وزیراعظم نے کراچی آمد پر افغان اور بنگالی مہاجرین کے
حوالے سے بیان دیا تھا کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے افغان مہاجرین کے
بچوں کو پاکستانی شہریت ملنا ان کا حق ہے۔ انہوں نے مغربی اور ترقی یافتہ
ممالک کی مثال بھی دی کہ جب وہاں مہاجرین کو شہریت دی جاسکتی ہے تو پاکستان
میں کیوں نہیں۔ یہ اعلان کراچی میں کیا گیا تھا جو پہلے ہی لسانی و نسلی
گروپ بندیوں کی وجہ سے متاثر رہا ہے۔ بعدازاں وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں
خطاب کے دوران کراچی میں دیے گئے بیان کے برعکس اراکین اسمبلی کو اس
’انسانی مسئلے پر ہمدردی‘ کی بنیاد پر غور کرنے کی تجویز دی۔ اس سے قبل بھی
بنگالیوں کو پاکستانی شہریت دینے کے سیاسی دعوے کیے جاچکے ہیں، جن پر کبھی
عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ بنگالی? برمی نژاد پاکستانی کمیونٹی کا یہ موقف رہا
ہے وہ پاکستانی ہیں اور انہوں نے دو مرتبہ پاکستان کی محبت میں ہجرت کی ہے۔
پہلی بار، 1947 میں ہندوستان سے مشرقی پاکستان۔ دوسری بار 1971 میں
بنگلادیش بننے کے بعد انہوں نے مغربی پاکستان ہجرت کو ترجیح دی۔ پاکستان
میں صورت حال یہ ہے کہ جب بائیو میٹرک شناختی دستاویزات کا سلسلہ شروع ہوا
تو بنگالی نژاد پاکستانی کے لیے لازمی قرار دے دیا گیا کہ وہ 68ء کے شناختی
شواہد منسلک کریں۔ پختونوں کے لیے 71ء کے دستاویزی شواہد طلب کیے جاتے ہیں۔
برما سے روہنگیائی مسلمانوں کی بڑی تعداد کو بھی ماضی کی حکومت نے پناہ دی
تھی، جس کے بعد روہنگیائی برما نژاد پاکستانی واپس نہ جاسکے اور اب ان کی
تیسری نسل کو بھی انہی مشکلات کا سامنا ہوا جو بنگالی نژاد پاکستانیوں کو
ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں روہنگیائی نسل (برمی) کو بھی بنگالی تصور کیا
جاتا ہے۔
1979اور 2001 کے بعد افغان مہاجرین کی لاکھوں تعداد نے پاکستان میں بھی
ہجرت کی، کیونکہ پاکستان اُس وقت امریکا کی جنگ لڑ رہا تھا، اس لیے بغیر
کسی شناختی دستاویزات لاکھوں افغان مہاجرین صوبہ خیبر پختونخوا، سندھ اور
بلوچستان میں آباد ہوگئے۔ ایران کی طرح پاکستان، افغان مہاجرین کو کیمپوں
تک محدود اور شہروں میں داخلے پر روکنے میں ناکام رہا۔ جس کے نتیجے میں
لاکھوں افغان مہاجرین نے پاکستان کے ہر حصے میں سکونت اختیار کرتے ہوئے
کوئٹہ، چمن، پشاور اورکراچی کو فوقیت دی۔ بالخصوص کراچی ایک کثیر القومی
شہر ہونے کے علاوہ پاکستان کی معاشی شہ رگ اور حب ہے، اس لیے ملک کے دوسرے
شہروں سے آنے والی کئی نسلیں کراچی و حیدرآباد میں مستقل آباد ہوگئیں۔
ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے لوگوں کی اکثریت نے 78ء میں اپنی شناخت ’’مہاجر‘‘
اپنالی، جس کے بعد مستقل آباد سندھیوں اور ’مہاجروں‘ کے درمیان لسانی
کشیدگی بڑھ گئی اور اس کی شدت میں خوف ناک اضافے کی وجہ خیبر پختونخوا و
بلوچستان سے آنے والے محنت کش پختونوں کی مستقل آمد بنی۔ مستقل آباد
سندھیوں نے دعویٰ کیاکہ کراچی کے ملکی دارالحکومت ہونے اور اردو بولنے
والوں کی سرکاری ملازمتوں و کلیم کی وجہ سے مستقل آباد سندھی احساس محرومی
