اور خوش حال
ریاست کی باگ ڈور میر عثمان علی خان( B:6-4-1887,D: 24-2-1967) کے ہاتھ میں
تھی جس کا شمار اپنے عہد حکومت ( 1911-1948) میں دنیاکے امیر ترین افراد
میں ہوتا تھا۔ ریاست حیدرا ٓباد ( دکن) کو بجلی ،طبی سہولیات ،تعلیم اور
مواصلات جیسے اہم شعبوں میں عہدِ جدید میں داخل کرنے والا میر عثمان علی
حیدر آبا دکی مسجد جودی کے احاطے میں ایک مقبرے میں آسودۂ خاک ہے ۔ ریڈکلف
ایوارڈ کے بعد سرحدوں کی جو صور ت سامنے آئی اس کے نتیجے میں طلوعِ صبحِ
بہاراں کے خواب کی متوقع تعبیر اس خطے کے مسلمانوں کو نہ مل سکی۔تاریخ اور
اس کے پیہم رواں عمل کو نظر انداز کرنے والی اقوام جس مجرمانہ غفلت کی
مرتکب ہوتی ہیں اس کے نتیجے میں وہ مکمل انہدام کے قریب پہنچ جاتی ہیں اور
ان کا جغرافیہ ہی بدل جاتا ہے ۔یہ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کا شعور ہی ہے
جو رہ نوردِ شوق کو پریشا ں حالی اور درماندگی کے عالم میں تھام لیتا ہے یہ
واضح کر دیتا ہے کہ حیاتِ جاوداں کا راز تو ستیز ہی میں پنہاں ہے ۔نجاتِ
دیدہ و دِل کی ساعت دیکھنے کی منتظر نگاہو ں کو تاریخ بتاتی ہے کہ ماضی کے
تجربات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے سرابوں سے بچتے ہوئے پور ی قوت کے ساتھ
روشنی کا سفر جاری رکھا جائے۔تاریخ کی فراہم کردہ آ گہی کے معجز نما اثر سے
جب اولوالعزم افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر آ تی ہے تو وہ ایک نئی
تاریخ زیبِ قرطاس کرتے ہیں ۔قوموں کے عروج اورروشن مستقبل کے سب منصوبوں کے
سوتے تاریخ ہی سے پھوٹتے ہیں ۔
یہ کتاب مغلیہ خاندان کے زوال یعنی بر صغیر کی ناکام جنگ آزادی ( 1857)کے
واقعات سے شرو ع ہوتی ہے اور قیام پاکستان تک کے واقعات کو اس میں شامل کیا
گیا ہے ۔مصنف کا مطمح نظر یہ ہے کہ پاکستانی قوم کو اس کی تاریخ کے مختلف
ادوار اور جد و جہد آزادی کے بارے میں حقیقی شعور و آ گہی سے متتمع کیا جا
ئے ۔ ارض پاکستان برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کی جد و جہدِ آزادی کی پہچان ہے
۔یہ سوہنی دھرتی ان شہیدوں کی امانت ہے جن کا لہو آزادی کے افسانے کا عنوان
بن گیا ۔مجاہدین آزادی کی صبر آزما جد و جہد اور قائدین کی بصیرت افروز
قیادت نے ملت اسلامیہ کو اقوام عالم کی صف میں اور تاریخ کے اوراق میں معزز
و مفتخر کر دیا ۔ دنیا کی ایسی اقوام جو اپنے اسلاف اور ان سے وابستہ تاریخ
کے مد و جزر کے بارے میں بے تعلقی کامظاہرہ کریں ان کی مثال ایسے کرم خوردہ
شجر کی ہے جو کسی بھی وقت دھڑام سے گر سکتا ہے ۔ اپنے آپ کو دُہرانا تاریخ
کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے ۔تاریخ کے متعدد مناظر ایسے ہیں جنھیں دیکھ
کر انسان گنگ صم اور ششدر رہ جاتا ہے ۔ یہ کبھی گردشِ ایام کے لرزہ خیز اور
