چند روزقبل اپنے ایک عزیز دوست سے ملنے کا پروگرام
بنا وہ میاں چنوں ایک بنک میں جاب کرتے ہیں۔ خانیوال سے میاں چنوں زیادہ
دُور نہیں اِس لیے مَیں شام چار پانچ بجے کے قریب گھر سے نکلا اور پبلک
ٹرانسپورٹ کے ذریعے کم و بیش ایک ڈیڑھ گھنٹے میں میاں چنوں لاری اڈے پہ تھا
۔پہنچنے کے بعد اُن کو کال کی تو وہ بنک کسی پرابلم میں اٹکے ہوئے تھے اِس
انہوں کے معذرت کی اورمجھے کچھ وقت انتظار کرنے کرنے کو کہا۔ مَیں بھی بِنا
ناک مُنہ چڑھائے ساتھ ہی لاری اڈے میں نان ٹکی والی ریڑھی کے سٹول پر بیٹھ
کر انتظار کرنے لگا ۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ اِس طرح کی چیزیں تھرڈ کلاس آئل
اور بیکار مٹیریل سے تیار کی جاتی ہیں اور کبھی بھی لاری اڈوں سے ایسی
چیزیں کھانے کی غلطی نہیں کرتا لیکن نا چاہتے ہوئے بھی مَیں نے دو ٹکیوں کا
کہا تاکہ ریڑھی والا یہ سمجھے کہ میرا گاہک ہے ۔ٹکیاں کھانے کے بعد سٹول پر
ایسے جَم کے بیٹھا رہا جیسے میں سٹول کا مالک بن گیا ہوں۔ آخر تھوڑی انتظار
کے بعد عجیب سی اکتاہٹ سی ہونے لگی اپنے میزبان کو پھر کال کی تو انہوں نے
مزید چند منٹ انتظار کا کہاوجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ کچھ پیسوں کے ہیر
پھیر سے کوئی ایشو بنا ہوا ہے۔ ابھی سٹول پہ بیٹھا انتظار کر رہا تھا اور
طرح طرح کے خیالات میں بھی مگن تھا کہ اُسی اثناایک شخص نمودار ہواجس کو
نان ٹکی والے نے بسوں میں ٹکیاں کمشن پہ بیچنے کے لیے دیں تھیں۔اُس شخص کے
چہرے پہ محرومیاں رقصاں تھیں اور غربت گا بجا رہی تھی ، بال اجڑے ہوئے،
داڑھی بے ترتیب اور الجھی الجھی، جوتے آدھے سے زیادہ گھِسے ہوئے، کپڑے اتنے
پرانے کہ اصل رنگ ایسے غائب تھا جیسے گدھے کے سر سے سینگ، لہجے میں حالات
کی تلخی کی وجہ سے معصومیت تھی ۔ ابھی مَیں ایک غریب اور عام پاکستانی کی
حالت ِ زار دیکھ کے سوچوں میں گم ہی تھا کہ نان ٹکی مالک اور اُس کیشن پہ
ٹکیاں بیچنے والے کے مابین تلخ کلامی شروع ہو گئی۔ مَیں نے معاملے کو قریب
سے دیکھنے کی غرض سے سٹول نزدیک کیا تو وہ دونوں پیسوں کے کم ذیادہ پر بول
رہے تھے ۔ٹکی مالک کا موقف تھا کہ ـ "مَیں نے اِس کو پچاس روپے کی ٹکیاں
دیں تھیں جس میں بیس روپے اِس کا کمیشن تھا اور تیس روپے میرے تھے لیکن یہ
اب آدھے لینے پہ بضد ہے " جب کہ کمیشن والا آدھا کمیشن پچیس روپے لینے پہ
اصرار کر رہا تھا۔اُن دونوں کی گفتگو سُن کر ساتھ کھڑے مسافر بھی جمع ہونے
لگے اور اُن کی تلخ کلامی کی وجہ دریافت کرنے لگے۔ آدھا گھنٹہ کمیشن والا
غریب درد بھرے لہجے میں منت سماجت کرتا رہا لیکن بے سود اور آخر میں ٹکی
مالک جو جسامت اور معاشی طور پر بھی تگڑا تھااُس نے دَبکا لگا کر پانچ روپے
