فرفری نگر، ایک چھوٹا سا لیکن جادوئی شہر، جہاں ہر روز
کچھ نہ کچھ دلچسپ ہوتا تھا، موٹو اور پٹلو کی گھر جاتی گلیوں میں ہلچل مچی
رہتی تھی۔ موٹو، ایک موٹا تازہ آدمی جو سموسوں کا دیوانہ تھا، اور پٹلو،
ایک پتلا اور ہوشیار لڑکا، ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے تھے۔ ان کے
ایڈونچرز ہنسی، شرارتوں، اور تھوڑی سی بدقسمتی سے بھرے ہوتے تھے، لیکن آخر
میں سب کچھ ٹھیک ہو جاتا تھا—بس قسمت کے سہارے!
ایک دھوپ والی صبح، موٹو اور پٹلو چائے والے کی دکان پر بیٹھے سموسوں پر
ہاتھ صاف کر رہے تھے۔ موٹو نے ایک بڑا سا سموسہ کھایا اور کہا، “پٹلو، میرا
دماغ کہہ رہا ہے کہ آج کچھ بڑا ہونے والا ہے!” پٹلو نے اپنا اخبار نیچے
رکھا اور ہنس کر کہا، “موٹو، تیرا دماغ تو بس سموسوں کے بارے میں سوچتا ہے!
چل، دیکھتے ہیں آج کیا ہوتا ہے۔”
اسی وقت، ڈاکٹر جھٹکا اپنی نئی ایجاد لے کر آیا—ایک چمکتا ہوا “سپر سموسہ
بنانے والی مشین”! اس نے فخر سے کہا، “یہ مشین ایک سیکنڈ میں سو سموسے بنا
سکتی ہے، اور ہر سموسہ موٹو کو سپر پاور دے گا!” موٹو کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
“سو سموسے؟ ڈاکٹر جھٹکا، آپ جنت سے آئے ہیں!” اس نے مشین کا بٹن دبایا،
لیکن جیسے ہی مشین چلی، سموسوں کی بجائے رنگین بلبلے نکلنے لگے جو پورے
فرفری نگر میں پھیل گئے!
یہ بلبلے کوئی عام بلبلے نہ تھے—ہر بلبلہ جو پھٹتا، اس سے ایک عجیب و غریب
آواز نکلتی جو لوگوں کو ناچنے پر مجبور کر دیتی! فرفری نگر کے لوگ—چائے
والا، انسپکٹر چنگم، حتیٰ کہ گھسیٹا رام—سب ناچنے لگے۔ موٹو نے ایک اور
سموسہ کھایا اور کہا، “پٹلو، یہ تو مزہ آ گیا! لیکن یہ بلبلے کیسے رکیں
گے؟” پٹلو نے سر پکڑ لیا۔ “موٹو، تیری جلدبازی نے پھر مصیبت کھڑی کر دی!”
اسی وقت، فرفری نگر کا بدنام چور، جان دا ڈان، اپنے دو حواریوں، نمبر 1 اور
نمبر 2 کے ساتھ، اس ہنگامے کا فائدہ اٹھانے کی سوچ میں تھا۔ جان نے دیکھا
کہ سب ناچ رہے ہیں، تو اس نے ڈاکٹر جھٹکا کی مشین چوری کرنے کا منصوبہ
بنایا۔ “اگر یہ مشین سموسے بناتی ہے، تو میں اسے بیچ کر بادشاہ بن جاؤں
گا!” اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
جان نے خاموشی سے مشین اٹھائی اور اپنی وین میں ڈال لی۔ لیکن پٹلو کی
ہوشیار آنکھوں نے اسے دیکھ لیا۔ “موٹو، جان مشین لے کر بھاگ رہا ہے!” موٹو
نے ایک بلبلہ پھاڑا، جس سے اسے سپر اسپیڈ مل گئی، اور وہ جان کے پیچھے
بھاگا۔ “جان، میرا سموسہ واپس کرو!” وہ چیختا ہوا وین کے پیچھے دوڑا۔ پٹلو
نے انسپکٹر چنگم کو بلایا، جو ناچتے ناچتے آئے، لیکن بدقسمتی سے ایک ناریل
ان کے سر پر گرا!
موٹو اور پٹلو نے مل کر جان کا پیچھا کیا۔ موٹو نے ایک اور بلبلہ پھاڑا، جس
سے اسے اڑنے کی طاقت مل گئی۔ وہ وین کے اوپر اڑا اور مشین واپس لے آیا۔
لیکن مشین ابھی بھی بلبلے بنا رہی تھی! پٹلو نے اپنا دماغ لڑایا اور کہا،
“موٹو، مشین کے بٹن کو دوبارہ دبانے سے شायद یہ رک جائے!” موٹو نے بٹن
دبایا، اور مشین نے ایک بڑا سا سموسہ بنایا جو جان کی وین پر گرا۔ جان اور
اس کے حواری سموسے کے نیچے دب گئے، اور انسپکٹر چنگم نے انہیں گرفتار کر
لیا۔
فرفری نگر کے لوگوں نے موٹو اور پٹلو کی تعریف کی۔ چائے والے نے انہیں مفت
سموسے دیے، اور ڈاکٹر جھٹکا نے وعدہ کیا کہ وہ اگلی بار اپنی ایجاد کو چیک
کرے گا۔ موٹو نے ایک بڑا سا سموسہ کھایا اور کہا، “پٹلو، ہمارا ایڈونچر
ہمیشہ مزے کا ہوتا ہے!” پٹلو نے ہنس کر کہا، “ہاں، لیکن اگلی بار بٹن دبانے
سے پہلے سوچ لینا!”
اخلاقی سبق: دوستی اور ہوشیاری سے ہر مشکل حل ہو جاتی ہے، لیکن جلدبازی سے
بچو
|