جب ذہن میں نفرت،بغض و عناد اور
کینہ بھرا ہوا اور دل تعصب اور کدورت کی گندھ سے آلودہ ہو تو زبان سے
شرانگیز،منافقانہ کلمات کا ادا ہونا تعجب خیز بات نہیں،قانون توہین رسالت
295سی کے حوالے سے عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ بینڈیکٹ کا حالیہ بیان
اِسی کیفیت کا عکاس ہے،موصوف فرماتے ہیں کہ”پاکستان کے حکمران حوصلہ
کریں،آگے بڑھیں اور ناموس رسالت کے قانون کو ختم کرکے آسیہ بی بی کو فوراً
رہا کریں۔“ 10 جنوری کو سال نو کی روایتی تقریب میں 119 ممالک کے سفراءسے
خطاب کرتے ہوئے انہوں نے” مصر میں عیسائیوں کے خلاف زیادتیوں پر احتجاج اور
حکومت ِ مصر سے اُن کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت ِپاکستان
سے کہا کہ وہ قانونِ توہین ِ رسالت کی تنسیخ آسیہ کی فوری رہائی اور مسیحی
برادری پر مبینہ تشدد کے خاتمے کیلئے اقدامات کرے،اُن کا کہنا تھا کہ
پاکستان میں ناموس رسالت قانون کے ذریعے مذہبی آزادی کا حق چھینا جارہا ہے
اور یہ اقلیتوں کے خلاف جبر کا ایک ہتھیار بن گیا ہے۔“پاپائے روم کے اِس
سڑے تعفن انگیز بیان کے بعد پاکستان کے عوام میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ
گئی،لیکن پاکستان کے مغرب نواز غلامانہ ذہنیت پسند حکمرانوں نے تادم تحریر
نہ تو پاپائے روم کے اِس گستاخانہ بیان کی مذمت کی اور نہ ہی مصر جس کے
حکمران حسنی مبارک کو ساری دنیا سامراج کا ایجنٹ قرار دیتی ہے،جتنی جرات کا
مظاہرہ کرسکی کہ ویٹی کن کے سفیر کو ملک سے نکل جانے کا حکم دے دیتی ۔
پوپ بینڈیکٹ دنیا میں عیسائیت کے مبلغ اعظم ہیں،لیکن المیہ یہ ہے کہ
عیسائیت کے اِس روحانی پیشوا کے ذہن و فکر پر دین اسلام اور صاحب اسلام
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کے حوالے سے بغض و عناد
اور کدورت کے گھناؤنے مکروہ جالے تنے ہوئے ہیں اور دل پر نفرت اور تعصب کی
گندھی میلی تہیں جمی ہوئی ہیں،جو اُن کے موجودہ بیان میں حرف حرف اٹھتے
تعفن سے آرہی ہے،عالم کفر کی طرح یہ پاپائے روم کے پیٹ کا درد اور مروڑ ہی
ہے جس نے پوپ کو اپنے فرائض منصبی بھلا کر پاکستان کے قانون ناموس رسالت پر
دل آزار اور ناروا تبصرے پر آمادہ کیا،اسلام دشمنی میں وہ یہ اہم اور
بنیادی بات بھی بھول گئے کہ دنیا کا ہر مذہب اپنے عقائد و نظریات اور
برگزیدہ مذہبی ہستیوں کے حوالے سے عقیدت و احترام اور تقدس کا ایک ایسا
مخصوص دائرہ کار رکھتا ہے،جسے اُس مذہب کے ماننے والے اپنی متاع حیات
سمجھتے ہوئے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں،یہ وہ اصول ہے جو آپ کو
دنیا کے ہر مذہب میں ملے گا،یہ حقیقت بھی سب جانتے ہیں کہ جس طرح عیسائیت
کے بارے میں مسلم علماء کی کوئی رائے،کسی عیسائی کیلئے قابل قبول نہیں
ہے،بالکل اُسی طرح کسی عیسائی یا اُس کے پیشوا کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی
کہ وہ اسلام یا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور مقدس شخصیات کے بارے
میں تہذیب و اخلاق سے گری ہوئی غیر محتاط زبان استعمال کرے اور اُس ملک کے
منتخب نمائندوں کا منظور کردہ کسی قانون یا اُس قانون کے تحت سزا یافتہ کسی
مجرم کی رہائی کا مطالبہ کرے۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم قانون اور اِس قانون
کی زد میں آنیوالی ملعونہ آسیہ کی رہائی کے حوالے سے پوپ نے جس ہذیانی
کیفیت کا مظاہرہ کیا ہے،وہ نہ صرف یہ کہ اُن کے منصب کے شایان شان نہیں
بلکہ اُن کا یہ بیان کی کسی مذہب کے روحانی پیشوا کے بجائے ایک اسلام دشمن
