تحریر: مریم صدیقی، کراچی
ہانیہ اسکول سے روتی ہوئی گھر آئی۔ اس کی مما نے رونے کی وجہ پوچھی تو اس
نے مزید رونا شروع کردیا۔ آپ میرے ساتھ کل اسکول جائیں گی اور ہماری پرنسپل
میم سے ہماری مس فاطمہ کی شکایت کریں گی، ہانیہ نے روتے ہوئے کہا۔ ہانیہ کی
امی نے اس کے آنسو صاف کیے اور پانی پلایا۔ ہم ضرور آپ کے ساتھ چلیں گے
لیکن پتا تو چلے کہ شکایت کیا کرنی ہے؟ انہوں نے ہانیہ کے بالوں میں ہاتھ
پھیرتے ہوئے پوچھا۔ مما مس فاطمہ نے مجھے بہت زور سے مارا ہے۔ آپ کل میرے
ساتھ چل کر ان کی شکایت کیجیے گا۔ اس کا رونا اب تک جاری تھا۔ ہانیہ کی مما
نے اسے چپ کرایا اور کھانا کھلا کر سلادیا لیکن خود سارا وقت پریشانی میں
مبتلا رہیں۔
ہانیہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی، وہ کلاس 1کی طالبہ تھی۔ وہ بے حد
ذہین، سمجھ دار اور فرماں بردار بچی تھی۔ آج سے قبل اسکول سے اس کی کوئی
شکایت نہیں آئی تھی، نہ ہی اس نے گھر آکر کبھی اس طرح کسی ٹیچر کی شکایت کی
تھی۔ شام کو ہوم ورک کرتے وقت ہانیہ کو ایک بار پھر آج صبح اسکول میں رونما
ہونے والا واقعہ یاد آگیا۔ مما مما، آپ میرے ساتھ کل اسکول چلیں گی ناں؟ آپ
مس کی شکایت کیجیے گا، ہم مس کو سبق سکھائیں گے پھر وہ کبھی مجھے نہیں
ماریں گی۔ ہانیہ کی مما اس کے منہ سے یہ الفاظ سن کر حیران رہ گئیں۔ آج سے
پہلے ہانیہ نے کبھی اپنی کسی ٹیچر کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال نہ کیے
تھے۔
ان کے لیے ہانیہ کی ایسی گفتگو سخت پریشانی کا باعث تھی۔ یہ وہ تربیت تو
نہیں تھی جو انھوں نے اپنی بیٹی کو دی تھی ۔انھوں نے تو ہمیشہ اسے بڑوں کا
ادب کرنا سکھایا تھا خواہ وہ ماں باپ ہوں، استاد ہوں یا کوئی رشتے دار۔ وہ
سب کا ادب کرتی اور کبھی کسی سے بدتمیزی نہ کرتی تھی۔انھوں نے ہانیہ کو
اپنے پاس بلاکر بٹھایا۔ پہلے آپ مجھے یہ بتائیں کہ آج سے پہلے بھی آپ کی
ٹیچر نے آپ کو مارا ہے؟ نہیں مما، اس نے نفی میں گردن ہلائی۔ وہ تو بہت
اچھی ہیں، انھوں نے ہی مجھے کلاس کا نگران بنایا تھا۔ تو پھر آج ایسا کرنے
کے پیچھے بھی یقینا کوئی وجہ ہوگی۔ مما کی بات پر ہانیہ نے سر جھکا لیا۔ جی
مما، اس نے آہستہ سے کہا۔ اس کی اچھی عادتوں میں سے ایک اچھی عادت سچ بولنا
بھی تھی۔
پھر آپ پہلے ہمیں وہ وجہ بتائیں کہ ایسا کیا ہوا کہ آپ کی اتنی اچھی مس نے
آپ کو مارا، مما نے اس سے پیار سے پوچھا۔ مما وہ ہماری کلاس میں ایک نیا
بچہ آیا ہے عباد۔ اس نے اور میں نے مل کر مس کی چیئر پر بہت ساری گلو لگا
دی تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ اس نے ایسا ٹی وی میں ایک بچے کو کرتے دیکھا
تھا۔جب مس چیئر پر بیٹھیں تو ان کے دوپٹے پر ساری گلو لگ گئی۔ سب بچے ہنسنے
