اﷲ تعالیٰ نے خدمت دین اسلام کیلئے جو جذبہ بڑوں کو
عطا فرمایا نگاہ مصطفےٰ ﷺ کی بدولت بچوں کو بھی نصیب فرمایا۔کم سن اور نو
عمر بچوں میں جو دین کا جذبہ تھا وہ حقیقت میں بڑوں کی پرورش کا ثمر تھا ۔
اگر ماں باپ اور دوسرے اولیاء اولاد کو شفقت میں کھو دینے اور ضائع کر دینے
کے بجائے شروع ہی سے ان کی دینی حالت کی خبر گیری اور اس پر تنبیہ رکھیں تو
دین کے اُمور بچوں کے دلوں میں جگہ پکڑیں اور بڑی عمر میں جا کر وہ چیزیں
ان کیلئے عادت ہو جائیں گی ۔لیکن ہم لوگ اس کے بر خلاف بچے کی ہر بُری بات
پر بچہ سمجھ کر چشم پوشی کرتے ہیں بلکہ زیادہ محبت کا جوش ہوتا ہے تو اس پر
خوش ہوتے ہیں اور دین میں جتنی کوتاہی دیکھتے ہیں اپنے دل کو یہ کہہ کر
تسلی دیتے ہیں کہ بڑے ہو کر سب درست ہو جائے گا۔حالانکہ بڑے ہو کر وہی
عادات پکتی ہیں جن کا شروع میں بیج بویا جا چکا ہے ۔آپ چاہتے ہیں کہ بیج
چنے کا ڈالا جائے اور اس سے گندم پیدا ہو یہ مشکل ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ
بچے میں اچھی عادتیں پیدا ہوں ،دین کا اہتمام ہو ،دین پر عمل کرنے والا ہو
تو بچپن ہی سے اس کو دین کے اہتمام کا عادی بنائیں۔صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم
بچپن سے ہی اپنی اولاد کی نگہداشت فرماتے تھے اور دینی امور کا اہتمام
کراتے تھے ۔حضرت سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کے زمانۂ خلافت میں ایک شخص پکڑ کر
لایا گیا جس نے ماہ رمضان المبارک میں شراب پی رکھی تھی اور روزہ سے نہیں
تھا ۔حضرت سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ تیرا ناس ہو ہمارے تو
بچے بھی روزہ دار ہیں۔ (بخاری شریف)یعنی تو اتنا بڑا ہو کر بھی روزہ نہیں
رکھتا ۔اس کے بعد اس کے اسی(80)کوڑے شراب کی سزا میں مارے اور مدینہ منورہ
سے نکل جانے کا حکم فرماکر ملک شام کو چلتا کر دیا ۔
بچوں کو روزہ رکھوانا :ربیع بنت مُعَوِّذ کہتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ایک
مرتبہ اعلان کرایا کہ آج عاشورہ کا دن ہے سب کے سب روزہ رکھیں ۔ہم لوگ اس
کے بعد سے ہمیشہ روزہ رکھتے رہے اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے ۔جب
وہ بھوک کی وجہ سے رونے لگتے تو روئی کے گالے کے کھلونے بنا کر ان کو بہلا
یا کرتے تھے اور افطار کے وقت تک اسی طرح ان کو کھیل میں لگائے رکھتے تھے ۔
(بخاری)
بعض احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ مائیں دودھ پیتے بچوں کو دودھ نہیں پلاتی
تھیں۔
حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کی احادیث اور آیت کا نزول:
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا چھ سال کی عمر میں حضور اکرم ﷺ کے نکاح میں آئیں
مکہ مکرمہ میں نکاح ہوا اور 9 سال کی عمر میں مدینہ طیبہ میں رخصتی ہوئی ۔
وہ اٹھارہ سال کی عمر میں تھیں جب حضور اکرم ﷺ کا وصال ہوا۔اٹھارہ سال کی
عمر ہی کیا ہوتی ہے جس میں اس قدر دینی مسائل اور نبی اکرم ﷺ کے ارشادات
اور افعال ان سے نقل کئے جاتے ہیں کہ حد نہیں۔ مسروق رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں
کہ بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو میں نے دیکھا کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ
عنہا سے مسائل دریافت کرتے تھے ۔ عطاء رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ مردوں سے