متعصب شخص کی دلی کیفیت کا مظہر نظر آتا ہے،جس کے ذریعہ پیغمبر آخرالزماں
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین حق اور انکی ذاتِ مبارکہ کے
بارے میں مغلظات بکنے کی کھلی چھوٹ کی ترغیب دی گئی ہے،پوپ کا یہ بیان
مذہبی رواداری کے بجائے اشتعال انگیز جنونیت کا ایسا راستہ دکھاتا ہے جس کا
لازماً نتیجہ تہذیبوں کے ٹکراﺅ پر منتج ہوگا،واضح رہے کہ پوپ بینڈیکٹ اِس
سے قبل بھی متعدد مواقع پر نہ صرف دین اسلام کے حوالے سے متنازعہ بیانات دے
چکے ہیں بلکہ مادر پدر آزاد مغربی میڈیا پر دیئے جانیوالے گستاخانہ خاکوں
کی آزادی اظہار رائے کے جواز کے تحت تائید بھی کر چکے ہیں،دین اسلام کے
بارے میں پوپ بینڈکٹ اور اِس قبیل کے دوسرے آزادی اظہار اور انسانی حقوق کے
تحفظ کے نام نہاد علمبرداروں کا تعصب اپنی جگہ،مگر کوئی مسلمان اپنے عقیدے
اور ایمان کی بنیاد پر کسی بھی نبی اور پیغمبر کی شان میں گستاخی کا تصور
تک نہیں کر سکتا،کیونکہ تمام مذاہب کی برگزیدہ ہستیوں بشمول حضرت عیسیٰ
علیہ السلام کا احترام ایک مسلمان اپنے ایمان کا لازمی حصہ سمجھتا ہے ۔
جبکہ ناموس رسالت کا قانون صرف حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و
ناموس کے تحفظ کا ہی تقاضہ نہیں بلکہ تمام انبیاءعلیہم السلام کی عزت و
تکریم کا تحفظ اِس قانون کے زمرے میں آتا ہے،لہٰذا اِس قانون سے صرف
مسلمانوں کو ہی نہیں مسیحیوں کو بھی اتنا ہی فائدہ ہے جتنا کہ مسلمانوں
کو،جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس قانون کی وجہ سے ہی گستاخانِ رسول قانون و
انصاف کی عملداری کے دائرے میں آکر اپنے آپ کو عاشقان رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کی تادیبی کاروائی سے بھی بچاتے ہیں،اِس تناظر میں تو ناموس رسالت کے
قانون کے برقرار رہنے کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے،یہاں یہ
حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ پوپ بینڈیکٹ نے توہین مسیحیت کے قانون کے خاتمہ
کا کبھی تقاضہ نہیں کیا،حالانکہ اُس قانون کے تحت صرف حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کی توہین پر ہی سزائے موت نہیں دی جاتی،بلکہ پادری کی توہین بھی
اِسی قانون کے تحت اتنی ہی سزا ہے،پوپ کو بخوبی علم ہو گا کہ ملعون سلمان
رشدی کیخلاف برطانیہ میں مسلمانوں کے مظاہروں کے دوران برطانوی پارلیمنٹ سے
مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ توہین مسیحیت کے قانون میں ترمیم کر کے دیگر
انبیاء علیہم السلام کی توہین پر بھی اِس قانون کے اطلاق کی گنجائش
نکالے،مگر یہ مطالبہ اِس جواز کے ساتھ مسترد کر دیا گیا کہ توہین مسیحیت کے
قانون میں کسی قسم کی ترمیم ممکن نہیں ہے،یہ قانون صرف برطانیہ و آئیرلینڈ
میں ہی نہیں،سارے یورپ میں لاگو ہے،چنانچہ اِس صورتحال میں ہمیں ناموس
رسالت کے قانون میں ترمیم یا اسکے یکسر خاتمہ کے مطالبہ میں مسلمانوں اور
دین اسلام سے نفرت اور تعصب کے سوا کسی اورجذبے کا عمل دخل نظر نہیں آتا ۔
ہمارا کہنا ہے کہ عیسائیت کے پیشوائے اعظم کو اگر تہذیبوں کے مابین ہم
آہنگی،مختلف معاشروں کے درمیان خیر سگالی اور امن عالم سے اتنی ہی دلچسپی
ہے اور وہ خلوص دل سے تحمل،برداشت اور رواداری کے جذبوں کا فروغ چاہتے ہیں
تو انہیں ایک نظر اُن ممالک پر بھی ڈال لینی چاہئے جہاں اُن کے پیروکاروں
کی حکمرانی ہے،وہاں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے،کیا
پوپ کو خبر نہیں کہ بیسیوں ممالک پر محیط اُن کی مذہبی سلطنت میں مسلمانوں
کے ساتھ کیا رویہ اپنایا جاتا ہے؟ کہیں وہ اپنی مساجد کو مساجد نہیں کہہ
