پاکستان مالیاتی بحران نئی حکومت کے لئے درد سر ۔۔۔؟

 وزیر اعظم پاکستان عمران احمد خان نیازی نے پہلا باقاعدہ دورہ سعودی عرب سے کیا ۔پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان رشتہ تمام سفارتی و ملکی مسائل سے بڑھ کر ہے۔ امت مسلمہ سرزمین حجاز کے تقدس اور حفاظت کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ نومنتخب وزیر اعظم عالمی رہنماؤں سے ملاقاتوں کے لئے بنیادی طور پر فیصلہ کن پوزیشن میں نہیں تھے اس لئے انہوں نے اپنے انتخابی منشور کے مطابق مملکت کو درپیش مشکلات کے لئے پالیسیاں ترتیب دینے کو اہم قر ار دے کر خارجہ امور پر متعدد اہم بریفنگ لینا شروع کردیں جو ہنوز جاری ہیں ۔

وزیراعظم عمران احمد خان نیازی اب جان چکے ہیں کہ معاشی طور پر پاکستان شدید مالی بحران کا شکار ہے اور پاکستان کے لئے بیرونی مالی امداد کی اشد ضرورت ہے تو پوری کابینہ کو بھی معاملات کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ دوسری جانب امریکا پہلے ہی آئی ایم ایف کو ڈکٹیشن دے چکا تھا کہ وہ پاکستان کے لئے کسی قسم کابیل آؤٹ پروگرام نہ دے ۔ امریکی کانگریس کے16اراکین نے وزیر خارجہ مائیک پامپیو اور وزیر خرانہ کو خط لکھا تھاکہ پاکستان آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پروگرام کے تحت قرضہ لینے کی تیاری کررہا ہے ۔ کیونکہ پاکستان پانچ ارب ڈالر چین کو قرض کی ادائیگی اور ایک ایک ارب ڈالر اپنے زرمبادلہ کے لئے حاصل کرنا چاہتا ہے ، لہذا کانگریسی اراکین نے آئی ایم ایف پیکچ کو رکوانے کا مطالبہ کردیا ۔حالانکہ سری لنکا بھی ون بیلٹ ون روڈ کے لئے آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرچکا تھا۔ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ ، امریکی مفادات کے خلاف ہے اس لئے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لئے امریکا نے آئی ایم ایف کو سخت ڈکٹیشن دی تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے یہ بیان سامنے آچکا تھا کہ پاکستان نے ابھی کوئی درخواست بیل آؤٹ پروگرام کے لئے نہیں دی ، لیکن امریکا نے پاکستان کے لئے آئی ایم ایف سے قرض لینے کے راستے پہلے ہی مفلوج کرکے اپنے عزائم عیاں کردیئے تھے۔ دوئم تحریک انصاف اپنے انتخابی منشور میں مالیاتی اداروں سے قرض نہ لینے کے دعوی کرچکی تھی اس لئے وزیر اعظم و وزیر خزانہ کے لئے زر مبادلہ کو مستحکم کرنے سمیت ماہانہ2ارب ڈالر خسارے کو پور ا کرنے کا بہت بڑا چیلنج سوہان روح بنا ہوا ہے ۔بیرون ملک غیر قانونی اثاثوں کی واپسی کے لئے قانون سازی سمیت کئی دشوار گذار مراحل باقی ہیں۔ عالمی قوانین اور پاکستان عدالتی نظام غیر قانونی اثاثوں کی جلد واپسی میں رکاؤٹ ہے۔پاکستان نے برطانیہ سے مجرموں کے تبادلے سمیت غیر قانونی اثاثوں کے حوالے سے معاہدہ بھی کرلیا ہے اور اسی قسم کا معاہدہ متحدہ عرب امارات، سوئس حکومت اور سعودی عرب سے بھی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان جو بیرون ملک دوروں میں قرض مانگنے کو اچھا تصور نہیں کرنے کا بڑا سخت بیان دے چکے تھے ۔ ملکی مالی مشکلات کے پیش نظر اپنے تین مہینے بیرون ملک دورے نہ کرنے کے بیان سے واپس ہونے پر تیار ہوگئے اور ان کی پہلی منزل سعودی عرب ٹھہری۔

پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر نے حلف اٹھانے سے قبل امریکا کی جانب سے آئی ایم ایف کو ڈکٹیشن کے حوالے سے بڑا سخت بیان دیا تھا کہ پاکستان اپنے قرضوں کا اہتمام کرلے گا امریکا اپنے قرضوں کی فکر کرے ۔ بعد ازاں جب اسد عمر وزیر خزانہ بنے تو انہیں حقیقی ادارک ہوا کہ آئی ایم ایف کے پاس جائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے تو انہوں نے قوم کو عندیہ دے دیا کہ ہوسکتا ہے کہ حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے۔تاہم آئی ایم ایف جانے سے قبل دوست ممالک سے رابطوں کا فیصلہ کیا گیا اور وزیر اعظم پاکستان خصوصی طیارے کے ذریعے سعودی عرب پہنچے۔ شاہی محل میں وزیر اعظم نے خادمین الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کے دوران دوطرفہ معاشی تعلقات اور اقتصادی تعاون کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔وفاقی وزیر اطلاعات کے مطابق پاکستان نے سعودی عرب کو سی پیک میں باقاعدہ طور پر تیسرا پارٹنر بننے کی دعوت دی ہے ۔ حکومتی ذرائع کے مطابق ماہ اکتوبر میں سعودی وفد پاکستان کا دورہ کرے گا اور اہم معاہدوں پر دستخط کئے جانے کی امید ہے سی پیک منصوبے میں چین کی رضامندی یقینی شامل ہوگی کیونکہ سعودی عرب کی شمولیت کے بعد عرب ممالک کی منڈی بھی چینی کے لئے کھل جائے گی ۔ سی پیک منصوبے کے خلاف کئی عالمی قوتیں اور ملک دشمن عناصر سازشوں میں مصروف ہیں۔ اس لئے امید کی جا رہی ہے کہ سعودی عرب کی براہ راست شمولیت سے جہاں سعودی عرب کے نئے ویژن2050 کے لئے سرمایہ کاری کے مواقع میسر آئیں گے تو دوسری جانب پاکستان پر منصوبے کی تکمیل کے حوالے سے مالی بوجھ میں بھی کمی واقع ہوگی۔ یہ ایک اچھا موقع ہوگا کہ اہم ترین مملکت بھی اس منصوبے میں شریک کار بن جائے گی۔ اس سے بھارت پر دباؤ بھی پڑے گا ۔ بھارت سعودی اور عرب ممالک کو یقیناََ ناراض کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اکتوبر میں سعودی اور پاکستانی حکام سیکورٹی سے مطمئن ہوکر معاہدے پر دستخط کردیتے ہیں تو یہ اہم پیش رفت ہوگی۔وزیر اعظم نے سعودی وزیر دفاع اور ولی عہد محمد بن سلمان ، سعودی وزیر توانائی خالد الفالح اور صدر سعودی انوسٹمنٹ فنڈ کے حکام سے بھی ملاقات کی تھی۔ وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی کے ہمراہ وزیر خزانہ اسد عمر، مشیر تجارت عبدالرزاق داود، سیکرٹری خارجہ اور سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر خان ہشام بن صدیق بھی موجود تھے۔وزیر اعظم سے اسلامی تعاون تنظیم کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر یوسف العثیمین نے بھی ملاقات کی۔ انہوں نے وزیر اعظم بننے پر عمران احمد خان نیازی کو فون پر مبارکباد بھی دی تھی۔وزیر اعظم نے جدہ کے شاہ فیصل محل میں سعودی عرب میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے ارکان سے بھی خطاب کیا۔واضح رہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی شخصیت سب سے زیادہ با اثر سمجھی جاتی ہے ۔ سعودی ویژن 2050اصلاحات سمیت کئی عالمی امور میں ولی عہد محمد بن سلمان کا اثر رسوخ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی ممکنہ کوئی یقین دہانی پاکستان کے لئے مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

یمن کی خانہ جنگی سعودی عرب کی بقا کا اہم و سنگین مسئلہ ہے ۔ ایران کی وجہ سے پاکستان کا کردار سعودی حکمرانوں کی خواہشات کے مطابق نہیں ہے ۔ اس سے قبل متحدہ عرب امارات پاکستان کی خارجہ پالیسی پر سخت تنقید کا نشانہ بنا چکا تھا ۔ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان گذشتہ کچھ عرصہ میں تعلقات کشیدہ رہے جس وقت یمن میں فوج نہ بھجوانے کے معاملہ پر اماراتی وزیر نے پاکستان کے حوالے سے سخت بیان دیا جس پر اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے پریس کانفرنس میں سخت جواب دیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار تھے۔ وزیر اعظم پاکستان سعودی عرب کے دورے کے بعد متحدہ عرب امارات پہنچے ، جہاں ولی عہد شیخ محمد بن زید النیہان نے ان کا استقبال کیا۔ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد سے تفصیلی گفت گو میں عرب امارات کے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ، وزیرِ خارجہ، نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر، وزیر برائے صدارتی امور موجود تھے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے سعودی ویژن 2050اصلاحات میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی ترجیحات ، یمن میں حوثی باغیوں کو شکست دینا ، ایرانی رسوخ کو ختم کرنا ، شام سے ایران نواز جنگجو ملیشیا ؤں کی واپسی اور قطر سے تعلقات میں سختی اہمیت کے حامل ہیں تو دوسری جانب ولی عہد محمد بن سلمان تارکین وطن کے جائے سعودی باشندوں کو مملکت میں ملازمتوں کے لئے پر کشش مراعات دے رہے ہیں ۔ تاکہ سعودی عرب کو درپیش مالی مشکلات کا قبل ازوقت مدوا ہوسکے ۔ تیل پر انحصار کم کرکے ولی عہد محمد بن سلمان کی توجہ سعودی عرب کو جدید تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کرنا ہے۔ سعودی حکومت یمن جنگ کی وجہ سے خود مالی مشکلات کا شکار بھی ہے ، سوشل میڈیا میں پاکستان اور سعودیہ تعلقات کے تناظر میں پھیلائی جانے والی افواہیں مثبت قرار نہیں دی جاسکتی۔ خاص طور پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا معطلی کے حوالے سے جس قسم کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں اس سے منفی اثرات رونما ہوسکتے ہیں ۔ جس کا فائدہ یقینی طور وہ قوتیں اٹھاسکتی ہیں جو پاکستان کے مفادات کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔سعودی عرب اپنی پالیسیوں میں بڑی نمایاں تبدیلیاں کررہا ہے جس میں ایک اہم تبدیلی افغان طالبان کی کھلی حمایت سے دست بردار ہونا بھی ہے ۔ ماضی میں یہی افغان طالبان تھے جو سعودی عرب کے منظور نظر تھے ، لیکن امریکی اثر رسوخ اور ولی عہد محمد بن سلمان کی جدت پسند پالیسیوں کی وجہ سے افغان طالبان بھی سعودی عرب کی حمایت سے محرومی کے بعد ایران و روس کے قریب ہوگئے ہیں۔پاکستان ، ایران، چین کے پڑوسی مملکت ہونے کی حیثیت سے ان حالات میں کسی عالمی پراکسی یا جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔

اس وقت ترکی، چین اور روس پر مشتمل بلاک امریکی مفادات کے لئے ایک بڑا چیلنج بنے ہوئے ہیں۔چین کے ساتھ امریکا کی معاشی جنگ عالمی امن کے لئے بہت بڑے خطرے کی صورت میں بھیانک صورتحال پیدا کررہی ہے ۔ چونکہ اقتصادی راہدری منصوبے سے متحدہ عرب امارات کے اہم مفادات کو بھی زک پہنچ رہی ہے اس لئے متحدہ عرب امارات بھی چین کے عظیم منصوبے کے لئے پاکستان کی جانب سے راہدری مہیا کرنے پر شدیدتحفظات رکھتا ہے۔پاکستان بخوبی آگاہ ہے کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو لیکر کئی اہم ممالک سے دوریاں بڑھ گئی ہیں ۔ اس لئے پاکستان کو اپنے معاشی خسارے کو کم کرنے اور پاکستانی مفادات کے تحفظ کے لئے سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ وزیر اعظم پاکستان ، بھارت کے ساتھ باضابطہ مذاکرات کے لئے مضطرب ہو رہے ہیں کیونکہ لائن آف کنٹرول اور مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال علاوہ مغربی بلاک کی بھارت نواز ی کی وجہ سے پاکستان کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔افغانستان اور بلوچستان سمیت شمال مغربی سرحدوں پرکشیدہ صورتحال پاکستان کو پُر امن ملک بننے میں رکاؤٹ پیدا کررہا ہے۔بھارت کے ساتھ کئی ایسے معاملات ہیں جو حل طلب ہیں لیکن بھارت مذاکرات سے پہلو تہی کرکے پاکستان کو سفارتی تنہائی کا شکار کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔بھارت نے حسب توقع مذاکرات سے انکار کے بعد سائیڈ لائن پر اقوام متحدہ اجلاس کے دوران وزرائے خارجہ کی سطح پر ملاقات پر رضا مندی ظاہر کی ۔ امریکا نے اس کا خیر مقدم بھی کیا ۔ لیکن بھارت میں پاکستان مخالفت کی سیاست اپنے عروج پر ہوتی ہے اس لئے داخلی معاملات میں پوائنٹ اسکورنگ کے لئے مودی حکومت نے پاکستان کے ساتھ کسی بھی قسم کی ملاقات سے نہ صرف انکار کیا بلکہ سفارتی آداب کا لحاظ کئے بغیر وزیر اعظم پاکستان کے خلاف غیر سفارتی جملے استعمال کئے جس کابھرپور جواب وزیر اعظم پاکستان نے دے کر پورے بھارتی میڈیا میں آگ لگا دی ۔ اس کے بعدبھارتی فوج کے سربراہ کی جانب سے مضحکہ خیز بیان نے بھارتی سرکارپوری دنیا میں شرمسار کردیا ۔ بھارتی فوج کے سربراہ اس سے قبل بھی پاکستان کے خلاف گیڈر بھبکیاں دے چکے ہیں ، لیکن حالیہ بیان سے صاف نظر آرہا تھا کہ بھارتی فوجی سربراہ ہندو انتہا پسند جماعت کا بیانہ کارکن بن کر دے رہے ہیں۔ خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ اور ہتھیاروں کے حصول کے لئے بھارتی چیف کا اوتلا پن ظاہر کررہا ہے کہ بھارتی حکومت مذاکرات پر یقین رکھنے کے بجائے سازشوں اور بد امنی و جنگ پر یقین رکھتی ہے ۔ اس لئے بار بار مذاکرات سے فرار اختیار کرتے ہیں۔ شاید بھارتی کو جنگی ساز و سامان کی ڈیل سے بے تحاشا فائدہ ہوتا ہے ، جس کا مظاہرہ فرانس کے ساتھ طیاروں کی فروخت کے لئے بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے مخصوص گروپ کو شامل کرنے کے اسکینڈل نے بھارت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کردیا ہے۔ثابت ہوتا ہے کہ جنگی ساز و سامان کا مقصد جہاں خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑنا ہے تو دوسری جانب اس سے مالی فائدہ بھی ہے۔

پاکستان مسلم دنیا میں جنگی تنازعات کے حل کا خواہش مند ہے ۔ لیکن مسلم اکثریتی ممالک میں مفاہمت کے لئے پاکستان فی الوقت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ عرب ممالک سمیت اسلامی تعاون تنظیم پر کوئی دباؤ ڈال سکے ۔ کیونکہ مملکت اس وقت جس صورتحال کا شکار ہے ۔ وہ انتہائی دقت و دشوار دورہے۔ عرب ممالک، پاکستان پر دباؤ تو بڑھا سکتے ہیں لیکن پاکستان سعودیہ ، ایران، شام ، لیبیا، یمن ،افغانستان اور عراق سمیت مسلم اکثیریتی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ بلا شبہ ایٹمی طاقت ہونا پاکستان کو مسلم دنیا میں ممتاز کرتا ہے لیکن موجودہ دور معاشی طاقت کی صدی ہے۔ جس ملک کے ہاتھ میں معاشی قوت کا عصا ہوگا اس کے ہانکنے پر ہی کمزور ممالک اپنی مرضی کے برخلاف چلتے رہیں گے۔پاکستان سی پیک منصوبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی خواہش مند ہے اور نئی حکومت بھی چاہتی ہے کہ اہم ممالک 60ارب ڈالرز کے اس منصوبے میں شامل ہوں ۔ لیکن ملک میں امن و امان کی صورتحال اور چین کی غیر ملکی سرمایہ کاری کے معاملے میں منظوری و اعتماد میں لینا ضروری ہے۔پاکستان صرف چین پر انحصار نہیں کرنا چاہتا اس لئے دوست ممالک کو سی پیک منصوبے سمیت پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے قائل کرنے کی مربوط منصوبہ بندی کا پہلا قدم سامنے آچکا ہے۔
واضح رہے کہ 2010سے2015تک پاکستان کو سب سے زیادہ امداد امریکا کی جانب سے ملتی رہی ہے ۔ اعداد و شمار کے مطابق ترقیاتی منصوبوں کی مد میں ان برسوں میں امریکا نے پاکستان کو 3935ملین ڈالر دیئے تھے۔جبکہ دوسرے نمبر پر برطانیہ امداد فراہم کرنے والے دوسرا ملک رہا ہے جس نے صرف پانچ برسوں میں 2686ملین ڈالرز، جاپان نے 2010-15میں 1303ملین ڈالرز ، یورپی یونین نے867ملین ڈالر دیئے ، جرمنی پاکستان کو مالی امداد دینے والا 5واں ملک رہا جس نے OECDکے اعداد و شمار کے مطابق پانچ برسوں میں 544ملین ڈالر ،متحدہ عرب امارات نے 473ملین ڈالرز،ساتویں نمبر پر آسٹریلیا نے پاکستان کو مذکورہ برسوں میں 353ملین ڈالرز،کینیڈا نے 262ملین ڈالرز، ترکی نے236ملین ڈالرز دیئے۔