کا شکار ہوگئے ہیں۔ علاوہ ازیں نچلی سطح پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے
آنے والے پختونوں کی وجہ سے مستقل آباد سندھی اقلیت میں تبدیل ہورہے ہیں۔
جس کے بعد سندھ میں دیہی و شہری کوٹہ سسٹم نافذ کردیا گیا، جو اَب تک
نافذالعمل ہے۔
افغان مہاجرین کی کثیر تعداد غیر قانونی طریقوں سے پاکستانی شہریت حاصل
کرچکی تھی، تاہم بائیومیٹرک نظام کے بعد شناختی کارڈ بلاک ہونا شروع ہوگئے،
نیز افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے لیے مملکت نے اقوام متحدہ کے ادارے
برائے مہاجرین اور کابل حکومت پر دباؤ ڈالا کہ لاکھوں افغان مہاجرین کی وجہ
سے پاکستان کی معیشت، داخلی معاملات اورعالمی پراکسی وار کی وجہ سے حالات
انتہائی خراب ہوگئے ہیں، اس لیے افغانستان کے جن حصوں میں امریکا و کابل کے
مطابق عمل داری اور امن ہے، وہاں افغان مہاجرین کو آباد کردیا جائے، لیکن
کابل حکومت اس سے خائف رہی کہ افغان مہاجرین کے کیمپوں یا محفوظ علاقوں میں
افغان طالبان کے رہنما کئی کئی برس روپوش رہے ہیں، اس لیے مہاجرین کی
افغانستان واپسی پر افغان طالبان کی قوت میں اضافہ ہوسکتا ہے، تاہم پاکستان
کی جانب سے کوشش جاری رہی کہ اقوام متحدہ کی مدد سے ’’نارا‘‘ (افغان شہری)
کاکارڈ بناکر غیر قانونی طور پر رہنے والے افغان مہاجرین کا ڈیٹا حاصل کرکے
انہیں مقررہ مدت میں باعزت افغانستان بھیجا جاسکے (اس مدت میں کئی بار
اضافہ کیا جاچکا ہے) لیکن افغان مہاجرین کی بڑی تعداد ان 40برسوں میں
پاکستان میں مکمل رچ بس چکی ہے اور کاروبار کرکے چھوٹے پیمانے سے لے کر بڑے
پیمانے تک تجارتی اور پھر سیاسی معاملات میں رسوخ کی حامل ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کراچی جیسے حساس شہر میں متنازع بیان دے کر لسانی
فضا مکدر کردی اور غیر پشتون قوم پرست جماعتوں کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے
میں آیا۔ جس پر وزیراعظم نے قومی اسمبلی کی جانب اپنے بیان کا رخ موڑ کر
اپنی تجویز پر غور کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں سے رائے طلب کرلی۔ بلوچستان
میں بلوچ قوم پرست، وزیراعظم کے بیان پر سخت ناخوش ہیں اور وہاں پہلے ہی
پشتون اور بلوچ، بروہی اکثریت کا مسئلہ گمبھیر ہے۔ اگر افغان نژاد پاکستانی
قانونی دائرے میں آجاتے ہیں تو بلوچستان میں پشتون نسل افغانی و ہزارہ نژاد
پاکستانی کمیونٹی اکثریت میں آجائیں گے۔ کچھ ایسی صورت حال سندھ میں بھی
ہے، جس میں اردو بولنے والوں کا موقف ہے کہ بنگالی نژاد پاکستانی تو دوسری
بار ہجرت کرکے آئے ہیں، اس لیے انہیں پاکستانی شہریت دینا حق بنتا ہے لیکن
انہیں افغان نژاد پاکستانی پر تحفظات ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پختون قوم
پرست لسانی جماعتوں نے شدید مخالفت تو نہیں کی لیکن اس اقدام کے لیے محفوظ
میکنزم بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
راقم نے عام پختون قومیت کے حامل افراد سے اس بابت دریافت کیا تو مختلف آرا
سامنے آئیں۔ سب سے پہلے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے بیشتر عام
