وہ بھی کیا وقت تھا جب محمد بن قاسم نے ایک مسلمان
بیٹی کی فریاد پر سندھ کے ساحل (دیبل ) پر قدم رکھااور سمندری ڈاکوؤں سمیت
راجہ دا ھر کی سلطنت کو پاؤں تلے روند ڈالا ۔ پھر یہاں رہ کر ایسی منصفانہ
حکومت قائم کی جس پر دوسرے مذاہب کے لوگوں عش عش کراٹھے ۔راجہ داھر کا بت
تو محمد بن قاسم نے توڑ دیا لیکن ایک بار پھر سند ھ کی سرزمین بھٹو اور
زرداری خاندان کے مضبوط پنجوں میں ایسی جکڑ چکی ہے کہ آزادی کی کوئی صورت
دکھائی نہیں دیتی اور نہ ہی کوئی محمد بن قاسم جیسا بہادر اور دیانت دار اس
دور میں دکھائی دیتا ہے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ سندھ میں سورج
بھی زرداری خاندان سے پوچھ کر طلوع ہوتا ہے ‘ وہ سیاہ کریں یا سفید انہیں
کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ جمہوریت کالبادہ انہوں نے اپنے جرائم اورکرپشن کو
چھپانے کے لیے اوڑھ رکھا ہے ۔ ایک سے بڑھ کر ایک ڈاکو اور لٹیرا انکی آستین
میں چھپا ہے ۔ نیا پاکستان تو بن چکا لیکن سندھ میں نجات کی کوئی صورت
دکھائی نہیں دیتی ۔ انتظامی اور حکومتی عہدوں پرایسے افراد کو چن چن کر
لگایاجاتاہے جو خودبھی کھاتے ہیں اور اپنے آقاؤں کی تجوریاں بھی بھرتے ہیں
۔حکمرانوں کا طرز سیاست انسانی جذبوں سے نہ پہلے ہم آہنگ تھا اور نہ انکے
دل میں عوام کی ہمدردی ۔ تھر میں غذائیت کی کمی اور مناسب علاج کی عدم
دستیابی کی بنا پر صرف ایک دن میں پانچ بچے موت کی وادی میں جابسے ۔ جبکہ
نو مہینوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 500 سے تجاوز کرچکی ہے ۔سندھی
حکمرانوں کا دل اس قدر پتھر ہوچکا ہے کہ انہیں تھر میں مرنے والے بچوں کا
کوئی احساس نہیں۔اگر کوئی دوسرا یاد کروا دے تو سعید غنی جیسے لوگ منہ کو
چڑ آتے ہیں ان کے بیانات مرنے والوں کے زخموں پر مزید نمک چھڑکتے ہیں ۔
گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی میں ایک اپوزیشن رکن نے توجہ دلاؤ نوٹس پر کہا کہ
سندھ کے ساتھ اتنی زیادتی انگریز دور میں نہیں ہوئی جتنی پیپلز پارٹی نے
گزشتہ دس برسوں میں کی ہے۔ دانستہ احتساب کمیشن کو ختم کرکے کرپشن کی راہ
ہموار کی جارہی ہے۔ حکومتی پنجوں سے ایک شخص نے جواب دیا کچھ لوگوں کو سندھ
کی ترقی ہضم نہیں ہورہی ۔گویا سندھ کی ترقی انسانی آنکھ سے دکھائی نہیں
دیتی اسے دیکھنے کے لیے خاص چشمے لگانے پڑتے ہیں۔ جب تک سندھی عوام ‘ بے
رحم اور کرپٹ لوگوں کو ووٹ دے کر حکومتی ایوانوں میں بھیجتے رہیں گے اس وقت
تک نہ تو ان کے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور نہ ہی تھر میں بچوں کی اموات رک
سکتی ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے قائدین شاہانہ زندگی بسر کررہے ہیں ان کا لباس ‘
رہن سہن ‘ چلنا پھرنا بادشاہوں جیساہے انہیں کیا خبر کہ غربت کیا ہوتی ہے
کہ ایک جانب سندھ کے غریب ہاری دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں تو دوسری
جانب کراچی کے عوام بجلی اور پانی کے بغیر روز جیتے ہیں‘ روز مرتے ہیں ۔سٹریٹ
جرائم نے مزید جینا حرام کررکھا ہے ۔ میں ایک ٹی وی رپورٹ دیکھ رہا تھا جس
میں سندھ کے ہسپتال کسی افریقی ملک کا منظر پیش کررہے تھے ۔ مریض ننگی
چارپائیوں پر لیٹے دکھائی دیئے ۔ ارد گرد گندگی کاانبار نظر آئے ۔ یہی وہ
لاڑکانہ شہر تھا جس پر کاغذوں میں90 ارب خرچ ہوچکے ہیں۔ اپوزیشن کے سوالوں
کا جواب دیتے ہوئے ایک حکومتی رکن نے کہا کچھ لوگوں سے لاڑکانہ کی ترقی
دیکھی نہیں جاتی ہم لاڑکانہ پر 90کی بجائے 900 ارب خرچ کریں گے روک سکو تو
روک لو۔سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمے پر جج صاحب نے استفسار کیا کہ
