ٹمپلرزاور فری میسن

فری میسن ایک بین الاقوامی صیہونی تنظیم ہے جس کا مقصد پوری دنیا پر یہودی عالمی حکمرانی کے قیام کے راہ ہموار کرنا اور معاونت کرنا ہے ۔اس کے آغاز اور کام کے حوالے عنایت اللہ کامران کی خصوصی(مختصر مگر جامع) تحریر۔

یروشلم مسلمانوں ،عیسائیوں اور یہودیوں تینوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے نہایت مقدس شہر ہے،ان دنوں کی بات ہے جب یہ مقدس شہر مسلمانوں کی قلمرو میں شامل تھا،1095 ء اآس وقت کے پوپ اربن دوئم نے یروشلم کی آزادی یعنی مسلمانوں کے قبضے سے آزاد کرانے کی تحریک کا آغاز کیااس مقصد کے لئے ’’پوپ اربن دوئم‘‘ نے کیا کیا پاپڑ بیلے یہ ایک الگ داستان ہے بہرحال ان کی کال پر لبیک کہنے والے پہلے گروہ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اگلے مرحلے میں نائیٹس (یورپین سردار) اس جنگ میں کود پڑے اور انہوں نے فلسطین کے ایک چھوٹے سے علاقہ پر قبضہ کرکے وہاں حکومت قائم کردی۔یہ جنگویانہ مہم جاری رہی اور نائیٹس کی تعداد میں اضافہ ہونے لگالیکن ایک خاص وقت پر ان نائیٹس کو پتہ بھی نہ چلا اور ان کی یہ تحریک یا مہم ہائی جیک کرلی گئی اوراس میں مختلف گروہ شامل ہوگئے انہی میں سے گروہ ’’ٹمپلرز‘‘ کا تھا،ٹمپلرز کا مطلب ’’معبدی سردار ‘‘ ہے۔ٹمپل کا مطلب عبادت گاہ ہے چونکہ یہ گروہ یروشلم جو ایک مقدس شہر تھا کی آزادی کے لئے جنگ لڑرہے تھے اس لئے انہیں ’’ٹمپلرز‘‘ یعنی عبادت گاہ سے منسلک یا وابستہ گروہ کا نام دیا گیا۔اس تحریک کو ہائی جیک کرنے والے یہودی تھے اور ’’ٹمپلرز‘‘ انہی سے تعلق رکھتے تھے یا انکے آلہ کار تھے ۔اس گروہ کے متعلق بہت سی داستانیں موجود ہیں لیکن سردست ان سطور میں ان کا ذکر نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ ہمارا موضوع نہیں۔

چونکہ ’’ٹمپلرز‘‘کو انتہائی عقیدت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ،لہذٰا انہوں نے رفتہ رفتہ معاشرے میں اور بعد ازاں حکومتوں میں پنجے گاڑنا شروع کردئیے۔دنیا میں بنکاری نظام کا سب سے پہلا تصور اسی گروہ نے دیا،اور انہوں نے جو طریقہ کار اختیار کیا وہ اتنا زبردست تھا کہ ’’ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے ، دراصل مذہبی عقیدت کی بنا پر لوگ ان پر اعتمادکرنے لگے اور اپنی امانتیں جس میں سونا خاص طور پر شامل ہے انکے پاس رکھوانے لگے،یہ لوگ سونا بطور امانت اپنے پاس رکھ کر لوگوں کو ایک رسید لکھ دیتے تھے،رسید کے حامل شخص کو جب کبھی کوئی خرید وفروخت کرنا پڑتی تو وہ بجائے سونا نکلوانے کے اسی رسید کو آگے استعمال کرتا تھا ،ٹمپلرز نے جب دیکھا کہ جو سونا انکے پاس امانت آتا ہے وہ بہت کم واپس لیا جاتا ہے اور کاغذی رسیدوں کے ذریعے لین دین ہوتا ہے تو انہوں نے اپنے پاس موجود سونے کی بہت سی رسیدیں بنابنا کر ضرورت مند لوگوں کو سود پر قرض دینا شروع کردیا،کچھ عرصہ بعد انہوں نے امانتوں کے عوض چارچز بھی لوگوں پر عائد کردئیے یوں بنکاری کا ابتدائی سلسلہ انہوں نے شروع کردیا،اس کاروبار سے یہ اتنے طاقتور ہوگئے کہ کئی بادشاہ اور حکومتیں بھاری سود پر ان سے قرض لینے لگے ،اس کے بدلے میں سود کے علاوہ یہ حکومتوں سے عوام سے ٹیکس وصول کرنے کا اختیار طلب کرتے تھے اس طرح پورے ملک پر انکی گرفت مضبوط ہوتی جاتی تھی،حکومتوں کو قرض لینے پر مجبور کرنے کے لئے یہ لوگ ممالک کے درمیان جنگیں بھی کرادیتے تھے اور اس موقع پر یہ حکومتوں اور بادشاہوں کو انتہائی کڑی شرائط اور بھاری سود پر قرض دیتے تھے،لاکر سسٹم اور ہنڈی(حوالہ کا سسٹم) بھی انہی کی ایجاد ہے،اس طرح اس گروہ نے تمام یورپ کے تمام حکمرانوں اور معاشی نظام پر کنٹرول حاصل کرلیا،فرانس کے بادشاہ فلپس چہارم کو کسی طرح اس گروہ کی چالبازیوں کی بھنک پڑ گئی اور اس نے ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا،اس نے سب سے پہلے اس وقت کے پوپ ’’بونی فیس ہشتم‘‘ اور بعد ازاں اس کے جانشین ’’بینی ڈکٹ‘‘ کو راستے سے ہٹایا اور نئے پوپ ’’کلیمنٹ پنجم‘‘ کا تقرر کیا ،کافی تحقیق اور چھان پھٹک کے بعد فلپس چہارم کے حکم پر 13 اکتوبر1307 ء کو پورے فرانس میں بیک وقت اس گروہ کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا اور اس تنظیم کو کالعدم قرار دے کر بے شمار ٹمپلرز کو مختلف الزامات ثابت ہونے پر موت کی سزا دی گئی۔’’جیکس ڈی مولائے ‘‘اس گروہ کا آخری گرینڈ ماسٹر یا سربراہ چابت ہوا ،اسے آگ پر رکھ کر کباب کی طرح بھون دیا گیا،اس کے بعدگروہ کے باقی بچ رہ جانے والے لوگوں نے اپنی سرگرمیاں بالکل ختم یا کم کردیں اور روپوش ہوگئے یا زیر زمین چلے گئے۔