زیادہ مسائل سے واقف اور عالم تھیں۔ابو موسیٰ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ جو
علمی مشکل ہمیں در پیش آتی تھی حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پاس اس کے متعلق
تحقیق ملتی تھی ۔ (اصابہ)
دوہزار دو سو دس حدیثیں کتب حدیث میں ان کی ملتی ہیں۔حضرت عائشہ رضی اﷲ
عنہا خودفرماتی ہیں کہ میں مکہ مکرمہ میں بچپن میں کھیل رہی تھی اس وقت
حضور اکرم ﷺ پر سورۂ قمر کی آیت بل الساعۃ موعدھم والساعۃ ادھیٰ و امر ط
نازل ہوئی۔
مکہ مکرمہ میں آٹھ برس عمر تک حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہ رہی ہیں ۔اس کم عمری
میں اس آیت کے نازل ہونے کی خبر ہونا اور پھر اس کا یاد بھی رکھنا دین کے
ساتھ خاص ہی لگاؤ سے ہو سکتا ہے ورنہ آٹھ برس کی عمر ہی کیا ہوتی ہے ۔
حضرت عمیر رضی اللّٰہ عنہ کا جہاد میں شرکت کا شوق:حضرت عمیر ابی اللحم کے
غلام اور کم عمر بچے تھے ۔جہاد میں شرکت کا شوق اس وقت ہر چھوٹے بڑے کی جان
تھا ۔خیبر کی لڑائی میں شرکت کی خواہش کی ،ان کے سرداروں نے بھی حضور اکرم
ﷺ کی بارگاہ میں سفارش کی کہ اجازت فرمادی جائے چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے
اجازت فرمادی اور ایک تلوار مرحمت فرمائی جو انہوں نے گلے میں لٹکالی ۔مگر
تلوار بڑی تھی اور قد چھوٹا تھا اس لئے وہ زمین پر گھسٹتی جاتی تھی ۔اسی
حال میں خیبر کی لڑائی میں شرکت کی چونکہ بچے بھی تھے اور غلام بھی اس لئے
غنیمت کا پورا حصہ تو ملا نہیں البتہ بطور عطا کے کچھ سامان حصہ میں آیا۔
(ابو داؤد)
ان جیسے حضرات کو یہ بھی معلوم تھا کہ غنیمت میں ہمارا پورا حصہ بھی نہیں
اس کے باوجود پھر یہ شوق کہ دوسرے حضرات سے سفارشیں کرائی جاتی تھیں۔اس کی
وجہ دینی جذبہ اور اﷲ تعالیٰ اور اس کے سچے رسول ﷺ کے وعدوں پر اطمینان کے
سوا اور کیا ہو سکتی ہے ۔
حضرت عمیر رضی اللّٰہ عنہ کا بدر کی لڑائی میں چُھپنا:حضرت عمیر رضی اﷲ عنہ
بن ابن وقاص ایک نو عمر صحابی ہیں ۔شروع ہی میں مسلمان ہو گئے تھے ۔حضرت
سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ مشہور صحابی کے بھائی ہیں ۔حضرت سعد رضی اﷲ عنہ
کہتے ہیں کہ میں نے اپنے بھائی عمیر رضی اﷲ عنہ کو بدر کی لڑائی کے وقت
دیکھا کہ لشکر کی روانگی کی تیاری ہو رہی تھی اور وہ اِدھر اُدھر چُھپتے
پھر رہے تھے کہ کوئی دیکھے نہیں ۔مجھے یہ بات دیکھ کر تعجب ہوا ۔میں نے ان
سے پوچھا کہ کیا ہو ا چھپتے کیوں پھرتے ہو ۔کہنے لگے مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں
حضور اکرم ﷺ مجھے نہ دیکھ لیں اور بچہ سمجھ کر جانے کی ممانعت کر دیں کہ
پھر نہ جا سکوں گا۔ اور مجھے تمنا ہے کہ لڑائی میں ضرور شریک ہوں کیا بعید
ہے اﷲ تعالیٰ مجھے بھی کسی طرح شہادت نصیب فرمائے آخر جب لشکر روانہ ہوا تو
جو خطرہ تھا وہ پیش آیا اور حضور اکرم ﷺ نے ان کے کم عمر ہونے کی وجہ سے
انکار فرما دیا مگر شوق کا غلبہ تھا تحمل نہ کر سکے اور رونے لگے ۔حضور
اکرم ﷺ کو شوق کا اور رونے کا حا ل معلوم ہوا تو اجازت عطا فرما دی۔ لڑائی
میں شریک ہوئے اور دوسری تمنا بھی پوری ہوئی کہ اسی لڑائی میں شہید ہوئے ان
کے بھائی حضرت سعد رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ ان کے چھوٹے ہونے اور تلوار کے
بڑے ہونے کی وجہ سے میں اس کے تسموں میں گرہیں لگاتا تھا کہ اُونچی ہو جائے
