بھارت کی کہہ مکرنیاں

ہمارے ازلی دشمن بھارت کی وعدہ کر کے مکرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ وہ 1951ء میں کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے سے مُکر گیا اور گزشتہ 71 سالوں سے روایتی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہوئے مظلوم کشمیریوں کو وعدے کے مطابق رائے شماری کا حق دینے سے مسلسل انکاری ہے۔ متعدد بار ہندوستان مذاکرات کے لئے تیار ہوا مگر چانکیانی فطرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عین موقع پر کہہ مکرنیاں کرتا رہا۔ جس کی واضح مثال حال ہی میں نیویارک میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا اپنے ہم منصب شاہ محمود قریشی سے اچانک بات چیت سے انکار کرنا ہے۔ حالانکہ دونوں وزرائے خارجہ کے مابین مذاکرات وزیراعظم عمران خان کے مودی کو بھیجے گئے مکتوب کے مطابق طے شدہ تھے۔وزیراعظم عمران خان نے حلف برداری کے بعد بھارت کو خطے میں امن کے قیام کے لئے مل کر کردار ادا کرنے کا پیغام بھیجا۔ جس پر بھارت نے مثبت ردعمل کا اظہار کیا اور وزیراعظم نریندر مودی کے خیر سگالی کے جذبات بھی سامنے آئے اور وزیراعظم عمران خان کی تجویز پر ہی بھارت نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر وزرائے خارجہ کی ملاقات پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ملاقات کی منسوخی کے فوراً بعد بھارتی آرمی چیف کی گیدڑ بھبھکیاں بھی سامنے آنے لگی اور بھارتی آرمی چیف بپن راوت نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اب پاکستانی فوج سے بدلہ لینے کا وقت آ گیا ہے۔ پاکستان کو اُسکی زبان میں ہی جواب دیا جائے گا۔ اور بہت جلد پاکستان کو سرپرائز دینگے۔جس پر ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہم امن کے حامی ہیں مگر جنگ کے لئے تیار ہیں۔ کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دینگے۔ ہم امن خراب نہیں کرنے دینگے اگر ایسا وقت آیا کہ کسی نے صبر کا امتحان لینا چاہا تو قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے ملاقات کی منسوخی سے متعلق بھارت کے منفی اور متکبرانہ کردار پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے چھوٹے لوگوں کو بڑے عہدوں پر قابض دیکھا ہے، یہ لوگ بصارت سے عاری ہیں اور دور اندیشی سے یکسر محروم ہوتے ہیں۔تجزیہ نگاروں کے مطابق وزیراعظم صاحب کو ایسا بیان دینے کے بجائے دنیا کو بھارت کا اصل مکروہ چہرہ دکھانے کے اقدامات کرنے چاہیں اور اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں کے ضمیر کو بھی جھنجھوڑنا ہو گا۔ گزشتہ ماہ امریکی وزیر خارجہ نے دونوں ملکوں کا دورہ کیا اور پاکستان سے بھارت سے مذاکرات پر زور دیا تو دوسری جانب بھارت پر اپنی نوازشات کا سلسلہ جاری رکھا۔ اربوں ڈالرز کے دفاعی معاہدے اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ امریکہ برصغیر میں بھارتی بالادستی کو بڑھانے کا خواہاں ہے انہی عزائم کی تکمیل کے لئے ہندو بنیا کو شہہ دے رکھی ہے کہ وہ برصغیر کا امن و امان بھی خطرے میں ڈال دے۔پاکستان دو دہائیوں سے امریکی نام نہاد دہشت گردی کی جنگ لڑ رہا ہے اس میں ہزاروں بے گناہ زندگیاں اس کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ آج بھی پاک فوج دہشت گردی کیخلاف نبردآزما ہے۔ ہماری بہادر فوج کے عظیم سپوت مادر وطن پر اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ دنیا کی کوئی دشمن طاقت پاک فوج کے مقابل نہیں آ سکتی۔بھارتی آرمی چیف کی جنگ کی دھمکیاں پاک افواج کو ڈرا نہیں سکتیں۔ بھارتی سپہ سالار کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب بھارتی فوج نے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کارروائی کی دھمکی دی تھی تو ہمارے جری و نڈر فوجیوں نے بھارتی سرحد پر جوابی کارروائی کی کہ بھارت سرکار کے ہوش اڑ گئے تھے اور اس کے فوجیوں کو دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔مودی سرکار کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ معاشی، سماجی و سیاسی محاذ پر ایک نااہل حکومت بن چکی ہے۔ 2014ء کے الیکشن میں رام مندر کا ایشو اٹھا کر انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اب مودی حکومت کے چار سالوں میں رام مندر کے غبارے کی ہوا نکل چکی ہے۔ اس لئے اب یکساں سول کوڈ، ماب لیچنگ، گائے ذبحہ اور طلاق ثلاثہ پر پابندی کے ساتھ ساتھ پاکستان پر حملہ کرنے کی دھمکی دیکر 2019ء کے الیکشن میں فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔موجودہ حالات میں سیاسی ہوا بی جے پی کے خلاف چل رہی ہے اور اُسے 2019ء کے عام الیکشن میں شکست نظر آ رہی ہے۔ بھارتی عوام کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کیساتھ جنگی بخار میں مبتلا کیا جا رہا ہے تاکہ پاکستان دشمنی کا روایتی حربہ استعمال کرتے ہوئے ہندوستانی تاریخ کے سب سے بڑے عسکری فراڈ ’رافیل طیاروں کی خریداری‘ سے نظر ہٹائی جا سکے۔مذکورہ ڈیل میں بدعنوانی کے انکشافات کے بعد راہول گاندھی نے نریندر مودی سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا ہے۔ راہول گاندھی نے کہا کہ مودی نے فوجیوں کا خون بیچا۔ شرم کریں۔ پاکستان پر الزام تراشی مودی سرکار کی فیس سیونگ کی کوشش ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی کی شہادت کے بعد تحریک آزادی میں شدت آ چکی ہے۔ کشمیری نوجوان پاکستانی پرچموں کو خود پر لپیٹے بھارتی درندہ صفت افواج کے سامنے برسرِ پیکار ہیں۔ طالبات بھی ہاتھوں میں سنگ اٹھائے اسرائیلی مہلک اسلحہ سے لیس قابض سکیورٹی اہلکاروں سے آزادی کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ بھارتی فوجی ہتھکنڈے، بدترین تشدد اور ظلم بھی ان کے حوصلے پست نہ کر سکا۔ کشمیر میں بھارتی فوج کشمیریوں کی بلند حوصلگی، آزادی کی تڑپ کے آگے شکست خوردہ ہو چکی ہے۔ اب اپنے لوگوں کے سامنے اپنی خفت کو مٹانے کے لئے پاکستان کیخلاف زہر اگلنا شروع کر دیتی ہے۔ بھارتی میڈیا کو بھی پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ بھارتی نیوز چینلز 24 گھنٹے پاکستان اور پاک فوج کیخلاف پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی جدوجہد میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کشمیری مجاہدین نہیں پاکستانی فوج لڑ رہی ہے اور سرحد پار سے انہیں عسکری و مالی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔حالانکہ یہ ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ کشمیریوں کی آزادی کی لڑائی ہے جو وہ گزشتہ 71 برسوں سے اپنا لہو دیکر اسے پروان چڑھا رہے ہیں۔ ہزاروں کشمیری اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں اور ہزاروں اس راہ میں شہید ہونے کے لئے تیار ہیں۔ بھارت پیلٹ گنوں سے کشمیریوں کی بینائی چھین رہا ہے۔ نوجوانوں کو اپاہج بنا رہا ہے۔ پھر بھی ان کی تحریک سے خائف دکھائی دیتا ہے۔بھارتی آرمی چیف بپن راوت نے ایک بار پھر گیڈر بھبکی دی ہے کہ دہشتگردوں کیخلاف ایک اور سرجیکل اسٹرائیک کی ضرورت ہے، پاکستانی حکومت کے کنٹرول میں تمام ادارے نہیں، جب تک یہ ادارے حکومت کے کنٹرول میں نہیں آتے تب تک سرحد پر حالات نہیں بدلیں گے۔