27ستمبر کو نیو یارک میں سارک وزرائے خارجہ ایک ظہرانے پر
ملاقات کر رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی اور سشما سوراج کے درمیان ملاقات پر
بہانہ بازیوں اور بھارتی آرمی چیف کے پاکستان کو درد دینے اور دہشتگردی
جیسے اشتعال انگیز بیانات نے سیاہ بادل منڈلا دیئے ہیں۔ 29ستمبر کو بھارت
نام نہاد سرجیکل سٹرائیکس کا جشن منانا چاہتا ہے۔ یہ آثار و قرائن بتا رہے
ہیں کہ پاک بھارت مذاکرات کا ابھی کوئی امکان نہیں۔ کم از کم بھارتی
انتخابات سے پہلے ان کی توقع نہیں۔ 8ماہ تک بھارتی کا جنگی جنون ہی نظر آئے
گا۔ اس لئے بھارت سے بات چیت کی توقع نہ رکھی جائے۔ بلکہ بھارتی جارحیت کا
مقابلہ کرنے کے لئے الرٹ رہنا ہی بہتر ہو گا۔
بھارتی آرمی چیف کی جنگی دھمکیاں اور بات چیت سے راہ فرار،کشمیر کی جنگ
بندی لکیر اور مقبوضہ کشمیر کے اندر کے حالات دونوں ممالک کے درمیانجنگی
فضا کو سازگار بنا رہے ہیں۔ ایک طرف بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت کہتے
ہیں کہ پاکستان نے بھارت کو ہزاروں زخم لگا کر خون بہانے کی پالیسی اپنا
رکھی ہے۔دوسری طرف جموں کی ورکنگ باؤنڈری پر ایک بھارتی اہلکار کا گلا
کاٹنے کا الزام بھی پاکستان پر لگا رہا ہے۔ تا کہ رائے عامہ کو اسلام آباد
کے خلاف ہموار کیا جائے۔ یہ سب کرپشن میں پھنسی نریندر مودی حکومت کو راہ
فرار دلنا اور اسے ایک بار پھر انتخابات میں کامیابی دلانا ہے۔ اس سے پہلے
جنرل راوت نے کہا تھا کہ بھارت کو پاکستان اور چین کے ساتھ بیک وقت جنگ کے
لئے تیار رہنا ہو گا اور ان کی مغربی کمانڈ کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل سریندر
سنگھ نے کہا کہ ایک وقت میں دو محاذوں پر جنگ لڑنا بھارت کے لئے بہتر نہیں۔
بھارت کے وزیر مملکت دفاع ڈاکٹر سبھاش بھامرے نے کہا کہ جنگ بندی لکیر کے
حالات خطرناک رخ اختیار کر رہے ہیں۔ سیز فائر لائن کے حالات کو جنگ قرار
دیتے ہوئے پی جی رسول کا کہنا ہے کہ سرحدوں پر جو نہایت ہی کشیدہ صورتحال
بنی ہوئی ہے،وہ عملاً ایک جنگ ہے جو جاری ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ
خواجہ آصف نیکچھ عرصہ قبل پارلیمنٹ کو بتایا کہ سرحدوں پر حالات خطر ناک رخ
اختیار کئے ہوئے ہیں۔ نئی دہلی میں بھارتی وزارت دفاع کے وزیر مملکت بھامرے
نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ سرحدوں پر بہت کچھ ہورہا ہے اور صورتحال کسی
بھی موقعہ پر تصادم کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ـــ اُن تمام عوامل اور حقائق
کو ایک تواتر اور تناظر میں دیکھنے سے ہی حقیقت کے جھروکے نظر آتے ہیں جو
اب صاف بتارہے ہیں کہ اصل میں سرحدوں پر خلاف ورزیاں نہیں ہورہی ہیں بلکہ
ایک جنگ جاری ہے جس کی سطح کسی بھی وقت بلند ہوسکتی ہے جیسا کہ جنگ شروع
کرنے والوں کے منصوبوں میں ہوگا۔نئی دلّی میں بی جے پی یعنی نریندر مودی کی
آر ایس ایس حمایت یافتہ سرکار وجود میں آنے کے بعد 2003کے سرحدی جنگ بندی
معاہدے کو ختم کرکے سرحدی جارحانہ پالیسی اپنائی گئی اور اب15 سال گزر جانے
کے باوجود حالات میں بہتری کی بجائے بگاڑ مسلسل جاری ہے۔اس لئے اعداد وشمار