اعصا ب شکن باب کی صورت میں سامنے آ تی ہے توکبھی کورانہ تقلید کی مہلک روش
کی مظہر افسانہ نگاری کا رُوپ دھار لیتی ہے ۔اس کے باوجود تاریخ کا واحد
اور ناقابل فراموش سبق یہی ہے کہ آج تک کسی نے تاریخ سے کوئی سبق سیکھا ہی
نہیں ۔مصنف نے اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ نو آبادیاتی دور میں فسطائی جبر
کے طوفانوں کی مہیب لہروں میں پھنسی ملت اسلامیہ کی کشتی ساحل عافیت پر
پہنچانے والے ہی یہ بات اچھی طر ح جانتے تھے متلاطم موجوں کا مدو جزر آنے
والے دنوں کے لیے کیا پیغا م دے رہا ہے ۔ دنیا بھر کے ممتاز مورخین کا اس
امر پر اتفاق ہے کہ تاریخ اپنے قارئین کو کبھی داغِ مفارقت نہیں دیتی بل کہ
بین السطور سدایہی پیغام دے کر رخصت ہوتی ہے:
اب تو جاتے ہیں مے کدے سے میرؔ
پِھر مِلیں گے اگر خدا لایا
مصنف نے یورپ سے تاجر کے روپ میں آنے والے عیار لٹیروں کے تاج ور بن بیٹھنے
کے واقعات اور ہوس ملک گیری کے ظالمانہ منصوبوں اور مکر کی چالوں کا پردہ
فاش کرنے میں کوئی تامل نہیں کیا ۔اس کتاب میں قارئین کو یہ پیغا م دیا گیا
ہے کہ وہ آئینۂ ایام میں اپنی ہر ادا کو دیکھ کر احتسابِ ذات پر اپنی توجہ
مرکوز کر دیں ۔اس کتاب میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ تاریخ کی مثال ایسے
پر مغز اور دلچسپ مطالعۂ احوال کی سی ہے جو پیہم اپنے مخصوص مدار میں سر
گرمِ سفر رہتی ہے ۔انسانی حافظہ تاریخ سے وابستہ واقعات کی جانچ پرکھ اور
متعلقہ حقائق کی نوک پلک سنوارنے میں جس انہماک اور انجذاب کا مظاہرہ کرتا
ہے وہی آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کا تازیانہ ثابت ہوتاہے ۔مصنف نے اپنے
قارئین کو یہ احسا س دلانے کی سعی کی ہے کہ اگرہم اپنی تسبیح ِ روز و شب کا
دانہ دانہ شمار کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں زندگی میں جو لمحات بِیت
جاتے ہیں ،جو واقعات پیش آتے ہیں،جو سانحات گزر جاتے ہیں اور جو احباب
دائمی مفارقت د ے جاتے ہیں ان سے وابستہ سب باتیں تاریخ کے طومارو ں میں دب
جاتی ہیں ۔زمانہ آئندہ میں ممکنہ طو رپر پیش آنے والے طوفان و حواد ث کے
متعلق سے معلومات بھی صیغۂ راز میں رہتی ہیں ۔ ان کے بارے میں کوئی حتمی
پیشین گوئی کرنا تاریخ کا موضوع نہیں ۔تاریخ کا واحد اور اہم موضوع لمحۂ
موجود ہے اور اسی پر تاریخ کی کڑ ی نظر رہتی ہے۔لمحۂ موجود کے فیوض و برکات
سے استفادہ کرنا انسانی فہم و فراست ،بصیر ت اور تدبر کا مظہر ہے ۔ان سے نا
بلد رہنے و الوں کی کور مغزی ،ذہنی افلاس اور بے بصری ان کی پوری زندگی کو
ایک ایسا مہمل معما بنا کر رکھ دیتی ہے جس کا تعلق نہ تو سمجھنے سے ہے اور
نہ سمجھانے سے ۔
دنیا بھر کی اقوام کی تاریخ کے ارتقا اور قوت وہیبت کے عرو ج و زوال کا بہ
نظر غائر لینے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ شان ِ استغنا، صبر و استقامت