لگے تو مس کو غصہ آگیا۔ انھوں نے سب سے پوچھا کہ یہ کس نے کیا ہے؟ تو سب نے
میرا اور عباد کا نام لے لیا۔ پھر مس نے مجھے اور عباد کو تھپڑ مارا، ہانیہ
نے سر جھکائے تفصیل سے ساری بات بتائی۔عباد نے کہا ، کہ وہ کل اپنی ممی کو
بلا کر لائے گا وہ مس کو سبق سکھائیں گی۔ تو مما آپ بھی چلیں گی ناں میرے
ساتھ، اس نے امید بھری نظروں سے مما کو دیکھا۔
ابھی اس کی مما اسے کچھ کہتیں اتنی دیر میں دروازے پر بیل ہوئی اور اس کے
پاپا بھی گھر آگئے۔ ہانیہ نے اندر آنے سے پہلے ہی اپنے رونے کی وجہ انھیں
بتادی اور ان سے بھی کل اسکول چلنے کی درخواست کی۔انھوں نے ہانیہ کو گود
میں بٹھایا۔ اچھا آپ بتائیں کہ مس کی چیئر پر گلو لگانا اچھے کاموں میں آتا
ہے یا برے کاموں میں؟ انھوں نے ہانیہ سے پوچھا۔ برے کاموں میں ، ہانیہ نے
فورا جواب دیا۔تو آپ ہمیں یہ بتائیں کہ آپ گھر میں جب کوئی برا کام کرتی
ہیں تو آپ کی مما کیا کرتی ہیں؟ڈانٹتی ہیں، اس نے آہستہ سے جواب دیا۔
پھر آپ مما کی شکایت کس سے کرتی ہیں؟ کسی سے نہیں پاپا وہ تو مما ہیں ناں
میری۔ تو بیٹا جب آپ کی ٹیچرنے آپ کی غلط بات پر آپ کو ڈانٹا تو آپ کو برا
کیوں لگا؟ جب کہ غلطی تو آپ نے ہی کی تھی۔ جیسے مما آپ کو غلطی پر آپ کو
ڈانٹ بھی سکتی ہیں اور مار بھی سکتی ہیں ویسے ہی آپ کے استاد بھی ماں باپ
جیسے ہی ہوتے ہیں۔ آپ کی غلطی پر اگر وہ ڈانٹ دیتے ہیں تو صرف اس لیے تاکہ
آپ کو اس غلطی کا احساس ہو اور آپ وہ کام دوبارہ نہ کریں۔ آپ کو پتا ہے اگر
آپ اپنے استاد کو ناراض کروگی تو اﷲ تعالیٰ بھی آپ سے ناراض ہوجائے گا
اوربیٹا ایسے لوگ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوتے جو اپنے استاد کا ادب نہیں
کرتے۔
بیٹا اچھے بچے تو وہی ہوتے ہیں ناں جو سب کا ادب کرتے ہیں پھر چاہے وہ
استاد ہوں یا مما پاپا۔ آپ کی مما آپ کے ساتھ کل اسکول ضرور جائیں گی لیکن
مس کی شکایت کرنے نہیں بلکہ اس لیے کہ آپ ان کے سامنے اپنی مس سے معافی
مانگیں گی اور ان سے وعدہ کریں گی کہ آپ آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کریں گی
اور مجھ سے بھی وعدہ کریں کہ آپ اچھی بچی بن کر رہیں گی گھر میں بھی اور
اسکول میں بھی۔ ٹھیک ہے پاپا میں آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کروں گی اور
اچھی بچی بن کر دکھاؤں گی۔
اگلے دن ہانیہ نے اپنی مما کے ساتھ اسکول جاکر مس فاطمہ سے معافی مانگی اور
وعدہ کیا کہ وہ کبھی دوبارہ ایسی حرکت نہیں کرے گی۔ ہانیہ کے معافی مانگنے
پر عباد نے بھی مس سے معافی مانگی۔ مس نے ان کے اس عمل سے خوش ہوکر دونوں
کو ایک ایک کہانی کتاب انعام میں دی۔ آج ہانیہ کو معلوم ہوگیا تھا کہ جو
بچے بڑوں کا ادب کرتے ہیں وہ ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں۔ |