ترچھی ٹوپی والے بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت (General
Bipin Rawat)نے پاکستان کے خلاف جو گیدڑ بھبھکیاں شروع کی ہوئی ہیں ان سے
اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت نے اپنا کام آرمی چیف کو سونپ دیا ہے ۔
جنرل راوت چند دن سے ترچھی ٹوپی پہن کا کسی سبزہ زار پر جہاں دور دور کوئی
آدم نہ آدام زاد ہی کیا پرندہ بھی نظر نہیں آرہا ہوتا ہے کبھی کسی کبھی کسی
ٹی وی اینکر کے سامنے کھڑے ہوکر پاکستان کو گیدڑ بھبھکیاں دیتا دکھائی دیتا
ہے۔ جنرل راوت جیسے نا معلوم کتنے بھارتی آرمی چیف اور جنرل اس عہدہ پر آئے
، آج ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا، حتیٰ کہ ان کے جسم کی خاک بھی
گنگا میں تہہ در تہہ دفن ہوچکی۔ یہی کچھ جنرل راوت کا بھی ہوگا۔ بات شروع
ہوئی تھی پاکستان میں نئی جمہوری حکومت کے قیام سے جس میں تیس سال سے
حکمرانی کرنے والی جماعتوں کو شکست ہوئی اور عمران خان کی سیاسی جماعت
پاکستان تحریک انصاف نے اقتدار حاصل کیا۔ عمران خان کا اقتدار میں آجانا
پاکستان کی شکست خوردہ جماعتوں کا کھٹنا تو جائز تھا لیکن بھارتی حکومت کو
پاکستان میں سیاسی تبدیلی اور عمران خان کا اقتدار میں آجانا سینے پر
چھریاں چلا گیا۔ بھارتیوں کی تلملاہٹ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ نریندر مودی
کا خیال تھا کہ اب کہ پھر پاکستان میں وہی حکومت آجائے گی اور پاکستان
کشمیر پر روایتی جملے بازی کر کے خاموش ہوتا رہے گا ۔میاں نواز شریف سے
ذاتی دوستی قائم رہے گی۔ لیکن ایسا نہ ہوا ، مودی کے سارے ارمان چکنا چور
ہو گئے۔
سلسلہ شروع اس وقت ہوا جب پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے مودی
جی کو پتر بھیجا گیا جس میں بھارت سرکار کو تمام باہمی تنازعات کو بات چیت
کے ذریعہ طے کرنے کی تجویز دی اور جواب میں اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع
پر دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات پر آمادگی کا اظہار کیا اور پھر
ایک دم ملاقات سے راہ فرار اختیار کرنے اور فضول قسم کے بہانوں کے ساتھ
ملاقات نہ کرنے کا اعلان کردیاگیا۔ بھارت کے اس فیصلے پر پاکستان کا اظہار
ناراضگی فطری تھا ،وہ ہوا۔ بھاتی حکومت کو اس کے غلط فیصلے پر تنقید کا
نشانہ بنا یاگیا۔ عمران خان نے بھی بھارت کے اس فیصلے پر سخت الفاظ میں
تنقید کی ۔ ’ انہوں نے بھارتی رویے کو متکبرانہ اور منفی قرار دیا‘جو کہ
تھا۔ اب کیونکہ بھارتی حکومت کے پاس کوئی معقول جواب نہیں تھا ، ملاقات سے
کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم رک نہیں جانا تھا، یہ ملاقات ایک رسمی ملاقات
ہوتی جیسے دیگر ملکوں کے ہم منصب آپس میں ملا قات کرتے ہیں۔ دنیا نے بھی
بھارتی رویے کو اچھا تصور نہ کیا۔ اب بھارت کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔
انہوں نے اپنے آرمی چیف کو یہ ٹاسک سونپ دیا کہ وہ پاکستان کو نشانے پر لے
اور لفظی گولا باری شروع کردے۔ یہی ہوا، جنرل راوت نے آو دیکھا نہ تاؤ بیان