2016کی مبینہ سرجیکل اسٹرائیک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بھارتی میڈیا کو بتایا کہ سرجیکل اسٹرئیک کے وقت بھارت کی تینوں مسلح افواج چوکس تھیں اور اگر سرجیکل اسٹرائیک کے دوران بات بڑھتی تو ہم جنگ کیلئے بھی تیار تھے ، انہوں نے کہا کہ اس سرجیکل اسٹرائیک کا حکم نریندر مودی نے براہ راست دیا تھا، ہم انہیں اور مشیر قومی سلامتی اجیت دیول کو سرجیکل اسٹرائیک کی پل پل خبر دے رہے تھے،انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان سرحد پار دہشتگردی نہیں روکتا تو بھارت ایک اور سرجیکل اسٹرائیک کرنے سے کترائے گا نہیں۔بپن راوت کا جذباتی حماقت کی حدوں کو چھوتا ہؤا بیان دراصل بھارت کے سیاسی منظر نامہ کا پیش لفظ دکھائی دیتا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے متوازن اور غیر جذباتی جوابی بیان نے اس بیان کے غبارے سے بڑی حد تک ہوا نکال دی ہے۔ جنرل بپن راوت نے کل وزیر اعظم عمران خان کے بھارتی قیادت کے بارے میں تلخ اور ہتک آمیز ٹویٹ پیغام کے بعد یہ دھمکی آمیز بیان جاری کیا تھا۔ گو کہ جنرل راوت کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں نہیں بولنا چاہتے لیکن ان کے بیان کا ایک ایک لفظ سیاسی پیغام لئے ہوئے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ ہمیں دہشت گردوں اور پاکستان کی بربریت کا جواب دینے کے لئے سخت قدم اٹھانا ہوگا۔اندازہ لگائیے بھارتی جنرل کی اپنے وزیر اعظم سے خوشامد کا کہ تاریخ کے سب سے بڑے دفاعی سودے میں کرپشن میں ملوث ہونے کے انکشافات کے بعد فور اسٹار جنرل کیسے سیاسی محاذ پر ان کا دفاع کر رہا ہے۔بھارتی سیاست میں فرانس کے سابق صدر کے ایک بیان طوفان بپا کردیاہے۔ فرانسس ہولاندے نے ایک بیان میں کہا تھا کہ 2016 میں بھارت کو فرانسیسی کمپنی ڈوسالٹ نے 36 رافیل جنگی طیاروں کی فروخت کے لئے معاہدہ میں بھارتی حکومت کے دباؤ کی وجہ سے سرکاری ہندوستان ایرو ناٹک لیمٹیڈ کی بجائے سرمایہ دار انیل امبانی کی ملکیت میں چلنے والی ریلائینس کمپنی کے ساتھ شراکت کا معاہدہ کیا تھا۔ بھارتی قانون کے مطابق دفاعی خریداری میں کل رقم کا تیس فیصد کام متعلقہ کمپنی کو کسی بھارتی کمپنی کے ساتھ اشتراک میں کرنا پڑتا ہے۔ اس پابندی کا مقصد ہائی ٹیکنالوجی سے شناسائی اور بھارت میں روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔جدید عسکری ٹیکنالوجی کی خریداری کے معاہدوں میں عام طور سے سرکاری کمپنی شراکت دار ہوتی ہے لیکن رافیل کے 8،7 ارب ڈالر کے معاہدہ کے لئے نریندر مودی نے بذات خود معاملات طے کرتے ہوئے انیل امبانی کی کمپنی کو شراکت دار بنانے پر زور دیا تھا۔ سابق فرانسیسی صدر کا کہنا کہ ان کے پاس اس مطالبے کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں اس انکشاف کی بنیاد پر کانگرس اور متعدد چھوٹی سیاسی پارٹیاں نریندر مودی کو ملکی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے رافیل معاہدہ میں ملوث ہونے کی وجہ سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ ایک طرف بھارت کی سیاسی حکومت سخت مشکل کا شکار ہے تو دوسری طرف بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں امن بحال کرنے اور عوام کی تحریک کو دبانے میں ناکام رہی ہے۔اس پس منظر میں بھارتی حکومت کے پاس مسائل بھارتیوں کی توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان کو ہدف بنایا گیا ایک طرف بھار تی عوام کو جنگی جنون میں متبلا کر دیا جائے تو دوسری جانب نریندر مودی کی کر پشن پر پردہ ڈالا جا سکے۔

Naseem Ul Haq Zahidi
About the Author: Naseem Ul Haq Zahidi Read More Articles by Naseem Ul Haq Zahidi: 193 Articles with 138785 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.