10 ویں نمبر پرناروے نے126ملین ڈالرز، جبکہ گیارہویں نمبر پر چین ہے ، گوکہ چین ترقیاتی امداد فراہم کرنے والی تنظیم کا رکن نہیں ہے ۔ لیکن چین ’’ ا یڈ ڈیٹا ‘‘ کے مطابق قرضے بھی کسی حد تک ترقیاتی امداد میں شمار کئے جاسکتے ہیں ، 2014میں چین نے پاکستان کو مختلف منصوبوں کے لئے400ملین ڈالر فراہم کئے تھے ۔سعودی عرب بھی چین کی طرز پر امدادی قرضے فراہم کرتا ہے ’’ سعودی فنڈآ ف ڈیویلپمنٹ ‘‘ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو1975سے لیکر2014تک 620ملین ڈالرز دیئے گئے۔مالی سال 2016-17 اورمالی سال 2017-18 کے دوران ملک میں برآمدات کے حوالے سے اس اہم شعبے میں بالترتیب 32.7 اور94.2 ملین ڈالرکی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری ہوئی۔ گزشتہ دس برسوں میں سال 2008.09 میں’سب سے زیادہ 166.6 ملین ڈالر جبکہ مالی سال 2013-14 میں سب سے کم 3.2 ملین ڈالرکی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری ہوئی۔پاکستان پر ملکی و غیرملکی قرضوں اور واجبات کا بوجھ مجموعی قومی پیداوار کا 86.2 فیصد ہے، پاکستان کے مقامی اور غیرملکی قرضوں اور واجبات کی مالیت 29 ہزار 861 ارب روپے کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادو شمار کے مطابق جون 2018ء کے اختتام پر مقامی قرضوں کی مالیت 16 ہزار 415 ارب روپے ریکارڈ کی گئی جبکہ غیرملکی قرضوں کی مالیت 10 ہزار 935 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کی پاکستان کے لئے سخت گیر پالیسی کے بعد پاکستان کو شد ید مالی مشکلات کا سامنا ہے ۔ اور قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لئے بھی قرض لینا پڑ تاہے۔ ان حالات میں سعودی عرب ، چین جو پاکستان کی ہمیشہ بُرے وقت میں مدد کرتے رہے ہیں ۔ کس حد تک مالی مشکلات سے نکالنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں یہ ایک صورتحال ہے تاہم عالمی ابلاغ کے مطابق امریکا 300ملین ڈالرز محدود امداد پاکستان کو دینے کے لئے دوبارہ غور کررہا ہے ۔ خیال یہی ہے کہ اگر پاکستان پر دباؤ میں مزید اضافہ کیا گیا تو ممکن ہے کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان دوریاں مزید بڑھ سکتی ہیں اور پاکستان امریکی مالیاتی حصار کو امریکی مخالف بلاک کی حمایت سے توڑنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ جو یقیناََ امریکی مفادات پر ضرب لگنے کے مترادف ہوگی۔ ضرورت اس بات کی ہے پاکستانی وزیر اعظم اب لمبی چوڑ ی تقاریر کے بجائے عملی طور پر عالمی رائے ہموار کرنے کے لئے دوست و پڑوسی ممالک کو اعتاد میں لینے کے لئے میدان میں اتر جائیں۔ عمران احمد خان نیازی نے وزیر اعظم بننے کے بعد کئی وعدوں سے واپسی کی راہ اپنائی ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں بتدریج سیاسی و عوامی تنقید کا نشانہ بھی بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ تنقید کا اثر زائل کرنے کا بہتر موقع منشور پر عمل درآمد کے لئے سنجیدہ کوششیں کرنا ضروری ہے۔ مربوط اور عملی اقدامات تحریک انصاف کی حکومت کو دوائم دے سکتی ہے ۔ لیکن اس کے لئے وزیر اعظم کو منطقی اسٹریجی اپنانا ہوگی۔امریکی اتحادی بلاک و مخالف دونوں بلاک میں پاکستان کی موجودگی خود ریاست کے اداروں کے لئے بڑا امتحان ہے ۔ 

Qadir Khan Yousuf Zai
About the Author: Qadir Khan Yousuf Zai Read More Articles by Qadir Khan Yousuf Zai: 399 Articles with 297037 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.