بھاگا کچھ اس طرح سے کہ ،،،،،،

وعدے قسمیں بندھن زبان کا پاس سب پرانی اور کتابی باتیں ہیں آج نیا زمانہ اور نیا دور ہے ،محترم آصف علی زرداری جو صدر مملکت کے اعلیٰ ترین عہدے پر بھی براجمان رہ چکے ہیں کا :فرمان عالی شان: ہے کہ وعدے اور قسمیں قرآن و حدیث نہی ہوتے،بات کرنا اور مکر جانا میدان میں اترنا اور بھاگ جانا آج کی سیاست کا بنیادی اصول اور مفاد پرست عناصر کا مرغوب مشغلہ ہے،وہ اور وقت تھا جب ملک معراج خالد جیسے ہیرے اس پیشے میں خالصتاً خدمت کے جذبے سے آتے تھے اور وزیر اعظم ہو کر اپنے ہی گورنر کے روٹ اور پروٹوکول میں پھنس جاتے تھے،مرحوم لیاقت علی خان جیسے نادر و نایاب لوگ بھی اسی مملکت پاکستان میں ہو گذرے ہیں مگر اب جو چلن عام ہوا اور سیاست کے جو رنگ ڈھنگ زمانہ دیکھ ااور کچھ لوگ اسے دکھا رہے ہیں وہ سب سے جدا ہے،آج حالت یہ ہے کہ صرف بیوپاری تگڑا ہو توکچھ انسانوں سمیت ہر چیز مل جانے کو تیار بیٹھی ہے ،تاہم ایک بات طے ہے کہ اﷲ کے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جا سکتا اور ساتھ ہی آقائے نامدار ﷺ کا یہ فرمان بھی موجود ہے کہ احد پہاڑ اپنی جگہ سے ہل سکتا ہے مگر انسانی فطرت تبدیل نہیں ہو سکتی،جس کی فطرت میں جو کچھ ہے وہ دنیا سے جانے تک اس کے ساتھ ہی رہے گا اگر کسی فطرت میں قدرت نے لالچ رکھ دیا ہے تو یقین کریں اس کا پیٹ صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے،پھر ثابت یہ ہوا کہ جو ایک سوراخ سے دوبار ڈسا جائے وہ مومن ہی نہیں ،میری ن لیگی اعلیٰ قیادت اور حلقہ این اے 65کے لوگوں سے گذارش ہے کہ آئیے ہم سب مل کر اﷲ سے توبہ کریں اور پناہ مانگیں کہ ہم ایک بار نہیں دو بار ایک ہی سوراخ سے ڈسے گئے ہیں ،تلہ گنگ میں بھی دیگر ملک کی طرح میاں نواز شریف کے بے شمار چاہنے والے موجود ہیں ،حالانکہ سابقہ الیکشن میں میاں صاحب سے اس وقت ن لیگ کے جنرل سیکریٹری جو آجکل ق لیگ کو پیارے ہو چکے ہیں نے خوامخواہ محض ووٹ لینے اور سستی شہرت کی خاطر تلہ گنگ کو ضلع بنوانے کا اعلان کروا دیا جبکہ سب کو معلوم تھا کہ ایسا ممکن نہیں ،میاں صاحب اپنے پانچ سالہ دور حکوت میں اس وعدے کی تکمیل نہ کر سکے اس کے پیچھے میاں صاحب کی وعدہ خلافی کے علاوہ ان قابل بلکہ کابل کہنا زیادہ مناسب ہے عوامی نمائندوں کی اعلیٰ کاکردگی بھی شامل ہے جو پانچ سال محض طفل تسلیوں اور جھوٹے لاروں کے علاوہ تلہ گنگ کی عوام کو کچھ بھی نہ دے سکے نزدیک گذرے الیکشن میں جب ق لیگ کے اسٹیج سے تقریر ہوتی اور کہا جاتا کہ ن لیگ نے پانچ سالوں میں اس علاقے کااستحصال کیا ہے تو اسٹیج پر بیٹھے ممتا ز ٹمن تائید کرتے کہ آ پ ٹھیک کہہ رہے ہیں حالانکہ یہ سردار صاحب ہی ن لیگ کے نمائندے اور مقامی سطح پر حزب اقتدار تھے یہ لوگ بھی آج مشرف بہ ق لیگ ہو چکے ہیں ق لیگ کو اتنے عالی دماغ مبارک ہوں ،الیکشن 2018کا شور مچا تو سابقہ نمائندوں نے دوبارہ پر تولنا شروع کیے جوڑ توڑ شروع ہوا ادھر حافظ عمار یاسر بھرپور حکمت عملی سے سامنے آئے تو مخالفین کی نیندیں حرام ہونا شروع ہو گئیں،باہم مشورے سے طے ہوا کہ اب کی بار قومی اسمبلی کا ٹکٹ ماموں کی بجائے بھانجے کو دلوایا جائے،ماموں جی سردار ممتاز ٹمن جنھوں نے پانچ سال تلہ گنگ کے لوگوں کو ماموں بنائے رکھا خود ماموں بننے کو تیار نہ ہوئے اور ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں ن لیگ چھوڑ کر ق لیگ جائن کرنے کا اعلان کر دیا،دوسری طرف بھانجے صاحب فیض ٹمن نے پورے حلقے کی عوام کو پوری طرح ماموں بنانے کا عزم اور بندوبست کر رکھا تھا ،موصوف چونکہ دس سال سیاست سے آؤٹ رہے تھے اس لیے شو آف پاور کرنے کے لیے دل پر پتھر رکھ کر ایک عدد افطاری کا اہتمام کر کے پورے علاقے کے معززین کو دعوت دے ڈالی جس میں میڈیا کے سرکردہ لوگوں کو بلا کر علاقے میں اپنی بلے بلے کروا لی،ہم نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ یہ افطاری کم اور تیاری زیادہ ہے موصوف ایک بار دھوکہ دے چکے ہیں ن لیگ کو اعتماد کرنے سے پہلے سو بار سوچنا چاہیے اس فنکشن کے فوراً بعد ہی جناب نے اعلان کر دیا کہ اگر ن لیگ نے ٹکٹ دیا تو صاحب موصوف کمال احسان کرتے ہوئے الیکشن میں حصہ لیں گے۔دوسری وجہ حلقے کے لوگ ماموں یا بابا جی سے نکو نک ہو چکے تھے اور خواہاں تھے کہ اب کی بار کوئی اور شخص ان کی جگہ سنبھال کر انہیں گھر واپسی کا با عزت راستہ دے،فیض ٹمن کی میدان میں آمد کا اعلان حلقے میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ،موصوف پر دیگر کئی اوصاف کے علاوہ دلیری کی تہمت بھی بڑی شدو مد سے لگائی جاتی تھی،لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور مقامی قیادت مجبور ہو گئی کہ اعلیٰ قیادت سے با ت کرے کہ ہر صورت میں اب کی بار ن لیگ کا ٹکٹ انہی کو دیا جائے،کچھ عوامی دباؤ کچھ مقامی قیادت کا اصرا ر اور کچھ حالات کی ستم ظریفی کہ ن لیگ اسی سوراخ سے دوبارہ اپنے آپ کو ڈسوانے کو تیار ہو گئی جس سے ایک بار قبل وہ ڈسی جا چکی تھی،ٹکٹ فیض ٹمن کو دے دیا گیا الیکشن ہوا لوگوں نے سخت دباؤ اور قیادت کی عدم موجودگی کے باوجود محض نواز شریف کے نام پر بے پناہ ووٹ دیے اور ثابت کیا کہ حالات خواہ کچھ بھی ہو ں میاں صاحب کا ووٹر اپنی جگہ پر ڈٹ کر کھڑا ہے کوئی دھونس دھمکی اور لالچ اسے نہ ڈرا سکتا ہے نہ خرید سکتا ہے،یہی وجہ تھی کہ ملک بھر میں تبدیلی تبدیلی کرتی تحریک انصاف کو یہاں پر پرانے لوگوں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑی اور جن وڈے چوہدری صاحب کو وڈے کپتان ڈاکو کہتے تھے انہی کے ساتھ انتخابی اتحاد کر نا پڑ گیا،یہاں ن لیگی ووٹرز کو ذہنی غلام کہنے والوں کو ذرا اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ ان کی کیا حیثیت ہے کہ جب حکم ملا کہ اپنی پارٹی کو چھوڑ کر ایک ایسی پارٹی کو نہ صرف ووٹ دو بلکہ کمپین بھی چلاؤ کہ کل جن کے خلاف ہم نے جہاد کا اعلان کیا تھا۔آج تلہ نگ میں عملاًمیدان میں صرف دو جماعتیں ہیں ایک مسلم لیگ ن اور دوسری مسلم لیگ ق،پی ٹی آئی کو اپنا وجود بنانے منوانے کے لیے ایک بار پھر زبردست جد وجہد کرنا پڑے گی،الیکشن ہوئے پرویز الہٰی بھاری مارجن سے کامیاب ہوئے اور ساتھ ہی دو دن بعد سیٹ چھوڑنے کا اعلان کر دیا،ایک بار پھر شور مچ گیا دونوں طرف سے کمی کوتاہیوں پر نظر ثانی کر کے میدان میں آنے کی تیاری زور و شور سے شروع ہو گئی ،ن لیگ کے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ امیدوار تبدیل کر دیا جائے مگر میاں شہباز شریف کا اصرار تھا کہ چونکہ رنر اپ فیض ٹمن ہیں لہٰذا ٹکٹ پرپہلا حق انہی کا ہے سردار فیض ٹمن کو بلا کر باہم رضا مندی سے ٹکٹ ان کے حوالے کیا گیا،ن لیگ کے ووٹرز اور سپورٹرز ایک نئے جوش و ولوے کے ساتھ میدان میں اترنے کی تیاری کرنے لگے ،چوہدری برادران کا خاصہ ہے کہ وہ کسی بھی مشکل صورت حال سے گھبراتے نہیں ،گذرے الیکشن میں انہوں نے سابقہ الیکشن کی طرح گاؤں گاؤں اور گلی گلی پھرنے کی بھی بجائے سرکردہ لوگوں پر محنت کرنے کا پروگرام بنایا ،ساتھ حافظ عمار یاسر کو فری ہینڈ دیا جنھوں نے بہترین سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوامی سیاست کو فروغ دے کر تمام جاگیرداروں سرداروں کو نکرے لگا دیا،کل تک جن کی مارکیٹوں میں حافظ صاحب کبھی ایک دکان خریدنے کی حسرت کرتے ہوں گے آج وہ محض حافظ صاحب سے ملاقات کے لیے پہروں بے تاب رہتے ہیں،ن لیگ اور ہی ٹی آئی تلہ گنگ میں کبھی بھی اس حال کو نہ پہنچتیں اگر حافظ عمار یاسر شاندار حکمت عملی کا مظاہرہ نہ کرتے،حافظ صاحب نے نہ صرف ٹمن کے سرداران سے اہلیان تلہ گنگ کی جان چھڑائی ساتھ ہی تحصیل چکوال سے جانیوالوں کو بھی ان کی حدود تک محدود کر دیا،حافظ عمار یاسر اب بہترین نبض شناس ہو چکے ہیں انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ کس شخص کی کیا کمزوری ہے غالبا اسی نبض و چہرہ شناسی کی وجہ سے انہوں نے سردار فیض ٹمن کی طبیعت میں لالچ کا عنصر بھانپ لیا اور نہایت محتاط طریقے سے کھیلتے ہوئے عین اس روز ان سے وہ فیصلہ کروا دیا کہ ضمنی الیکشن سے تو صاحب موصوف فارغ ہوئے تھے ہی سیاست سے بھی آؤٹ ہو گئے کیوں کہ جس دن جناب میدان اور ن لیگ چھوڑ کر بھاگے اس دن میاں صاحب کی شریک حیات کا جنازہ تھا کوئی اور وقت ہوتا تو شاید میاں برادران اور ان کے چاہنے والے بھول بھی جاتے مگر اب شاید وہ کبھی بھی اس بے وفائی کو نہیں بھولیں گے،اس فیصلے اور ٹائمنگ کا کریڈٹ بھی حافظ عمار یاسر کو جاتا ہے،فیض ٹمن صاحب ہزار دلیلیں اور تاویلیں پیش کر لیں کسی ایک پہ بھی کوئی اعتبار نہیں کرے گا، بظاہر یہ سار اکچھ پری پلان لگ رہا ہے کیوں کہ کورنگ امیدوار کے کاغذات جمع نہ کروانا اور عین اس وقت میدان سے بھاگنا جب تاریخ گذر چکی تھی اس سوچ کو تقویت دیتا ہے ،میر جعفر اور میر صادق جیسے لوگ وقتی طور پر بے پناہ فائدہ اور مال و دولت حاصل کر لیتے ہیں مگر تاریخ میں ہمیشہ نفرت اور ذلالت کی علامت کے طور پر جانے جاتے ہیں مجھے نہیں معلوم کسی نے اپنی اولاد کا نام ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد میر جعفر یا میر صادق رکھا ہو مگر مجھے کم از کم کوئی شخص آج تک ایسا نہیں ملا جس کا نام میر جعفر یا میر صادق ہو،کیا پتہ آئندہ ادھر بھی کچھ ایسا ہی ہو کیوں کہ آپ کی وجہ سے لوگوں نے اپنی برادریا ں اور بہن بھائیوں کی دشمنیاں مول لی ہیں ،،،،میرے پاس حلقہ این اے 65کے غداروں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں اس شعر کے علاوہ یہی 2008میں بھی لکھا تھاجب ایک صاحب اسی طرح بھاگے تھے ،،،(شاعر خالدشریف سے معذرت)
بھاگا کچھ اس طرح کہ سب دیکھتے رہ گئے
یارو ! ایک شخص سارے شہر کو شرمندہ کر گیا