داغ دیا۔کہا کہ ’’وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو اسی کی زبان میں جواب دیا جائے
اور اسے بھی وہی درد محسوس کرایا جائے جو ہم جھیل رہے ہیں‘‘۔ غور طلب بات
یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں سربراہان یا وزرائے خارجہ نے شریک ہونا
تھا۔ اس میں طے ہوا کہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ ملاقات کریں گے،
بھارت کو بعد میں احساس ہوا کہ اس ملاقات میں تو بھارت کو شرمندگی اٹھانا
پڑے گی، اسے جواب دینا ہوگا کہ وہ پاکستان کے اندرانی معاملات میں چھیڑ
خانی کررہا ہے، بلوچستان میں بلاجواز مداخلت کررہا ہے۔کلبھوشن کا معاملا
اٹھا یاجاسکتا تھا، مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر ظلم و بر بریت کے
بارے میں سوالات ہوسکتے تھے۔ اس لیے اس نے فیصلہ کیا کہ ملاقات نہ کی جائے
، چلیے نہ کریں ملاقات ۔ لیکن یہاں بھارتی آرمی چیف جنرل راوت کا عمل دخل
کہاں سے آگیا؟ اسے بیٹھے بٹھائے کیا پریشانی لاحق ہوگئی، اسے کون سا درد
اٹھا ، اگر درد اٹھ ہی رہے تھے تو اسے چاہیے تھا کہ وہ کسی بڑے اسپتال
جاکراپنے دردوں کا علاج کراتا ۔ کیا یہ درد پاکستان کی وجہ سے اٹھ رہے تھے۔
پاکستان آجاتا یہاں علاج ہوجاتا، ویسے جنرل راوت کے دردو ں کا علاج پاکستان
نے ہی کرنا ہے لیکن وقت آنے پر ، جنرل راوت ابھی ہم تمہیں اس کا وقت نہیں
بتا رہے لیکن خوب علاج ہوگا کہ جنرل راوت کی اگلی پچھلی سب نسلیں یاد رکھیں
گی۔
جنرل راوت کے درد بند نہیں ہوئے بلکہ وقفہ وقفہ سے جاری ہیں اورکوئی نئی
بات نہیں ہوتی ، پاکستان کے خلاف زہر افشانی کرنا، یہ کردیں گے وہ کردیں
گے۔ گیدڑ بھبھکیوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ جنرل راوت نے دوبارہ کہا کہ
’’پاکستان میں ایک بار پھر سرجیکل اسٹرئیک کی ضرورت ہے لیکن وقت نہیں بتا
سکتا۔ کہتا ہے کہ پاکستان وہی کررہا ہے جو کرتا آیا ہے ۔ جنرل راوت نے یہ
بھی کہا کہ ہم اپنی اگلی کاروائی کی تفصیل بتا نہیں سکتے، بھارتی فوج کی
کاروائی میں ہمیشہ سرپرائز ہوتا ہے ‘‘۔جنرل راوت ہمیں تیرا چیلنج قبول ہے۔
ہمیں وقت مت بتا نا ، ہمیں تفصیل کی بھی ضرورت نہیں ، ہم تیرے اندر کیا ہے
اس سے بھی واقف ہیں، زیادہ سے زیادہ تم بھارتی رات کی تاریکی میں حملہ کرو
گے ، وہ تو تم بھگوڑوں کا پرانا وتیرا ہے۔ تمہاری خصلت ہے، تم سامنے سے وار
کرنے والے نہیں ، تم میں اتنی جرت اور ہمت ہی نہیں ، ہمیں معلوم ہے کہ تم
پیچھے سے اور چھپ کر وار کرنے والے ہو۔ اپنی حسرت پوری کر لینا، لاہور میں
بھی تو رات میں ہی آئے تھے پھر کیسے دم دبا کر بھاگتے دکھائی دیے تھے۔ یاد
ہے نہیں، اگر یاد نہیں تو اپنے پرکھوں سے پوچھ لو، سب کچھ بتا دیں گے۔ جنرل
راوت یقین رکھو تمہاری یہ حسرت کبھی پوری نہیں ہوگی۔تمہیں نہیں معلوم
پاکستانی افواج دنیا کی بہترین افواج میں سے ہے۔ تم کیا تمہارے جیسے کئی
سورما بھی پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔دنیا کو معلوم ہے کہ دونوں ممالک
بھارت اور پاکستان ایٹمی طاقت ہیں۔ اب وہ زمانہ چلا گیا ، ٹینکوں والا،
