روایتوں کے ساتھ آگے بڑھو ورنہ

ماسٹر عبدالغفار خاں شہرتؔ بہرائچی، صاحب ِدیوان شاعر تھے جو خود تو بہرائچ میں ہی انتقال فرما گئے لیکن ان کا غیر مطبوعہ دیوان پاکستان ہجرت کر گیا۔ان کے کچھ اشعار مجھے یاد ہیں جن میں ایک شعر یہ بھی ہے:
ازل نے سینکڑوں قصے سنائے : : ہمیں تو نیند آئی اپنی داستاں سے
یہ شاعر کے خیالات ہو سکتے ہیں لیکن اگرہم غور کریں تو حقیقت سامنے آئے گی کہ ہم سب اپنے میں ہی پڑے ہوئے ہیں۔ہم ، ہمارا گھر ہمارا پریوار، ہمارے بچے ہماری جائداد سے باہر ہم نہیں نکل پا رہے ہیں۔یہ بہت اچھی بات ہے لیکن ہم کو اپنے اس دائرے کو مزیدبڑھانا چاہئے اوراپنے رشتے دار، اپنے پڑوسی ، اپنے محلہ سے آگے بڑھ کر اپنے ملک سے ہوتے ہوئے اس سے بھی آگے عالمی بھائی چارے تک جانا چاہے۔
میرے خیالی مرزا جی نے سوال کیا’’کیا بے پر کی ہانک رہے ہو؟اتناسب کون کر سکتا ہے؟مہاتما گاندھی جی کے بھی یہی خواب تھے اورونوبا بھاوے نے تو’ جۓ جگت‘ کا نعرہ بھی دیا تھالیکن کسی نے یاد رکھا؟ بڑے آئے ہیں مہاتما بننے۔‘‘۔
میں نے کہامرزا جی! مجھے مہاتما بننے کاشوق نہیں ہے، مجھے اپنا دوست بنے رہنے دیں ، میرے لیے یہی بہت ہے۔میں زمانے کو ٹھیک کرنے کی بات نہیں کر رہا ہوں۔میں صرف اپنے کواگر ٹھیک کر لوں تویہی میری معراج ہوگی اور یہی کوشش زمانے کو ٹھیک کرنے کی ابتدا ہو گی۔کسی نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ جب ہم کسی فوٹو گرافر کے پاس فوٹوکھنچانے جاتے ہیں تو وہ آخر میں ایک جملہ بولتا ہے ’اسمائل پلیز‘ اور ہمارے مسکراتے ہی وہ کلک کر دیتا ہے۔مسکراتے ہوئے فوٹو کھنچانے کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ ہمارا فوٹو خوبصورت ہو جائے۔اگر ہم ایک مسکراہٹ سے ایک فوٹو خوبصورت بنا سکتے ہیں تو یہی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر بنائے رکھنے سے اپنی اور دوسروں کی زندگی کو بھی خوبصورت بناسکتے ہیں۔
مرزا جی نے سراپا سوالیہ نشان بنتے ہوئے پوچھا؟’’ہر ووقت مسکراتے رہنے سے لوگ کھسکا ہوا نہیں کہیں گے؟‘‘
نہیں مرزا جی ’’اس وقت جو بھی ہم سے ملے گا وہ بھی مسکرا کر ہی ملے گا‘‘۔یہ ملاقات خوشی کے ماحول میں ہی ہوگی جس کااثر ہم دونوں کے لیے خوشگوار ہوگا۔اور اگر گھوڑے کی طرح شکل بنا کر رہیں گے تو لوگ ہمارے پاس آتے ہوئے ہچکچائیں گے بات کرنا تو دور کی بات ہے ملنے سے بھی کترائیں گے۔خود مسکراتے جائیں، مسکراہٹیں بڑھتی جائیں گی۔
مرزا جی بولے اچھا اے مسکراہٹ باز! یہ بتاؤ اگراپنی صحیح سمت پرپیدل چلے جا رہے ہیں اور کسی نے ہم پر سائکل چڑھادی اُس وقت میری مسکراہٹ کا زاویہ کیا ہونا چاہئے؟
مرزا جی! جس نے سائکل ہم سے ٹکرائی اس کا قطعاً یہ ارادہ ہمیں چوٹ پہنچانے کا نہیں رہا ہوگا۔لیکن ہم اگرمسکرا کر اس کو دیکھ لیں تو ویسے ہی غیرت سے پانی پانی ہو جائے گا اگر اس نے معافی چاہنے کے لیے ’ساری‘ کہہ دیا تو ہم کو بھی ’کوئی بات نہیں‘ کہنا پڑے گا۔ اور ہم ہلکی پھلکی چوٹ لیکر گھر آجائیں گے۔لیکن اگر ہم نے تکرار شروع کر دی کہ ’اندھے ہو، دیکھ کر نہیں چلتے ہو وغیرہ وغیر۔۔۔ تو بات کہاں تک بڑھ جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا، ہو سکتا ہے ہم ہلکی چوٹ کے ساتھ گھر آنے کے بجائے بڑی چوٹوں کے ساتھ اسپتال پہنچا دیے جائیں۔
