وزیر پاکستان کا
بیان پاکستان کا
شکریہ شاہ صاحب
دنیائے سیاست کا طرز اور انداز اپنائیں اور تنقید برائے تنقید کرنا ہو تو
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خطاب میں سے ہزارہا کیڑے نکال
سکتے ہیں۔ لیکن الحمدللہ ہمارا یہ منہج نہیں ہمیں یہ سکھایا ہی نہیں گیا۔
ہمیں حب الوطنی اور حب اسلام کے علاوہ کچھ نہیں سکھایا گیا۔
یہ حکومت جہاں اچھا کرے گی ہم سراہیں گے جہاں برا کرے گی وہاں تنقید برائے
اصلاح کریں گے۔
اس کی زندہ مثال یہ کہ حکومتی اچھی پالیسیوں کو سراہنے کی بدولت لوگوں نے
عمران خان کا چمچہ اور جانے کیا کیا کہا لیکن جب بات آئی ایک قادیانی کو
مشیر مقرر کرنے کی تو الحمدللہ ہم نے مکمل اختلاف کرتے ہوئے اس کی مخالفت
کی۔
کل پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی
میں زبردست خطاب کیا۔ جو پاکستانی عوام کی امنگوں کا ترجمان تھا۔
اس خطاب کا پہلا احسن پہلو اردو زبان میں خطاب کا کیا جانا تھا۔ اس سے
ہمارے ملک میں اپنی پہچان اردو زبان کے متعلق بڑھتا ہوا احساس کمتری کم
ہوگا۔ ان شا اللہ
ہم اس سلسلے میں وزیر اعظم سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ ایک اور مثبت قدم
اٹھائیں اور اپنا ذریعہ تعلیم بھی اردو ہی کر دیں اس سے بہت سے فوائد حاصل
ہونگے ان شا اللہ ۔
اس سے پہلے ہم نے دیکھا کہ پی پی کے دور حکومت میں حسین حقانی امریکہ میں
پاکستانی سفیر ہو کر پا کستان کی بجائے امریکہ کا خیر خواہ بن کر الٹا
پاکستان کے خلاف ہرزہ رسائی کرتا رہا۔
ن لیگ نے چار سال تک وزیر خارجہ بنایا ہی نہیں انڈیا کا ساتھ دیا اور جب
بنایا تو وہ جو انڈیا کی زبان بولتا اپنی ہی فوج کے خلاف زبان چلاتے دیکھا۔
سو نئے وزیر خارجہ کی تقریر سن کر پہلی دفعہ محسوس ہوا کہ پاکستان کا بھی
کوئی وزیر خارجہ ہے۔
وزیر خارجہ نے حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی بات کی اور
مسلمانوں کے جذبات سے دنیا کو آگاہ کیا۔ اور جیسے انھوں نے دنیا کو وارن
کیا کہ ہم اسلام کا دفاع کرتے رہیں گے اور دنیا کو احساس دلایا کہ اس کی
سمت ٹھیک نہیں، لائق تحسین ہے۔
اسی طرح کشمیر پہ اپنے خطاب میں تین بار بات کی اور کشمیریوں پہ ہونے والے
مظالم سے دنیا کو آگاہ کرتے ہوئے اس مسئلے کی سنگینی کا احساس دلایا۔
کشمیریوں پہ چلنے والی پیلیٹ گن سے کشمیریوں کی زندگی میں ہونے والی تباہی
اور شہادتوں کا جیسے ذکر کیا پاکستان کی عوام شاہ صاحب کی مشکور ہے اور
امید کرتی ہے کہ اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرانے کی بھر پور سعی کی
جائے گی۔
اس کے علاوہ انھوں نے بھارت کی پاکستان میں دخل اندازی اور دہشت گردی کا
مسئلہ بھی بھر پور انداز میں پیش کیا اور کلبھوشن کی وارداتوں کا ذکر ہو یا
اے پی ایس کا واقعہ، سمجھوتہ ایکسپریس میں بھارت کی دہشت گردی اور اس کے
زمہ داران کا کھلے عام پھرنے اور مستونگ حملے کا بھی ذکر کر کے پاکستان کا
تشخص مضبوط کیا۔ اور پاکستان میں ایک امید کی کرن دکھائی دی کہ اب کوئی
پاکستان کا بھی مخلص وزیر دستیاب ہے۔
دنیا کو بھارت کا اصل چہرہ جیسا کہ تمام ہمسایہ ممالک میں بھارت کی دہشت
گردی دکھا کر وزیر خارجہ نے پاکستان کی عوام کے دل جیت لئے ہیں۔
اس سے پہلے کوئی حکومت اس طرح بے باک ہو کر انڈیا کے خلاف نہیں بول سکی۔
انھوں نے واشگاف الفاط میں طریقے سے اقوام متحدہ کو بھی اس کا اصل چہرہ
دکھا کر اسے بالخصوص کشمیر اور عام انسانوں کے مسائل کے حل کی طرف توجہ
دلائی۔
جو ہمارے لئے اطمینان کا باعث ہے۔
جس طرح شاہ صاحب نے دنیا کو تجارتی استحصال سے منع کیا اور اپنی طرف سے
تجاویز بھی دیں۔اس سے پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوا اور اپنی حثیت
منواتاہوا نظر آیا۔
پاکستان اپنا کردار کیسے ادا کرے گا اور آخر میں تمام مسلمانوں کی ترجمانی
کرتے ہوئے جن الفاظ کا استعمال کیا کہ *"آنے والا وقت پر خطر اور پر پیچ
بھی ہے، راستے ان دیکھے اور راہیں نا ہموار ہیں، یہ وقت متقاضی ہے گہری سوچ
بچار کے ساتھ ساتھ اجتماعی نقل و حرکت کا۔ یہ متقاضی ہے صحیح معنوں میں ایک
متحدہ اقوام متحدہ کا۔*
*وہ بے بس کشمیری بیوہ جو اپنا شوہر کھو بیٹھی ہو وہ بے بس کشمیری بچہ جو
پیلٹ گن کے چھروں سے اپنی بینائی کھو کر مستقبل سے محروم ہو گیا ہو، وہ
شامی باپ جو اپنے بچے کو ڈوبنے سے نہ روک سکا ہو ، وہ فلسطینی بچی روزانہ
گھٹ گھٹ کر زندگی گزار رہی ہو، اور وہ پناہ گزیں جو بہتر مسقبل کی تلاش میں
اپنا سب کچھ کھو بیٹھا ہو، ان سب کی توجہ آج اس ایوان پر مبذول ہے۔ ہم
انھیں مایوس نہیں کر سکتے۔ آئیے ان کے اندھیروں کو امید کے اجالوں سے روشن
کر دیں۔"*
شاہ صاحب کے یہ الفاظ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔
شکریہ شاہ محمود قریشی
|