چھین لیے اور وہ غریب بیچارہ کہتا رہا ـ: سارے دن کی بھاگ دوڑ اور بسوں کے
دھکے کھانے کے باوجود صرف 150 روپے کی دیہاڑی لگی ہے ۔لیکن کوئی اُس کی
سنتا تو۔۔اِس سارے واقعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے میرے اندر سے
سسکیوں اور قہقوں کے عجیب امتزاج کی آوازیں آنے لگیں اور میرا ضمیر مجھے
اندر سے جھنجھوڑنے لگا ۔ ایک لمحہ خیال آیا کہ اپنے جوتے اپنے پیسے اِس
غربت و افلاس کے چنگل میں پھنسے ہوئے غلام کے حوالے کر دوں لیکن ایسا نہ ہو
سکا۔اور مَیں یہ سوچنے پہ مجبور ہو گیا کہ اگرہمارے حکمران اِن لوگوں کو
اور کچھ بھی نہ دیں تو کم از کم ترقی اور خوشحالی کا ڈھنڈوراپیٹنے والے
اشتہاروں پہ خرچ ہونے والے چار سو ارب روپے ہی اِن غریبوں کو دے دیتے تو یہ
لوگ کتوں جیسی زندگی نہ گزارتے اور پانچ پانچ روپے کے لیے آدھا آدھا گھنٹہ
ایک دوسرے سے تلخ کلامی نہ کرتے۔۔اور تصویر کے دوسرے رخ میں یہ سوچ کے حیرت
میں مبتلا ہوں کہ پانچ روپے کے لیے ایک دوسرے سے الجھنے والوں کو اُس وقت
کیا ہو جاتا ہے جب وہ اپنی عزت ، جان و مال، اپنے بچوں کا مستقبل اور پیارا
ملک لٹیروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔؟پانچ روپے کے لیے ایک دوسرے کو گھنٹوں
لعنت ملامت اور تیری ماں تیری بہن کرنے والوں سے جب حکمرانوں کی اربوں
کھربوں کی کرپشن کی بات کی جاتی ہے تو بڑی بے غیرتی و بے حسی سے کہتے ہیں "پھر
کیا ہوا سب کرتے ہیں اُنہوں نے کر لی تو کیا ہوا۔۔؟ تو اُس وقت جب اُن کی
حالت دیکھ کے ترس آ رہا ہوتا ہے وہ غم وغصہ میں بدل جاتا ہے اور یہ سوچ کر
چُپ سادھ لی جاتی ہے کہ ہم جیسوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے اور ہم اِسی
ہی کے قابل ہیں ۔ کیونکہ ہم نے سرٹیفائڈ لوٹیروں کی تاج پوشی کی ،ہم
نیسرٹیفائڈ رہزنوں کو کندھوں پہ اُٹھایا، ہم سرٹیفائڈ جاہلوں کو قائد اور
لیڈر جیسے نایاب القابات سے نوازا۔ ہم نے بھوکے نشئی کو روٹی چوری کرنے پہ
نشان ِ عبرت بنا یا اور اقتدار کے نشئیوں لیٹروں کو این آر او سے نوازا۔ ہم
نے سرٹیفائڈ بدمعاشوں کو قانون کی وزاتیں پلیٹ میں رکھ کے پیش کیں۔ہم نے
قاتلوں اور لوٹیروں کو خادموں کے ناموں سے یاد کیا۔ ہم جیسی قوم کوئی ایسے
ہی حکمران ڈیزرو کرتے ہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے : " وَ کَذَلِکَ نُو لّیِ بَعض َ الَظَّا
لِمِین َ بَعضـًا " [الانعامـ:۱۲۹] ترجمہ : ہم ظالموں میں سے بعض کوبعض پر
ولی(حکمران) بنا دیتے ہیں۔
تاجدار ِ ختم ِ نبوت کا ارشاد ِ گرامی ہے " کَمَاتَکُونُوایُولَّی عَلَکُم"
ترجمہ: "جیسے تم خود ہوں گئے ویسے ہی تم پر حکمران بنا دئے جائیں گیـ"
|