مرزا جی نے منھ بناتے ہوئے کہا کہ ’تو کیا ہم کائر بن جائیں،جس کا جی چاہے ہمیں ٹھونک کر چلا جائے۔ہم احتجاج بھی نہ کریں۔ میں نے کہا مرزا جی !یہ میرا مسکرانا ہی احتجاج ہے جس کی وجہ سے اس نے معافی مانگی۔اگر میں اس کو ٹھونک ٹھانک کر اسپتال پہنچا دیتا تو کیا میں محفوظ رہتا دوسرے دِن میری ’لنچنگ‘ ہو جاتی۔پھر اس کے بعد سلسلہ شروع ہوتا ․․․․․․․․․․․․اور پھر․․․․․․․․․․․اور پھر․․․․․․
مرزاجی!معاف کرنے کو ہلکے سے نہ لیں یہ بہت ہی بہادری کا اور بڑا کام ہے۔ہمارے اسلاف کے پاس یہی ہتھیار تھا جسے ہم نے ترک کر دیا ہے۔ہم اس ہتھیار کو پھر پکڑ لیں، کامیابی پھر سے ہمارے قدم چومنے لگے گی۔اﷲ رب العزت کا ارشاد ہے کہ جس نے صبر سے کام لیا اور معاف کر دیاتو بے شک وہ اُن کاموں میں سے ہے جو(کامیابی کے لیے) ضروری ٹھہرا دیا گیا ہے۔(۴۲: ۴۳)۔اﷲ کے رسول ؐ نے اپنی جان کے دشمنوں کو بھی معاف کر دیا کرتے تھے۔جب ہماری مذہبی تعلیم ہی معاف کرنے کی ہے تو کیوں ہم اپنے عقیدے کے خلاف کام کریں؟ اس طاقتور ہتھیار کو کیوں نہ اپنے ساتھ رکھیں۔
مرزا جی ! اس سے پہلے کہ آپ کسی قسم کا سوال کریں اس سے پہلے میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہم پر ا گر ظلم ہوتا ہے تو ہم مسکرائیں گے نہیں اور نہ ظلم کو برداشت کریں گے بلکہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیکرقانونی چارا جوئی کریں گے۔کیونکہ ظلم کرنا اور ظلم سہنا دونوں ظلم کے خانے میں ہی رکھے جاتے ہیں۔لہذا ظلم کر کے اور ظلم برد اشت کر کے کسی بھی صورت میں ہمیں ظالم نہیں بننا ہے۔ساتھ ہی ساتھ اگر ہمارا حق مارا جا رہا ہے تو ہم اس کے لیے جد جہد کریں گے۔
مرزا جی نے کہا اگر تمہای بات پوری ہو گئی ہو تو میں کچھ بولوں؟میں نے کہا ’ارے شوق سے فرمائیں!‘
یہ جو تم اتنی دیر سے کہہ رہے ہو یہ کس کے لیے،میں تمہارے خیالات سُن کر کیا کروں گا؟بہت ضروری ہے کہ نوجوان طبقہ کو ان باتوں سے آگاہ کیا جائے۔ان کے مزاج میں گرمی ہے، جلد بازی ہے، چڑچڑاپن ہے،قوتِ برداشت نہیں ہے،وقت کی قدر نہیں ہے، احساس ذمہ داری نہیں،کلاس میں پچھلی سیٹ پر بیٹھنے والے ،کرکٹ میچ کو عقیدت کے ساتھ موبائل یا ٹی․وی․سے چپک کر دیکھنے والے غرض کہ اس طرح کی بد ہُنری میں یکتا لوگوں کو ایک کامیاب انسان بننے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے والدین کو اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھنی پڑیگی۔گھر کے باہر کیے گئے کام میں لگائے گئے وقت کا حساب والدین کو ہی لینا پڑے گا۔اس طرح سے وہ جلد سے جلد کام ختم کر کے گھر پہنچنے کے لیے فکر مند رہے گا۔اگر والدین فکر نہیں کریں گے تو وہ دس منٹ کے کام میں ایک گھنٹہ لگائے گا۔بچہ اگر جلدی سوتا ہے اور جلدی جاگتا ہے تو یہ اچھی علامت ہے اور اسکی تعریف ہونی چاہئے بلکہ تعریف تو ہر اچھے کام کی ہونی چاہئے۔بچہ چاہے جس عمر کا ہو اس کے اچھے کام کی تعریف ہونی ہی چاہئے اس سے اس کا اعتماد پختہ ہوتا ہے۔