پختونوں کا کہنا تھا کہ ’’انہیں وزیراعظم کے اقدام سے اتفاق نہیں کیونکہ
افغانستان میں پاکستانی شہریت کے حامل پختونوں کے ساتھ افغان شہریوں،
تاجروں اور سرکاری اہلکاروں کا رویہ انتہائی غیر مہذب اور تضحیک پر مشتمل
ہوتا ہے۔ یہاں افغان مہاجرین نے ان کے کاروبار و دیگر وسائل پر قبضہ کیا
ہوا ہے۔ ہم پاکستان میں جتنا افغان مہاجرین کو اہمیت و عزت دیتے ہیں۔
افغانستان میں ویسا سلوک ہمارے ساتھ نہیں ہوتا۔ دوم مقامی سطح پر بھی افغان
مہاجرین کا رویہ ہم پاکستانیوں کے ساتھ بے توقیری پر مبنی ہے۔ حالانکہ ہم
نے انہیں پناہ دی ہوئی ہے لیکن الٹا ہمیں یہ اپنا محکوم سمجھتے ہیں۔ اگر
تحریک انصاف نے ایسا کوئی قدم اٹھایا تو سیاسی طور پر خیبر پختونخوا میں
انہیں سیاسی نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔‘‘ کراچی میں مستقل آباد پختونوں نے
کہا کہ ’’افغان مہاجرین کو کسی قسم کی دستاویزات کی ضرورت ہی نہیں، کیونکہ
وہ پہلے ہی رشوت دے کر پاکستانی شہری دستاویزات بناچکے ہیں۔ اب وہ یہاں
مہاجرین نہیں بلکہ افغان نژاد پاکستانی کہلاتے ہیں، تاہم کراچی میں بیشتر
پختونوں کی رائے یہ بھی ہے کہ جب بنگالی اور برمی مہاجرین کو شہریت مل سکتی
ہے تو افغان مہاجرین کوبھی دینے میں کیا حرج ہے۔ اس سے افرادی قوت و قانونی
تجارت میں اضافہ ہوگا۔ بلوچستان میں بھی عام پشتون، وزیراعظم کے فیصلے کی
تائید کرتے ہیں کہ عمران خان اگر افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دینا
چاہتے ہیں تو وہ اس اقدام کی حمایت کریں گے۔
وزیراعظم کے اعلان کے بعد کئی اہم تحفظات کا اظہار بھی سامنے آیا ہے کہ جو
لاکھوں افغان مہاجرین افغانستان جاچکے ہیں وہ واپس آسکتے ہیں۔ سرکاری اعداد
و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں 30لاکھ کے قریب رجسٹرڈ اور غیر قانونی
ملاکر 50لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں۔ اگر افغان مہاجرین کو انسانی ہمدردی
اور عالمی وملکی قانون کے مطابق پاکستانی شہریت مل جاتی ہے تو 30لاکھ
افغانستان جانے والے لاکھوں افغانی شہری واپس بھی آسکتے ہیں۔ یہاں دو اہم
مسائل کا ذکر افغان نژادپاکستانی اور افغان مہاجرین کی جانب سے بھی سامنے
آیا ہے کہ کس طرح ثابت ہوگا کہ جن افغان نژاد پاکستانیوں کو شہریت دی جارہی
ہے وہ پاکستان میں ہی پیدا ہوئے۔ دوم افغان نژاد پاکستانی اور افغان
مہاجرین کا یہ خیال ہے کہ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین نے ’’نارا‘‘ میں
رجسٹریشن نہیں کرائی، اس وجہ سے انہیں ’’افغان شہری‘‘ کا بائیو میٹرک کارڈ
نہیں ملا۔ انہیں تحفظات ہیں کہ شاید ’’پاکستانی شہریت دینے کی ترغیب دے کر
افغان مہاجرین کا ڈیٹا حاصل کرنے کا ریاستی منصوبہ ہو۔‘‘ ڈیٹا حاصل کرنے کے
بعد ان کی شہریت کسی بھی وقت منسوخ کی جاسکتی ہے، کیونکہ آئینی تحفظ حاصل
نہیں، تاہم افغان مہاجرین نے خوشی کا اظہار کیا ہے وہ آزادی کے ساتھ اپنا
کاروبار کرسکیں گے اور شناختی دستاویز ہونے کے باوجود بعض اداروں کے اہلکار
انہیں خائف نہیں کریں گے۔ |