بھی بتاتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک منصوبہ کے تحت ہورہا ہے۔سرحدی گولہ باری کے
واقعات کا گراف خود بتارہا ہے کہ یہ سارا کچھ محض اتفاقی کھیل نہیں ہے اور
نہیہبلا اشتعال فائرنگ کے واقعات ہیں۔ بھارت کے بڑے سیاست کار،دانشور اور
فوجی جرنیل کہہ رہے ہیں کہ دو محاذوں پر جنگ (یعنی چین اور پاکستان)کوئی
اچھااور قابل عمل خیال نہیں ہے کیونکہ ہندوستانی فوج کے سربراہ کہہ چکے ہیں
کہ وہ دو محاذوں پر جنگ لڑنے کیلئے بالکل تیار ہیں۔اُس وقت وہ بھوٹان کے
پٹھار میں چینی فوج کے ساتھ تصادم کی شکل میں صف آراء تھے لیکن72دنوں کے
بعد انہوں نے وہ محاذ یکسر چھوڑ دیا۔لیکن جنگ نہ کرنے کی اہم آراء کا مقصد
یہ بھی ہے کہ یہ لوگ اس بات سے واقف ہوچکے ہیں کہ ہندوستانی ریاست کا اصل
کنٹرول کرنے والاحصہ یعنی آر ایس ایس جنگ چاہتا ہے جس سے وہ انہیں باز
رکھنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ریاستیں مضامین پڑھ کر پالیسیاں نہیں بناتی
ہیں۔ان کے پیچھے الگ مقاصد اور منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ چونکہ آر ایس ایس
1925میں ناگپور میں اپنے قیام کے روز اول سے ہی مسلم کش اور مسلم دشمن ہندو
نسل پرستی کو بطور نظر یہ اپنائے ہوئے ہے،اس لئے انہیں لگتا ہے کہ اب جبکہ
وہ اقتدار میں ہیں،انہیں بابری مسجد کے انہدام کی طرح پاکستان کے ساتھ جنگ
کے ارادوں اور امنگوں کو ٹھوس شکل دینی چاہئے۔اس کام کیلئے رائے عامہ،فوج
اور سیاسی حکومت تیار ہے بلکہ چند سالوں سے جنگ کرنے کا عوامی مطالبہ میڈیا
نشر کرتا آیا ہے۔جنگیں ہمیشہ سرحدوں پر شروع ہوتی ہیں اور انہیں مکمل جنگ
میں بدلنے کیلئے کچھ عرصہ ضرور درکار ہوتا ہے۔ایسا نہیں ہوتا ہے کہ ایک بٹن
دباتے ہی جنگ شروع ہوگئی۔ہندوپاک کی جنگی تاریخ بھی بتاتی ہے کہ جب بھی
جنگیں شروع ہوگئیں،انہیں مکمل جنگ کی شکل اختیار کرنے میں کئی ماہ یا کئی
سال بھی لگ گئے۔پی جی رسول کہتے ہیں کہ اس کی سب سے بڑی مثال ہندوستان اور
چین کے درمیان اکتوبر1962کی جنگ ہے۔یہ جنگ اصل میں نومبر1959میں ہی شروع
ہوئی۔اس کے بعد1960میں گوا پر ہندوستانی فوجی قبضہ کے بعد دباؤبڑھتا گیا۔اس
وقت چین بار بار یہ کہتا رہا کہ سرحدوں پر بھارت آگے بڑھاؤکی جارحانہ
پالیسی پر گامزن ہے۔یہ وہ زمانہ تھا جب چین زبر دست فوجی انقلاب سے گزر کر
کافی کمزور تھالیکن سرحدی صورتحال نومبر1959سیآہستہ آہستہ اکتوبر1962میں
مکمل جنگ میں بدل گئی۔یوں 1962کیبھارت و چین جنگ سرحدی جنگ سے مکمل جنگ میں
بدلنے کیلئے تین سال لگ گئے۔اسی طرح1947-48میں پاک بھارت کی جنگ کو مکمل
جنگ میں بدلنے کیلئے کم ازکم چھ ماہ سے زائد کاعرصہ لگ گیا۔جب
اکتوبر1947میں مہاراجہ ہری سنگھ کے الحاق کو جواز بنا کر بھارت نے کشمیر
میں اپنی فوجیں داخل کیں تو اپریل 1948کے اواخر میں پاکستان ہندوستان کے
مدمقابل آگیا۔تب تک صرف قبائلی مزاحمت کار ہی میدان میں تھے۔یوں1947-48کی
جنگ ایک ایسی صورتحال تھی جو دراصل اگست1947سے ہی جنگ کیلئے میدان ہموار
کررہی تھی۔ایک اور اہم تاریخی دلیل سے یہ مسئلہ مزید سمجھنے میں آسانی
ہوگی۔ستمبر1965کی جنگ دراصل اپریل1965میں گجرات کے علاقہ کچھ سے شروع ہوچکی
