حضرت عمرؓ بن خطاب تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیت ،
خلیفہ ثانی اور عشرہ مبشرہ صحابیوںؓ میں سے ہیں ۔ آپؓ ایک با عظمت ، انصاف
پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں ، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں
کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا۔ انؓ کے دور خلافت میں عراق، مصر ، لیبیا ،
شام ، ایران ، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر
مملکت اسلامی میں شامل ہوئے اور اس کا رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزار او ر تیس
مربع میل پر پھیل گیا ۔ آپؓکے دور خلافت میں ہی پہلی بار یروشلم فتح ہوا،
اسی طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباََتہائی
حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگین آ گیا۔ حضرت عمر ؓ نے جس ، مہارت شجاعت اور
عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے
ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔
ایک مرتبہ وہؓ مسجد میں منبر رسولﷺ پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب
شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ اے عمرؓ ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب
تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو کپڑا تم نے پہنا ہوا ہے وہ زیادہ ہے جبکہ بیت
المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا ۔ تو عمرفاروقؓ نے کہا کہ
مجمع میں میرا بیٹا عبداﷲؓ موجود ہے ، عبداﷲ بن عمرؓ کھڑے ہو گئے ۔ عمر
فاروقؓ نے فرمایا بیٹا بتاؤ کہ یہ کپڑا کہا ں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس
ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔
عبداﷲ ؓنے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا
پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا ۔ اور ان کے پاس جو پہننے کیلئے لباس تھا وہ
بہت خستہ حال ہو چکا تھا ۔ اس لئے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا ۔
سال 2013 میں قانون برائے شفافیت اور معلومات تک رسائی پنجاب نافذ کیا گیا
جس کے مطابق ہر عام شہری کسی بھی سرکاری ادارے سے معلومات لینے اور جاننے
کا حق رکھتا ہے سوائے حساس ، ذاتی اور دفاعی معلومات کے ۔ اس قانون کے
متعارف کروائے جانے کے بعد سے اب تک پاکستان میں مذکورہ قانون کے نفاذ
کیلئے کوئی خاص اقدامات نظر نہیں آتے۔ یہ قانون عالمی سطح پر رائج ہے
کیونکہ یہ سرا سر عوامی مفاد اور ملک میں احتساب کو ترویج دینے کیلئے منفرد
حیثیت رکھتا ہے ۔ پاکستان میں ابھی تک اس قانون کے بارے میں آگہی بہت کم
لوگوں تک پہنچی ہے کیونکہ حکومت پاکستان نے ذاتی طور پر ایسا کوئی پروگرام
متعارف نہیں کروایا جس سے لوگوں تک اس قانون کے بارے میں معلومات پہنچ سکے
لیکن اس میں سی پی ڈی آئی نامی ایک نا ن گورنمنٹ ادارے نے بہت حد تک مثبت
اقدامات کئے ہیں ۔
سی پی ڈی آئی اس وقت پنجاب کے تمام اضلاع میں قانون برائے شفافیت اور
معلومات تک رسائی بارے شعور کو عوامی ، سماجی اور صحافتی حلقے میں اجاگر
کرنے کیلئے ہمہ وقت کوشاں ہے۔ ان کی کوششوں سے پنجاب انفارمیشن کمشنر کی
تعیناتی جو پہلے انتشار اور اختلاف کا شکار رہی اب یقینی ہو پائی ہے اور ا
س کیساتھ ساتھ مختلف اداروں میں ضلعی سطحوں پر بھی پبلک انفارمیشن آفیسرز
تعینات کئے جا چکے ہیں تاکہ عوام میں جو سائل بن کر آئیں ان کے سوالوں کا
مداوا بر وقت یقینی بنایا جا سکے۔ لیکن یہ یہاں پر ختم نہیں ہو جانا چاہئے
، قانون سازی اور ان کا اطلاق اسی وقت کیا جاتا ہے جب معاشرے میں ا س کی
ضرورت پیش آتی ہے۔
مختلف سیکٹرز میں مختلف مسائل در پیش تھے ، صحافی جو معاشرے کی آنکھ ، زبان
اور کان کہلاتے ہیں کیلئے اداروں سے معلومات حاصل کرنا اور انہیں عوام تک
باہم نہ پہنچا سکنے کی وجہ سے اداروں میں ٹکراؤ معمول بن چکا تھا۔ اب صحافی
اس قانون کے تحت درخواست گزارتے ہیں لیکن قانون کی پاسداری بھی اداروں کی
اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ کیونکہ کسی بھی ریاست کے ستون اس کے ادارے ہوتے
ہیں اور اگر ادارے ہی قوانین کو پامال کرنا شروع کر دیں تو عوام میں اداروں
کی ساکھ کیسے بہتر رہ سکتی ہے؟ کوئی بھی سماج ، معاشرہ یا ملک جب اپنے ہی
بنائے گئے قوانین کو پامال کرتا ہے تو اس کی رسوائی ہونے سے بھی کوئی نہیں
روک سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اداروں میں بدعنوانی اور استحصال عام ہے کیونکہ
عوام میں اداروں کے بارے حدود و قیود کی آگہی نہیں پائی جاتی اور اداروں
میں با اثر ملازمین جس حد تک چاہیں لوگوں کی معصومیت کا ناجائز فائدہ
اٹھاتے ہیں ۔ بعض دفعہ اداروں کو سائلین کی اس لاشعوریت کی وجہ سے بہت سارے
مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ کسی ادارے کے قوانین کے مطابق جو کام
منع کر دیا گیا ہو اور اس کی قانون سازی بھی کی جا چکی ہو لیکن اس کے
باوجود عوامی دباؤ اسی عمل کے کرنے کیلئے ڈالا جانا اور اداروں کی طرف سے
اس کا گریز رکھنا بھی عوامی فاصلوں کو جنم دیتا ہے ۔
سی پی ڈی آئی اس قانون کی آگہی پھیلانے کیلئے آئے روز مختلف سیمینار اور نت
نئے پروگراموں کا انعقاد کرتی رہتی ہے اور ان کے اس کام کیلئے نہ صر ف
سماجی بلکہ سرکاری سطح پر بھی ان کی خدمات کو سراہا جانا چاہئے اور اب جیسا
کہ پاکستان میں تبدیلی کا نعرہ لگایا جا چکا ہے اور احتساب کے عمل پر زیادہ
سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے تو میں عدالت عالیہ اور ہنوز وزیر اعظم سے یہ
کہنا چاہوں گا کہ آگہی کا کام یا اس قانون کا استعمال و ذمہ داری صرف ایک
خاص گروہ پر نہیں ہے۔حکومت کی بھی اتنی ہی ذمہ داری ہے کہ قانون برائے
شفافیت اور معلومات تک رسائی کی عوامی پریکٹس کو حد درجے آسان بنانے کیلئے
تما م اداروں میں ضلعی سطح پر ذمہ داران منتخب کرے ۔عمرؓ بن خطاب جیسے
حکمران سے اگر بھرے مجمعے میں سوال کیا جا سکتا ہے تو کیا ہمارے ملک میں
سوال کرنا گناہ ہے؟
|