ہمارا معاشرہ بہت پیچھے ہے،ہمیں پنچر جوڑنے، سائکل بنانے والے، کباڑ خریدنے والے،سبزی بیچنے والے،رکشہ چلانے والے جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔عموماً مسلم طبقہ اسی طرح کے کام کرتے ہیں اپنے بچوں کو بھی اپنے کام میں لگائے رہتے ہیں۔تعلیم کی اہمیت سمجھیں تو بچوں کو اسکول بھیجیں۔
جو بچے اسکول و کالج جاتے ہیں ان میں بہت کم ایسے ہوتے ہیں جوتعلیم حاصل کرنے میں سنجیدہ ہوتے ہیں اور ان کے والدین ان کو بینک لون لے کر کسی پرائیویٹ انجینئرنگ کالج یا میڈیکل کالج میں داخلہ کرا دیتے ہیں اور فارغ ہونے پرپرائیویٹ کمپنیوں یا نرسنگ ہوم میں نوکری پالینا اپنی معراج سمجھ لیتے ہیں۔لیکن یہی مسلم بچے یو․پی․ایس․سی․(UPSC)امتحان پاس کر لیتے ہیں تو 25نوکریوں میں سے ایک پکّی۔اس کے لیے کسی بھی بینک لون کی ضرورت نہیں ہوتی ہے صرف محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر آ پ کے حلقہ کا سپاہی مسلمان ہے توآپ کو اچھا لگے گا اور اگر آپ کے ضلع کے کمشنریاکپتان آپ خود ہوں تو کیسا لگے گا؟
مرزا جی نے جملہ ختم کر کے میری طرف دیکھا اور شیروانی کی جیب میں پان کا ڈبّہ تلاش کرنے لگے تو میں سمجھ گیا کہ مرزا جی اب صرف پان سے لطف اندوز ہونا چاہیں گے۔لیکن میرا قیاس غلط نکلا انھوں نے پان کا ڈبّہ جیب میں رکھتے ہوئے گویا ہوئے۔’اصل میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے دین بھی سیکھنا پڑتا ہے۔انٹرویو میں مسلمان بچوں سے اکثر دین سے متعلق سوالات پوچھ لیتے ہیں مثلاً ’اسلامی سال کا پہلا مہینہ کون سا ہے؟‘،’شریعت کس کو کہتے ہیں؟‘، یا ’دوسرے خلیفہ کا نام بتاؤ؟‘، اسی طرح کے بہت سے سوالات مسلم امید واروں سے پوچھ لیے جاتے ہیں۔اس لیے تیاری ہم کو چوطرفہ کرنی رہتی ہے۔
مدارس یا دارالعلوم کے طلبہ میں بھی بڑے جینیس ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ پریشانی یہ ہے کہ فارغ ہونے کے بعد اپنے کو فارغ البال سمجھنے لگتے ہیں۔ایک عالم کو میں جانتا ہوں جو’نیٹ‘ کیے ہوئے ہیں اور ڈبل ایم اے ہیں لیکن کسی بورڈ کا ہائی اسکول کا سرٹفکیٹ نہ ہونی کی وجہ سے وہ اردو مترجم کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔اگر یہ لوگ ہائی اسکول کر لیتے ہیں تو آگے بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں اور کمپٹیشن میں حصۃ لے سکتے ہیں۔
اس بار مرزا جی نے نہ صرف پان کا ڈبّہ نکالا بلکہ پان کھا کر جگالی بھی کرنے لگے۔
میں نے کہا مرزا جی! آپ نے بہت اچھی باتیں بتائیں بس ہمارے نوجوان طالب علم ڈاکٹر یا انجنئیر نہ بن کر بیوروکریٹ بننے کی کوشش کریں۔ میں اس بات کو دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بھارت میں جن محکموں میں تعصب نہیں ہوتا ان میں نمبر ایک پر ’یو نئین پبلک سروس کمیشن ‘ ہے۔اگر کسی نے ان کے لائق محنت کر رکھی ہے تو 25میں ایک نوکری پکی لیکن یہ سب خود کرنا پڑیگا اورچہرے پر مسکراہٹ بھی رکھنی پڑے گی۔

Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 74287 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.