اعتدال انسان کو متوازن رکھتا ہے، جب کوئی انسان اعتدال
کو چھوڑ دیتا ہے تو اس کا کردار و اخلاق بھی غیر متوازن ہوجاتا ہے۔ کسی غیر
متوازن شخص ، قوم یا ملک سے معتدلانہ برتاو کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ جس
سماج اور ملک میں اعتدال کے چراغ بجھا دئیے جائیں وہاں عوامی اخلاق اور
عمومی زندگی بھی غیر متوازن ہوجاتی ہے۔
پاکستان میں ہماری زندگیوں کو اس طرح غیر متوازن کیا گیا ہے کہ ہم نہ صرف
اپنے افکار و عقائد میں متشدد ہیں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ دیگر ممالک سے
پاکستان کے ریاستی تعلقات بھی توازن اور اعتدال کے بجائے ہمارے عقائد و
نظریات کے مطابق استوار ہوں۔ ہم اپنی غیر متوازن سوچ پر نظر ثانی کرنے کے
بجائے دوسروں کو بھی غیر متوازن کرنے پر ہمیشہ کمر بستہ رہتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں، ہمارے پروفیسرز، سکول ٹیچرز، وکلا،
علما اور صحافی حضرات کو بخوبی علم ہے کہ پاکستان میں وہ کونسی غیر متوازن
سوچ اور عقیدہ ہے جس نے مدارس کو دہشت گردی کے مراکز میں تبدیل کیا، جس نے
جوانوں کے ہاتھ میں کلاشنکوف تھمائی ، جس نے پاک فوج کو ناپاک فوج کہا اور
جس نے پاکستان میں اولیائے کرام کے مزارات اور مساجد پر بھی خود کش حملے
کئے۔
ہماری دانشور برادری نے اس غیر متواز سوچ اور عقیدے کو کبھی بے نقاب نہیں
کیا بلکہ اس پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ کہاجانے لگا کہ دہشت گردوں کا کوئی
مذہب اور عقیدہ نہیں ہوتا۔۔۔ یہ دہشت گرد، جنہوں نے پاکستان آرمی کے
جوانوں کے گلے کاٹے، جنہوں نے آرمی پبلک سکول کے بچوں کو شہید کیا، جنہوں
نے مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر تہہ تیغ کردیا، جنہوں نے قائداعظم کی
ریذیڈنسی کو دھماکے سے اڑادیا، سب انہیں جانتے اور پہچانتے ہیں لیکن پھر
بھی سب نے قسم کھا رکھی ہے کہ ہم نے غلط کو غلط نہیں کہنا۔
جب تک ہم غلط کو غلط ، غیر متوازن کو غیر متوازن، متشدد کو متشدد اور جارح
کو جارح نہیں کہیں گے تب تک اس ملک میں نظامِ تعلیم یکساں نہیں ہو سکتا،
صحت کی سہولتیں سب کے لئے ایک جیسی نہیں ہو سکتیں، دینی مدارس اور
یونیورسٹیوں سے تشدد کا خاتمہ نہیں ہو سکتا اور دہشت گرد ٹولوں کو منظم
ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔
یعنی کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ، یونہی بار بار ہمیں چند ریالوں اور ڈالروں
کے عوض فروخت کیاجاتا رہے گا، جس طرح ہمارے ہاں عقب ماندہ لوگ کچھ پیسے لے
کر ووٹ دے دیتے ہیں اسی طرح ہمارے حکمران بھی بین الاقوامی اداروں میں اپنا
ووٹ بیچتے ہیں جیساکہ گزشتہ دنوں ہم نے یمن کے مسئلے پر دیکھا۔
ڈالر اور ریال کی محبت میں ہم اس قدر غیر متوازن ہوچکے ہیں کہ ہمیں اس کی
کوئی پرواہ نہیں کہ ہم اپنی قوم اور فوج کی قیمت وصول کر رہے ہیں۔
ہم یہ بھی بھول چکے ہیں کہ ہمارا مقابلہ ہمفرے اور لارڈمیکالے کی باقیات سے
ہے، ہم میں سے کتنے ہی لوگ تو ہمفرے اور لارڈمیکالے کے بارے میں کچھ جانتے
بھی نہیں۔ آخر کب ہم قوم کو ہمفرے کے بارے میں بتائیں گے !، آخر کب ہمارا
راستہ لارڈ میکالے کے راستے سے جدا ہوگا؟ آخر کب تک ہم درھم و دینار اور
ڈالر و ریال کی خاطر دینی احساسات، مذہبی جذبات اور قومی احساسات کو فروخت
کرتے رہیں گے۔
ہمیں یمن کے خلاف ووٹ دینے سے پہلے صرف ایک مرتبہ یہ سوچ لینا چاہیے تھا کہ
ہماری سر زمین پر لشکرِ جھنگوی، سپاہ صحابہ ، طالبان ، داعش اور القاعدہ کی
بنیادیں کس نے ڈالیں؟ ہمارے لاکھوں بے گناہ پاکستانیوں کا خون کس کے سر ہے؟
یہ کتنی بڑی بے اصولی کی بات ہے اور یہ کیسی غیر متوازن حرکت ہے کہ جو ہمیں
پیسے دیتا ہے وہ عالمی اداروں میں ہمارا ووٹ تک خرید لیتا ہے۔ اگر ہم پیسوں
کی خاطر بکنے والے نہ ہوتے تو ہمارے وطن میں کوئی بھی دہشت گرد ٹولہ وجود
میں نہ آتا اور کوئی ہمارے بارے میں یہ نہ کہتا کہ ”پاکستانی ڈالر کیلئے
اپنی ماں تک کو بیچ دیتے ہیں“۔
کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے ضمیر سے پوچھیں کہ کیا ہندی اور
کشمیری برابر ہیں؟ کیا اسرائیلی اور فلسطینی ایک جیسے ہیں؟ کیا سعودی اور
یمنی میں کوئی فرق نہیں؟ کیا حملہ کرنے والا اور جس پر حملہ کیا جائے وہ
دونوں مساوی ہیں؟
جس طرح کشمیری اور فلسطینی کا ساتھ دینا ہر باضمیر قوم کی ذمہ داری ہے اسی
طرح اہلِ یمن کی حمایت کرنا بھی ہر غیرت مند کا فریضہ ہے۔ اگر کوئی یمن کے
مظلوم عوام کی حمایت کرتا ہے تو وہ اہلِ یمن پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ
اپنے غیرت مند ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔
آخر میں صرف اتنا کہتا چلوں کہ کبھی سوچئے گا کہ بھلا دنیا میں کسی بے
انصاف اوربے اصول شخص یا قوم کو بھی کبھی عزت نصیب ہوئی ہے!!!
|