تھی۔اس طرح سے چھ ماہ کے اندر اند ر یہ مکمل جنگ میں تبدیل ہوگئی جبکہ
دسمبر1971کی بنگلہ دیش جنگ مارچ1971سے اصل میں شروع ہوچکی تھی۔یہ سب اہم
تاریخی نشان بتارہے ہیں کہ موجودہ جنگی دھمکیاں اورسرحدی جنگ صرف خلاف
ورزیوں کے واقعات نہیں ہیں بلکہ عملاً ایک جنگ ہے جو جاری ہے۔اب خدا
نخواستہ یہ کب اور کس طرح ایک ہمہ گیر و مکمل جنگ میں بدلتی ہے،اس کا فیصلہ
وہ مقاصد اور عوامل کریں گے جو یہ جنگ شروع کرنے کے اندرونی خاکوں میں
موجود ہونگے۔
سرحدوں کے دونوں جانب کے لوگ ایک مکمل جنگ کا سامنا کررہے ہیں۔اس میں کوئی
دورائے نہیں ہوسکتے ہیں۔اس سلسلے میں یہ بات غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے کہ
دوسال قبل ہندوستانی فوج نے پاکستان کے خلاف ایک اہم جنگی نظریہ پیش
کیاتھاجس پر ملکی اور عالمی سطح پر بہت تبصرے ہوئے۔کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرین،یعنی
سرحدوں پر ایک ایسی جنگ جو مکمل جنگ نہ ہو بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ
سرحدوں پر ایسے چھوٹے چھوٹے علاقوں،چند اہم دفاعی پوزیشنوں،ندی نالوں یا
پہاڑیوں پر قبضہ کیاجائے جو عالمی سطح پرجنگ تصور نہ ہوں لیکن ہندوستان کے
طویل جنگی مقاصد پورے کرتے ہوں۔اس طرح سے سیاچن سے لیکر سانبہ(جموں) تک
ایسی بے شمار پہاڑیاں اور فوجی اہمیت کے درے ہیں جن پر قبضہ کیاجاسکتا ہے
اور اُن تمام پر بھی نہیں بلکہ مخصوص حصوں میں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت
صرف اسکردو (گلگت بلتستان)کے میدانی علاقے پر قبضہ کا خواہشمند رہا ہے۔کولڈ
سٹارٹ ڈاکٹرین ،کے تحت یقینی طور پر ایک بڑی جنگ کا خطرہ مول لئے بغیر ہی
پاکستان کو شکست سے دوچار کیاجاسکتا ہے۔اس کیلئے بڑی جنگ کی ضرورت نہیں ہے
اور اگر جواباً پاکستان کوئی بڑا ردعمل دکھاتا ہے تواس کو بھارت آسانی کے
ساتھ قابو میں لاسکتا ہے۔یہ بات محض قیاس ہے کہ چین پاکستان کے دفاع کیلئے
اپنی فوجیں میدان میں اتار سکتا ہے کیونکہ کسی چھوٹی سی پہاڑی،ندی نالے یا
درے پر قبضہ کو بڑی جنگ کے طور پر نہیں دیکھا جائے گا۔غالباًموجودہ جنگ کے
بھی فوجی مقاصد یہی ہیں جبکہ اس کے نظریاتی مقاصد ہمالیائی ہیں یعنی
مسلمانوں کو شکست دینا جو خواب پرتھوی راج چوہان کے دور سے باقی ہے،آر ایس
ایس ا سکو پورا کرے گی۔مسجد کے انہدام سے لگتا ہے کہ بابر کو ہرایا نہیں
جاسکا ہے۔
اس تناظر میں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ رواں سال 26جنوری کو بھارتی
یوم جمہوریہ کے موقعہ پر آ ر ایس ایس نے ایک بڑی پریڈ کی اور اس کے سربراہ
نے کہا کہ آر ایس ایس کے مسلح رضاکار ایک جنگ لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ایسے
بیانات ہوا میں نہیں اچھالے جاتے ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی کے سینئر نسل
پرست لیڈڑ سبھرا منیم سوامی ٹی وی پر کئی بار کہہرہے تھے کہ پاکستان کے
خلاف مارچ یا اپریل(2018)میں جنگ چھیڑی جائے گی۔وہ فیصلہ لینے کی اتھارٹی
نہیں ہیں لیکن آر ایس ایس کے اندرونی حلقوں میں جو کچھ کہاجارہا ہے،وہ اس
سے ضرور واقف ہیں۔اس حوالے سے یہاں پر انا ہزارے کا وہ بیان بھی کافی اہمیت