سکتے تو کہیں وہ مینار اور گنبد نہیں بناسکتے،کہیں نقاب اور حجاب کو نشانہ
عتاب بنایا جارہا ہے تو کہیں داڑھی رکھنے کا تعلق دہشت گردی سے جوڑ ا جاتا
ہے،کیا پوپ نہیں جانتے کہ آج امریکہ جو دنیا میں مذہبی آزادی، انسانی حقوق
اور اظہار رائے کا سب سے بڑا ٹھیکیدار ہے،میں مسلمان گراؤنڈ زیرو میں ایک
ایسا کمیونٹی سینٹر نہیں بنا سکتے جس کے ایک کمرے میں نماز کی سہولت رکھی
گئی ہو،کیا پوپ بینڈیکٹ نہیں جانتے کہ اُن کے مقلدین کھلے عام یہ کہتے
پھرتے ہیں کہ ”یہاں دہشت گردوں کو عبادت گاہ بنانے کی اجازت نہیں دی
جاسکتی۔“کیا پوپ نہیں جانتے کہ اُن کے شیدائی اور کروسیڈ کے علمبردار کوفہ
و بغداد کے گلی کوچوں میں کیا کھیل کھیلتے رہے ہیں؟کیا وہ یہ بھی نہیں
جانتے کہ اُن کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے افغانستان میں کیا کررہے ہیں؟کیا
انہیں اِس وحشت ودرندگی کی بھی خبر نہیں جس کا نشانہ فلسطین اور کشمیر کے
بے گناہ مسلمان بنے ہوئے ہیں ؟کیا پوپ ہینڈیکٹ نہیں جانتے کہ وہ کون لوگ
ہیں جنہوں نے برس ہا برس سے مسلم بیزاری اور اسلام دشمنی کو اپنی پالیسی کا
بنیادی رکن بنا رکھا ہے؟ ہم پوپ اور اُن کے حواریوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا
کبھی انہوں نے اِس طرف توجہ دی،دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے
درندگی کے مظاہروں کے خلاف بات کی،کیا کبھی کوئی آ واز اٹھائی؟ اگر نہیں تو
پھر انہیں یہ حق کس نے دیا کہ وہ آسیہ مسیح کے کیس میں دخل دیں اور پاکستان
کے آئین و قانون میں کھلی مداخلت کریں ۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ پوپ نے اسقاط حمل کے قانون کی حمایت کی،جبکہ اسلام
اِس کی محالفت کرتا ہے، پوپ نے ہم جنس پرستی کے قانون کو جائز قرار دیا جو
کہ غیر فطری عمل ہے،لیکن مسلمان ممالک میں سے کوئی نہیں بولا،مسلمانوں نے
کبھی یورپ،امریکہ اور برطانیہ کے کسی قوانین میں تبدیلی کا مطالبہ نہیں
کیا،اِس لیے کہ تمہارے ملک ہیں،تمہارے قانون ہیں،جو چاہے کرتے پھرو،ہمیں
اِس میں دخل اندازی کا اختیار حاصل نہیں،تو پھر پوپ بینڈیکٹ کس اصول اور
ضابطے کے تحت قانون توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس لینے کا مطالبہ
کر رہے ہیں؟درحقیقت مغرب کے اِسی رویے نے پاکستانی مسلمانوں کو مشتعل کر
رکھا ہے اور وہ انتہا پسندی کی طرف مائل ہو رہے ہیں،مغرب سے جب بھی اِس طرح
کا کوئی مطالبہ سامنے آیا تو پاکستان میں اِس کا شدید ردعمل ہوا اور عوام
یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ امریکہ اور مغرب ہمیں کیوں اُس راستے پر چلانا
چاہتے ہیں جو ہمارے دین،ہماری روایات،ہماری شناخت اور ہماری طرز معاشرت سے
مطابقت نہیں رکھتا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اِس حوالے سے سارا قصور ہمارے
حکمرانوں کا ہے جو اقتدار کے لالچ میں امریکہ اور مغرب سے ایسے وعدے کرلیتے
ہیں جنہیں پورا کرنا اُن کے بس میں نہیں ہوتا،آج ہم سے اچھا تو مصر ہے جس
نے یہ کہہ کر ویٹی کن سے اپنے سفیر کو واپس بلالیا کہ”ہم کسی کو اپنے ذاتی
معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دے سکتے۔“لیکن حیرت ہے کہ پوپ کے براہ
راست حکم اور مداخلت کے باوجود آج ہمارے حکمرانوں اور دفتر خارجہ کا مہر
بلب ہونا اِس بات کا غماز ہے کہ ہم ایک ایسی غلام ریاست بن چکے ہیں، جس کا
کام صرف اپنے آقاؤں کے حکم کی پیروی کرنا رہ گیا ہے اور دنیا میں ایسی
ریاست کی اپنی کوئی عزت،کوئی وقار اور کوئی اَنا و خودی نہیں ہوتی ۔ |