۔(اصابہ)
دو انصاری بچوں کا ابو جہل کو قتل کرنا:حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ
مشہور اور بڑے صحابہ میں ہیں ۔فرماتے ہیں کہ میں بدر کی لڑائی میں میدان
میں لڑنے والوں کی صف میں کھڑا تھا میں نے دیکھا کہ میرے دائیں اور بائیں
جانب انصار کے دو کم عمر لڑکے ہیں ۔مجھے خیال ہوا کہ میں اگر قوی اور مضبوط
لوگوں کے درمیان ہوتا تواچھا تھا کہ ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کر سکتے
۔میرے دونوں جانب بچے ہیں یہ کیا مدد کر سکیں گے ۔ اتنے میں ان دونوں لڑکوں
میں سے ایک نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا ۔چچا جان تم ابو جہل کو پہچانتے ہو ۔
میں نے کہا ہاں پہچانتا ہوں ۔تمہاری کیا غرض ہے ۔اس نے کہا مجھے یہ معلوم
ہوا کہ وہ رسول اﷲ ﷺ کی شان میں گالیاں بکتا ہے ۔اس پاک ذات کی قسم جس کے
قبضہ میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ لوں تو اس وقت تک اس سے جُدا نہ
ہوں گا کہ وہ مر جائے یا میں مرجاؤں۔ مجھے اس کے اس سُوال اور جواب پر بہت
تعجب ہوا۔اتنے میں دوسرے نے یہی سُوال کیا اور جو پہلے نے کہا تھا وہی اس
نے بھی کہا ۔ اتفاقاً میدان میں ابو جہل دوڑتا ہوا مجھے نظر پڑگیا ۔میں نے
ان دونوں سے کہا کہ تمہارا مطلوب جس کے بارے میں تم مجھ سے سوال کر رہے تھے
وہ جا رہا ہے ۔دونوں یہ سُن کر تلواریں ہاتھ میں لئے ہوئے ایک دم بھاگے چلے
گئے اور جا کر اُس پر تلوار چلانی شروع کر دی یہاں تک کہ اس کو گرادیا۔
(بخاری)
حضرت مُعاذ بن عمر و رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں لوگوں سے سُنتا تھا کہ ابو
جہل کو کوئی نہیں ما رسکتا۔ وہ بڑی حفاظت میں رہتا ہے ۔مجھے اسی وقت سے
خیال تھا کہ میں اس کو ماروں گا۔یہ دونوں صاحبزادے پیدل تھے اور ابو جہل
گھوڑے پر سوار تھا ۔صفوں کو درست کر رہا تھا جس وقت حضرت عبد الرحمن بن عوف
رضی اﷲ عنہ نے دیکھا اور یہ دونوں دوڑے تو گھڑ سوار پر براہِ راست حملہ
مشکل تھا اس لئے ایک نے گھوڑے پر حملہ کیا اور دوسرے نے ابو جہل کی ٹانگ پر
حملہ کیا جس سے گھوڑا بھی گرا اور ابو جہل بھی گرا اور اُٹھ نہ سکا۔یہ
دونوں حضرات تو اس کو ایسا کر کے چھوڑ آئے تھے کہ اُٹھ نہ سکے اور وہی پڑا
مرتا رہے ۔مگرحضرت معوذ بن عفراء رضی اﷲ عنہ ان کے بھائی نے اور ذرا ٹھنڈا
کر دیا کہ مبادا اُٹھ کر چلا جائے لیکن بالکل انہوں نے بھی نہ نمٹایا ۔اس
کے بعد حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے بالکل ہی سر جدا کر دیا ۔حضرت
معاذ بن عمرو رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت میں نے اس کی ٹانگ پر حملہ کیا
تو اس کا لڑکا عکرمہ ساتھ تھا ۔اُس نے میرے مونڈھے پر حملہ کیا جس سے میرا
ہاتھ کٹ گیا اور صرف کھال میں لٹکا ہوا رہ گیا ۔(اسداالغابہ)میں نے اس لٹکے
ہوئے ہاتھ کو کمر کے پیچھے ڈال لیا اور دن بھر دوسرے ہاتھ سے لڑتا رہا
۔لیکن جب اُس کے لٹکے رہنے سے دقت ہوئی تو میں نے اس کو پاؤں کے نیچے دبا
کر زور سے کھینچا وہ کھال بھی ٹوٹ گئی جس سے وہ اٹک رہا تھا اور میں نے اس
کو پھینک دیا ۔(خمیس)
یہ ہے دینی جذبہ جس کی بدولت ہم اپنے اسلاف پر نازاں ہیں۔ آج بھی اگر ہم
بچوں کو یہ واقعات سنا کر ان کی دینی خطوط پر تربیت کریں تو ہمارے ماضی کی
طرح ہمارا مستقبل بھی روشن ہو جائے گا۔
|