بمباری کرنے والا ، اب تو ایک بٹن دبے گا ، کام تما م ہوجائے گا۔ جنرل راوت
کے زہریلے بیانات پر پاکستان کی جانب سے جذبات سے عاری بیانات دیے گئے ،
البتہ عمران خان صاحب نے راوت کے لیے جو کہا اس کا مفہوم کچھ اس طرح سے
بنتا ہے کہ چھوٹا قد اور منہ شگافیاں لمبی لمبی ، ان کے ٹوئیٹ کے الفاظ یہ
تھے کہ ’’بڑے عہدے پر بیٹھے چھوٹے شخص کی سوچ چھوٹی ہی رہتی ہے‘‘۔ دیکھا
جائے تو اس میں کوئی غلط بات نہیں ، جنرل راوت کا تعلق ہی کیا تھا اس
معاملے میں دخل اندازی کرنے کا ۔ سیاسی حکومت جانے ان کا کام جانے۔ پاکستان
کے وزیر خارجہ نے بھی جنرل راوت کے بیان کو غیر ذمہ دارنہ قرار دیتے ہوئے
کہا کہ اگر’’بھارت ہمارے عزم کی آزمائش چاہتا ہے تو اسے خوش آمدید کہتے
ہیں، بھارتی آرمی چیف کی خوش فہمی با آسانی دور کردیں گے‘‘۔ ویسے تو ہر
پاکستانی بھارتی آرمی چیف کی زہر افشانیوں پر سخت سے سخت موقف رکھتا ہے
لیکن مدہوشی کا جواب ہوش میں دینا عقل مندی ہوتا ہے۔ جنرل راوت پر آرمی چیف
ہونے ترچھی ٹوپی اور وردی کا بھوت سوار ہے اس لیے اسے کچھ دکھائی نہیں رے
رہا ۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے ایک معتدل اور
معقول جواب دے کر جنرل راوت کے چودہ طبق روشن کر دیے ۔ میجر جنرل آصف غفور
کا کہنا تھا کہ ’’ بھارت ہمارا عزم آزمانا چاہتا ہے تو آزما لے لیکن اس کا
نتیجہ و ہ خود دیکھے گا، بھارت کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔ ہم پاکستان کے
خلاف کسی بھی بھارتی مس ایڈونچر کا جواب دیں گے۔ بھارت ریاستی دہشت گردی کے
ذریعے ہمیں نشانہ بنا رہا ہے لیکن اس میں بھی وہ ناکام ہوچکا ہے‘‘۔بھارتی
حکومت خاص طور پر بھارتی آرمی چیف کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ممکن ہے کہ
بھارت کے پاس گولا بارود کے انبار ہوں، ٹینک اور توپیں، راکٹ اور
بمبارطیارے ہو ں لیکن جنرل روات بتاؤ کہ جوش، جذبہ ،جنون ، شہید ہونے کی
امنگ تم کہاں سے لاؤ گے وہ تو صرف اور صرف پاکستانی فوج اور پاکستانی عوام
میں پائی جاتی ہے تمہیں شکست سے دوچار کرنے کے لیے بس یہی کافی ہے۔
بھارت نے ہمیشہ مذاکرات سے راہِ فرار اختیار کی ہے۔ اب کوئی نئی بات نہیں ۔
ایسا وہ ماضی میں بھی کرتا آیا ہے ۔ وجہ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ جب
مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے اور بات چیت ہوگی تو پاکستان مقبوضہ کشمیر میں
ہونے والی بھارتی بربریت کی تفصیل سامنے لائے گا۔ وہ پوچھے گا کہ آخر بھارت
نہتے کشمیریوں پر کب تک ظلم و زیادتی کرتا رہے گا۔ اس بات کا جواب بھارت کے
حکمرانوں کے پاس نہیں اور مذاکرات سے فرار کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔ بھارت
بہت مکار پاکستان کا دشمن ہے۔ ہمیں اس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔ اس کی
فوج کا سربراہ ، بے سرو پا کی چھوڑ رہا ہے، وہ اپنی جگہ لیکن دشمن سے
ہوشیار رہنا بہت ضروری ہے۔ پاکستان آرمی ، پاکستان عوام کو بھارت کے کسی
بھی منفی اقدام کا جواب دینے کے لیے تیاری مکمل رکھنی چاہیے ۔
|