رکھتا ہے۔انہوں نے جموں میں کہا کہ اگر پاکستان امن کی بات نہیں مانتا ہے
تو جنگ ایک آپشن (ضرورت)ہے۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ گزشتہ کانگریس سرکار
کے خلاف عوامی رائے عامہ تیار کرنے کیلئے بی جے پی نے انا ہزارے کو استعمال
کیاتھا۔ان کا بیان یہ عندیہ دیتا ہے کہ انا ہزارے کے ذریعے جنگ کیلئے عوامی
رائے عامہ کو مزید مہمیز دی جارہی ہے کیونکہ جنگ کے عملی منصوبہ پر عمل
جاری ہے۔اسلام آباد اس حقیقت سے بہت اچھی طرح واقف ہے۔اس لئیچند پریشانیاں
قابل فہم ہیں کیونکہ ملک اس وقت ہر طرف کے خراب حالات سے گھرا ہوا ہے۔
ایٹمی صلاحیت والے بیلسٹک میزائل ابابیل کا تجربہ کرکے بھارت کو یہ عملی
پیغام دیا گیاہے کہ حدود سے تجاوز کو کسی بھی طور پر ہلکا نہیں سمجھا جائے
گا۔امریکہ کے ڈیفنس انٹیلی جنس(DIA)کے سربراہ رابرٹ اشلی نے کانگریس کو چھ
مارچ2018کو بتایا تھاکہ پاکستان نے جوہری صلاحیت والے2200کلو میٹر رینج کے
ہمہ گیر ابابیل میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔اس وقت ابابیل سے یہ پیغام
دلانا مقصود ہے کہ سرحدی جنگ کے مقاصد زیادہ بڑھے تو مکمل جنگ ہوگی۔بھارتی
فوج میں کئی جرنیل ملٹری ڈپلومیسی کو اہمیت دینے کی بات کرتے ہیں۔ مگر ان
کا اصل نشانہ سی پیک ہے۔ چین کا میڈیا بھی بھارت کو کسی جنگ سے باز رہنے کے
لئے خبردار کرتا ہے کہ پیپلز لبریشن آرمی شمال مشرقی خطے کو بھارت سے کاٹ
سکتی ہے۔ بھارت ڈوکلام کو فراموش نہیں کر سکتا۔ جہاں بھارت اور چین کے
درمیان جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔ ارونا چل پردیش پر چین کا دعویٰ ہے۔ چین اس
ریاست کو جس پر بھارت کا قبضہ ہے، جنوبی تبت کا نام دیتا ہے۔ چین کے حکمران
شی جن پینگ سے بھارت اس لئے بھی خوفزدہ ہے کہ وہ 1979میں چین کی وزارت دفاع
میں سیکریٹری تھے جب چین نے ویتنام کو فتح کیا۔ دفاعی ماہرین اعتراف کرتے
ہیں کہ بھارت کا گزشتہ برسوں میں بجٹ کا فوکس سرحدوں پر انفراسٹرکچر کی
تعمیر ہے۔ وہ سرحدوں، ٹنلز، ڈیفنس راہداریوں، لداخ میں اس دھانچہ کی تعمیر،
مقبوضہ کشمیر میں زوجیلا پاس اور اروناچل پردیش میں سیلا پاس تعمیر کر رہا
ہے۔ افغانستان میں امریکی موجودگی اور بھارت کا امریکہ پر بڑھتا انحصار بھی
خطے کو جنگ کی طرف دھکیلنے کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ
بھارت کو بات چیت کی میز پر لایا جائے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو امن
کے پیغامات دیئے۔ مگر بھارت کے تیور مختلف ہیں۔بھارتی عام انتخابات 8ماہ
بعد ہو رہے ہیں۔ مگر سرحدوں اور جنگ بندی لکیر پر جنگ جیسی صورتحال موجود
ہے۔ پاکستان کو توڑنے کی اہم کردار اندرا گاندھی کے مشیر اشوک پارتھاسارتھی
جو بھارتی سفارتکار جی پارتھا سارتھی کے بیٹے ہیں، کی اپنے باپ کی زندگی پر
لکھی گئی کتاب میں انکشاف کیا گیا کہ اندرا گاندھی پاکستان توڑنے کے فوری
بعد روس کی حمایت سے پشاور کی طرف پیش قدمی کرنے کے لئے مشاورت کر رہی تھیں۔
تا کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضہ کیا جا سکے۔ بھارت کا اب بھی
یہی خواب ہے۔لیکن پاکستان کا ردعمل بھی بھارت کے لئے حیران کن ہو گا۔ |