ملک کے حالات بد سے بدتر ہوتے
جارہے ہیں مہنگائی ، غربت ، بے روزگاری اور بد امنی نے وطن عزیز کی جڑیں
کھوکھلی کردی ہیں، ملک کے بدعنوان حکمران ملکی معیشت کے جنازے نکال رہے ہیں
ہر طرف ایک لوٹ کھسوٹ مچی ہوئی ہے اور ہم ہیں کہ سب سے ذیاد ہ متاثر ہونے
کے باوجود سر جھکائے اپنے ہی سروں کو بے رحم حالات کے پیروں تلے روندنے دیے
جارہے ہیں۔ ہم کون ہیں؟ تماش بین ، تماشہ گر یا وہ جن کے ساتھ تماشہ ہو رہا
ہے۔؟
اگر تماشہ ہمارے ساتھ ہورہا ہے تو پھر یہ بھی سمجھ لینا چاہیئے کہ تماش بین
وہ تمام قوتیں ہیں جو ہمارے مٹ جانے کا انتظار بڑی بے چینی سے کر رہے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ ہم ایک جاہلوں کی فوج ظفر موج ہیں یا یوں کہا جائے کہ
ایسی غلام ذہنیت کی سست اور غافل از انجام قوم ہیں ، جنہیں نہ اپنے مرنے کی
فکر ہے نہ اپنے بچوں کے سر بازار بکنے کا غم ہے نہ اپنی خواتین کی عزت و
ناموس کے نیلام لگنے کا ڈر ہے اور نہ کہ کوئی یہ سوچتا ہے کہ ہم حالات سے
تنگ ہوکر اپنے ہی ہاتھوں اپنی قیمتی جانیں انتہائی ذلیل ہوکر گنوا رہے ہیں۔
مگر ان سب کے باوجود کسی کا مجال ہے کہ باہر نکلے ۔ ان قصاب حکمرانوں کے
خلاف صدائے احتجاج بلند کرے ۔ ایک ہوکر ایک ایسی طاقت بن جائے کہ کسی طالع
آزما کو یا سماج دشمن وقت کے فرعونوں کو یہ ہمت ہو کہ ملک و ملت کے خلاف
کوئی قدم ا ُٹھائے۔
مگر ہم میں وہ اخلاقی جرات کہاں۔۔۔۔ہم تو صدیوں سے غلام تھے ان وڈیروں کے
جاگیرداروں کے ان سرداروں اور سیٹھوں کے۔ 21 ویں صدی میں بھی ہماری سوچ یہی
ہے کہ اگر ان کے خلاف لب کشائی کی ہمت کی تو پھر اس کا انجام کیا ہوگا؟ ہاں
ہماری تقدیر ہم نے خود ان کے ہاتھ میں د ی ہے۔ اب کچھ نہیں ہوگا کیونکہ ہم
نے فیصلہ کر لیا ہے کہ کچھ بھی ہو ووٹ انہی لوگوں کو دینا ہے جنہوں نے
ہمارے زندہ رہنے کے تمام اختیار اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہیں۔ ہم اپنی ماﺅں ،
بہنوں ، بیٹیوں کو ان درندہ صفت فرعونوں کے حوالے کرتے رہیں گے اپنی عزت سر
بازار بیچیں گے اور ان وقت کے نمرودوں کو جنہیں تم لوگوں نے خدا بنایا ہوا
ہے ان کے محلات پر کوئی آنچ نہ آنے دیں گے۔ ہم اُس کتے کے مانند وفاداری
دکھائیں گے جسے ایک ہڈی کے بدلے سار ی عمر پیر ہی چاٹنا ہوتا ہے۔
ساری دنیا ترقی کے منازل طے کرتے جارہی ہیں ۔ آپ کے بعد آزاد ہونے والی
ریاستیں آپ سے بہت آگے نکل چکی ہیں مگر آپ اب بھی گزرے ہوئے بھٹو کے نعرے
لگائیں۔ آپ اب بھی پاکستان کو بیچ کر کھانے ولوں کو یاد کریں ۔ اور اب بھی
بازار حسن کے دیوانے دن رات گشتیوں کے طواف کرنے والے انہی دو ہزار دفعہ
آزمائے ہوئے لوگوں کے گن گائیں۔ انہی وڈیروں کو ووٹ دیں انہی چوہدریوں کے
چوکھٹ پر سر رگڑیں اور کچھ پیسوں کے عوض اپنا ووٹ بیچیں اور پھر حالات سے
تنگ ہوکر اپنے ہی بچوں کو بیچنے جائیں اپنی عورتوں کو قتل کریں اور خود
دنیا کے گھٹیا ترین کاموں میں اُلجھ کر ساری زندگی یا تو جیل کی ہوا کھائیں
یا پھر نشے کی عادی بن کر چرسی موالی کی زندگی جئیں۔
یا پھر ایک دفعہ ہمت باندھیں اور اُٹھیں حالات کو بدل دیں نظام اپنے ہاتھ
میں لیں۔ نکلیں جہاں جہاں پڑے ہوئے ہیں وقت آپکا ہے اگر آپ میں کچھ دم ہے۔
کچھ اپنی اور اپنے آنے والی نسلوں کی کوئی فکر ہے۔ آپ کا ووٹ سب کچھ بدل
سکتا ہے۔ بس صرف ہمت کی ضرورت ہے اپنے آپ سے عہد کرلیں کہ اب کی بار ووٹ
صرف لائق اور اہل اُمید وار کو دیا جائے گا۔ آپنی تقدیر کسی اور کے ہاتھ
میں مت دیں۔ اپنی تقدیر خود بدلنی ہوگی۔ ایک دفعہ ۔۔۔۔ بس صرف ایک دفعہ خود
سے کمٹمنٹ کرلیں انشاءاللہ حالات بدل جائیں گے۔ |