اس گروہ کا نیا جنم ایک مختلف اور منظم ،فعال ،متحرک اور انتہائی خوفناک انداز میں ہوا،ہوا یوں کے اس گروہ کے زندہ رہ جانے لوگ اسکاٹ لینڈ بھاگ گئے تھے ،اسکاٹش آزادی کی جنگ لڑررہے تھے اس گروہ نے انکے لئے کمک کا کام دیا اور ان کی مدد سے انگریزوں کے خلاف اسکاٹ لینڈ کو فتح حاصل ہوئی اور 25000 انگریز فوج کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا،اس طرح اس گروہ کو اسکاٹ لینڈ ایک بار پھر پھلنے پھولنے کا موقع مل گیا لیکن یہ محتاط رہے ،اسکاٹ لینڈ کا بادشاہ انکے مکمل کنٹرول میں برطانوی ملکہ الزبتھ اول کی اچانک موت کے بعد اسکاٹش بادشاہ جیمز پنجم برطانیہ کا بادشاہ بن گیا اور یوں ٹمپلرز نے پورے برطانیہ پر کنٹرول حاصل کرلیا۔لیکن پھر بھی یہ گروہ اتنا محتاط رہا کہ انکے وجود کی کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی ،1717 ء میں یہ نئے نام سے سامنے آئے،انہوں نے اپنا پہلا نام یعنی ’’ٹمپلرز‘‘ ختم کردیا اور نیا نام ’’فری میسن‘‘ یعنی مفت کے معمار دوسرے الفاظ میں ’’خدائی خدمتگار‘‘رکھ لیا۔دوسرے جنم میں یہ لوگ پہلے سے زیادہ منظم،متحرک،فعال اور مضبوط ہوچکے تھے،فری میسنز نے اسکے بعد دنیا میں جو تباہی مچائی اس کی کو ئی مثال نہیں ملتی،پوری دنیا پر کنٹرول حاصل کرنے اور اپنی حکمرانی قائم کرنے کے لئے انہوں نے بڑی طویل اور پیچیدہ منصوبہ بندی کی اور رفتہ رفتہ دنیا بھر کے ممالک میں اپنا اتنا اثر ورسوخ بڑھا لیا کہ حکومتی پالیسیوں پر یہ حاوی ہوگئے،پہلی اور دوسری جنگ عظیم کا آغاز،سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ،عربوں اور عجمیوں کے درمیان تعصبات پیدا کرنا،انہی کے کارنامے ہیں،دنیا بھر میں اس تنظیم کے ممبران موجود ہیں ،مختلف ممالک میں انکے ’’لاج‘‘ موجود ہیں جنہیں ’’فری میسن لاج‘‘کہا جاتا ہے پاکستان میں کراچی میں بھی ان کا لاج موجود تھا لیکن حکومت نے اسے بند کردیا تھا،ان لاجز میں میں تنظیم سے وابستہ ہونے والے افراد کو لے جاکر عجیب وغریب قسم کی مذہبی رسومات ادا کی جاتی ہیں۔’’فری میسن لاج‘‘ ایک الگ کالم کا متقاضی ہے اس لئے اس پر پھر کبھی لکھیں گے۔فری میسن سے وابستہ افراد کے لئے برادری کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے،برادری سے مراد فری میسنری لوگ ہیں۔پاکستان میں بھی فری میسن لاج قائم تھا اور یہاں فری میسنری متحرک تھے تاہم 1974 ء میں اس تنظیم پر پابندی لگا دی گئی ۔
’’فری میسن تحریک‘‘ اصل میں صیہونی عزائم کی تکمیل کے لئے کام کرتی ہے اور سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ پوری دنیا پر صیہونیت کا ’’ورلڈ آرڈر‘‘ نافذ ہوجائے،اس مقصد کے لئے 1795 ء سے جدوجہد شروع کی گئی ،پرٹوکولز منظور کئے گئے اور آج اس کے نتیجہ میں پوری دنیا پر انکی گرفت اتنی مضبوط ہوچکی ہے کہ امریکہ کا صدر بھی ان کی مرضی کے بغیر کوئی حکم جاری نہیں کرسکتا۔فری میسن ظاہراً انسان دوست بن کر سامنے آتے ہیں لیکن ’’ایک ہاتھ مصافحے کے لئے بڑھاتے ہیں جبکہ دوسرے ہاتھ سے پیٹھ میں چھرا گھونپ دیتے ہیں‘‘۔اس وقت دنیا کاکوئی ملک اور خطہ ان کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہیں ہے۔
 

عنایت اللہ کامران
About the Author: عنایت اللہ کامران Read More Articles by عنایت اللہ کامران: 12 Articles with 11778 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.