لاڑکانہ شہر کی حالت زار دیکھ کر تو رحم آتا ہے کہاں اتنی بڑی رقم خرچ کی
گئی جو بظاہر نظر ہی نہیں آتی لیکن کاغذوں میں اس کا اندراج موجود ہے ۔ اب
جج صاحب کو کون سمجھائے کہ یہ رقم یقینا حکمرانوں کی تجوریوں میں جمع ہوچکی
ہوگی ۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ کرپشن کرنے والوں پر ہاتھ ڈالے ۔ ایک
دو کرپٹ ہوتو انہیں پکڑا جاسکتا ہے جہاں سارے کے سارے ہی چور ہوں وہاں گرفت
بہت مشکل ہوتی ہے ۔ سپریم کورٹ میں منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کے دوران چیف
جسٹس نے جب آصف علی زردای کے اثاثوں کی تفصیل مانگی تو سید خورشید شاہ نے
کہا اگر کسی نے زرداری خاندان پر ہاتھ ڈالا تو پھر کھلی جنگ ہوگی ۔ دیکھنے
میں سید خورشید شاہ بہت پارسا اور مہذب دکھائی دیتے ہیں لیکن انہوں نے
میٹرریڈر سے اپوزیشن لیڈر بننے تک کتنی کرپشن کی ‘ کتنے سرکاری پلاٹوں پر
قبضے کیے اور کتنی سرکاری ملازمتیں نقد کیش پر فروخت کیں کسی کو اس کی خبر
نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے زرداری خاندان کے خلاف ایکشن پر صرف سید
خورشید شاہ ہی خفانہیں مولابخش چانڈیو ان سے دس ہاتھ آگے ہیں ‘ وہ سندھیوں
کے حقوق کی ترجمانی کی بجائے زرداری خاندان کے زر خرید غلام بن چکے ہیں ۔پیپلز
پارٹی سندھ میں اگر مزید دس مرتبہ بھی حکومت بنائے تو یہی گنے چنے کرپٹ اور
زرداری خاندان کے غلام چہرے برسراقتدار آئیں گے ۔ان کی موجود گی میں نہ
سندھ کے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور نہ ہی کراچی کی حالت زار بہتر ہوسکتی ہے ۔
وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کالاباغ ڈیم کے جانی دشمن تو تھے ہی ۔اب
بھاشا ڈیم پر بھی تحفظات کا اظہار کررہے ہیں ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہر
سطح پر ڈیموں کی مخالفت بھی کرتے ہیں اور سندھ کے لیے پانی بھی ڈٹ کر
مانگتے ہیں ۔اگران میں تھوڑی سی بھی عقل ہوتی تو وہ ڈیموں کی مخالفت نہ
کرتے ۔ڈیم تعمیر ہوں گے تو ان میں پانی جمع ہوگا جسے چاروں صوبے تقسیم
کرسکتے ہیں اگر پانی ہی موجودنہ ہوا تو اس کی تقسیم کیسے ہوگی ۔ یہ حقیقت
ہے کہ جتنا پانی سندھ کو میسر ہے اس پانی سے وڈیرے اپنی زمینوں کو سیراب
کرلیتے ہیں اور سندھی ہاری بے چارے قدرت کے رحم و کرم پر ہیں ۔بارش ہوگئی
تو فصل تیار ہوجاتی ہے وگرنہ سارا سال انتظار میں گزر جاتا ہے ۔ لیکن جب
سیلاب آتا ہے تو وڈیر ے اپنے محلات میں محفوظ اور کچے کے کاشتکاروں کی
فصلوں کو بہا کر لے جاتا ہے ۔یوں محسوس ہوتاہے کہ سندھ میں آج بھی وڈیرہ
سسٹم پوری طاقت سے موجودہے ۔جس نے سندھی عوام کو اپنے مضبوط شکنجوں میں جکڑ
رکھاہے بلکہ ان کی سوچوں پر بھی پہرے بٹھا رکھے ہیں ۔ عمران خان جو خود کو
روایت شکن لیڈر تو قرار دیتے ہیں لیکن سندھ اور کراچی کے اردو بولنے والوں
کے مسائل حل کرکے ان کو پیپلز پارٹی کے چنگل سے آزاد کروانے کے لیے کچھ
نہیں کررہے ۔جام صادق علی جیسا طاقتور شخص ہی پیپلز پارٹی کی گرفت سے
سندھیوں کو آزاد کرواسکتاہے اس مقصد کے لیے اگر گورنر راج بھی لگانا پڑے تو
لگادیاجائے ۔ جب تک کراچی کو سندھ سے الگ صوبہ نہیں کیاجاتا اور جب تک
وڈیرہ سسٹم کو جکڑ سے اکھاڑ نہیں پھینکا جاتا اس وقت تک نجات کا کوئی راستہ
دکھائی نہیں دیتا ۔ شاید ہی کوئی دن ایسا دن جاتا ہو جب تھر سے بچوں کے
مرنے اور سندھ سے کرپشن کی خبریں نہ آتی ہوں۔دیکھتے ہیں محمد بن قاسم جیسا
دلیر ‘ دیانت دار نجات دہندہ کہاں سے نمودار ہوتا کہ سندھ پر اسی طرح کرپٹ
اور قبضہ گروپوں کا قبضہ جاری رہے گا ۔
|