اور حریتِ فکر و عمل کی درخشا ں روایت کو پروان چڑھانے کے لیے طویل اور صبر
آزما جد و جہد نا گزیر ہے ۔آزادی کی جد و جہد اور اس سے وابستہ تاریخی
عوامل کا مطالعہ نئی نسل کو انداز ِ جہاں بانی کی آموزش میں بے حد معاون
ثابت ہو سکتا ہے ۔ حریتِ ضمیر سے جینے کی روش اورحریت فکر و عمل ید بیضا کا
معجزہ دکھانے پر قادر ہے ۔گلشنِ ہستی میں زندگی کی اقدار عالیہ کی نموانہی
عوامل کی مرہونِ منت ہے ۔ان عوامل کی اساس پر ستوار ہونے والے ابد آ شنا
تصورات حالات کی کایا پلٹ کر تاریخ کا رخ بدل دیتے ہیں۔تاریخ نویسی بہت
ریاضت ،دیانت ،وسیع مطالعہ ،تحقیق اور حق گوئی و بے باکی کی متقاضی ہے ۔اگر
غیر محتاط اسلوب اپنا یا جائے تو تحقیقی فروگزاشتیں تاریخ کی ثقاہت پر منفی
اثرات مرتب کرتی ہیں اور تاریخ کے نام پر لکھی جانے والی نام نہاد کتب
پشتارۂ اغلاط بن کر رہ جاتی ہیں ۔ مصنف نے تاریخ نویسی کے تقاضوں سے عہدہ
برا ہونے کی جو کوشش کی ہے وہ ہر اعتبار سے لائق صدرشک و تحسین ہے ۔ حصول
پاکستان اور جد و جہد ِ آزدی کے موضوع پر لکھی جانے والی یہ مفید کتاب اپنی
نوعیت کے اعتبار سے بر صغیر میں غاصب بر طانوی استعمار کے مسلط کردہ فسطائی
جبر و استبدادکے خلاف بھر پور مزاحمت کے درخشاں ابواب پر مشتمل ایک اہم
دستاویز ہے ۔اس کتاب کے مطالعہ سے قاری اپنے دِل میں ذوقِ یقیں کا آ ئینہ
دار ایسا ولولہ موجزن محسو س کرتا ہے جو کنجشکِ فرومایہ شاہین سے لڑنے پر
آمادہ کرتا ہے ۔ یہ جذبہ محکوم قوم کے خون کو اسی سوز یقین سے اس قدر تمازت
عطا کرتا ہے کہ انھیں اپنے غلبے اور کا مرانی میں کوئی شبہ نہیں ہوتا ۔اس
کتاب کے مصنف نے جہاں تاریخ نویسی میں اپنی استعداد کا لوہا منوایا ہے وہاں
تاریخ سازی پربھی اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے ۔یہ امرکسی سے مخفی نہیں کہ
زیرک،فعال او رمستعد تاریخ نویس قوموں کی تاریخ لکھتے وقت بالعموم اپنی یاد
داشتوں ،وسیع مطالعہ اور مستندمعلومات پر انحصار کرتا ہے۔اس کے برعکس تاریخ
سازی کے لیے خونِ جگر کی احتیاج ہے ۔قیام پاکستان کے بارے میں مورخ
احمدسعیدنے اپنی اس کتاب میں جومنفرد اسلوب اپنا یا ہے وہ قاری کو اپنی
گرفت میں لے لیتا ہے ۔اِس کتاب میں جد و جہدِ آزادی کے واقعات کی مثالیں دے
کر مورخ نے فلسفۂ حیات کی تدریس کو جو موثر اہتمام اس کتاب میں کیا ہے وہ
اپنی مثال آ پ ہے اکثر دیکھا گیا ہے کہ تاریخ کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں
میں تاریخ کے مانند تاریخ نویس بھی واقعات اور خود کو دہراتے چلے جاتے ہیں
مگر اس کتاب میں اسلوب کی ندرت کے اعجاز سے کہیں بھی واقعات کی تکرار قاری
پر گراں نہیں گزرتی۔ سیف الدین سیفؔ نے سچ کہا تھا :
سیف ؔاندا زِ بیاں بات بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں |