طاقتور کمزوری

کئی مدتیں گزر گئی ہیں صاحب طاقت اور کمزوری کی کشتی لڑتے لڑتے، ایک لمحے گر ہم محمد علی کی مانند مصائب کو خود للکارتے ہیں تو دوسری جانب کبوتر کی سی طعبیت اپنا کر کونے میں کسی پناه کی تلاش کرتے ہیں.

عام طور پہ ہم خود کو موٹیویشنل لکهاری یا سپیکر نہیں کہتے، مگر ذندگی میں مثائل نے یکے بعد دیگرے ہمیں کچه اس ادا سے جهنجوڑا کہ صاحب روح کو ہم نے اپنے ہی منہ سے اگل دیا، حیرانی کی بات ہے اور پریشانی کی بهی ہمارے وہم و گماں میں بهی نہ تها کے اپنے وجود کو اپنے ہی منہ سے اگل دیں گے ، پر حقیقت ہے ہم نے ایسا ہی کیا. شاید اب یہ بے حد ضروری تها ہم بهی تو دیکهیں کہ اپنے انرر کس کو سمائے بیٹهے ہیں (میں کوشش کروں گا کہ اسے مذہبی رخ نہ دوں بلکہ دنیا میں ہی رکه کر بات کہہ ڈالوں). صاحب ہماری ملاقات بلآخر اس سے ہو ہی گئی، خونخار آنکیهں ، بهاری داڑهی ، تاو دی ہوئ موچهیں سفید لباس میں ملبوس وہ ضرور ہوتا اگر میرا وجود نہ ہوتا. اس کی حقیقت تو، اداس چہرہ ، پریشان آنکهیں ، ندامت ، ڈر ، خوف اور نا امیدی کے رنگ میں اس قدر رنگی ہوئ تهی کہ ایک لمحے کے لیے احساس ہوا کہ یہ صاحب کہیں اندر اداس ہولی تو نہیں کهیلتے رہے جو اس قدر مرجهائے ہوے ہیں.

اک بات یاد آئ ہمیں، ایک کتابچہ میں پڑها تها کہنے والا ہمارا دوست ہندو تها. "اوم کے تین حروف اور ساپاسا کے تین سروں کے درمیان کائنات کا سارا وجود بندها ہے" میں اسکی گہرائ میں نہیں جاوں گا آپ خود سوچیے گا. پر یقین جانیے پریشان کن بات یہ ہے کہ کیا اب کائنات کو حروف اور سروں کی قید ہے گر ایسا ہے تو ہماری ہستی کہاں گم ہوتی ہے یہ سوالیہ نشان ہے، خیر فلسفہ حیات سب کا اپنا اپنا ہے ہم تو اس بات کو سمجهنے سے کاثر ہیں، کند ذہن جو ٹهہرے.

بلآخر ہمیں اپنے ہی وجود پر ترس آیا اور ہم نے کچه سوچا، بهیا سنا تها انسان چاہے تو تقدیر بدل سکتا ہے ہم بهی ایسا ہی کچه کرنے والے تهے، تقدیر تو رب کے کام ہیں لیکن کچه تها جو ہم کر سکتے تهے. اچهی تقدیر پر بهروسہ، یہاں ہم نے بهروسہ کہا وہاں صاحب چونک گئے. ہم سمجه گئے بهیا مسلہ سارا بهروسہ ، یقین ، امید اور اعتماد کا ہے ہم نے موصوف کو کہہ ڈالا صاحب پریشان مت ہویئے ادهر آیئے، وہ تشریف لائے اور ہم نے انکا بناو سنگهار شروع کر دیا.

پہلے پریشانی کی جهاگ اتاری اور کہا امید رکهو، پهر ڈر کا زخم بهروسہ کے مرہم سے صاف کرنے لگے پهر اداسی کی چادر اتار کر اعتماد کا چوغہ پہنایا اور ندامت کی بو کو یقین کی مہک سے تبدیل کیا. ایک نیا وجود میرے سامنے جنم لے کهڑا ہوا، درخواست کی اس نے کہ اپنے فہم کو ایک طرف رکهنا اور اب جیسا تیار کیا ہمیشہ ویسا رکهنا مجهے، ہم نے کہا جا عیش کر کاکا. اب وہ خوش ہے ہماری فلاسفی پر نہیں بلکہ رب پر امید رکهتا ہے ہماری نہیں سنتا پروردیگار سے درخواست کرتا ہے. یقین جانیے ہم نے فقط اس کو تیار کیا اور اس نے ہماری هزار راہیں استوار کر دیں اور ہماری ذات بلآخر خوشگوار ہو گئ. یہ کوئ مشکل فلسفہ نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے کہ اپنی کمزوری کو اپنے سامنے بٹهاو اسکو دیکهو، پرکهو اور پهر اسکی حالت پر ترس کهاو اور اسے طاقتور بناو، تو پهر کونسا نا ممکن کام ہے جو آپ ممکن نہ کر سکو صاحب، ضرورت ہے تو خود کو جهانکنے کی، سنوارنے کی ، پچهاڑنے کی اور مات دینے کی اور پهر ایک شہ، یعنی طاقت کو گرفت میں کر لینا.

اپنی مشکلات سے آپ کو ڈرنا نہیں ہے فقط اس سے بات کرنا ہے اگے کا کام آپ جانیں آپ کی مشکلات اور آپ کا رب.

 

Sayoon Gill
About the Author: Sayoon Gill Read More Articles by Sayoon Gill: 4 Articles with 4109 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.