ہنود ویہودجہاں ایک ہی سامراج کے زیرطفیل دنیابھرکے امن
وامان کیلئے ایک خطرہ بنے ہوئے ہیں وہاں استعماری وطاغوتی خصائل میں بھی
ایک دوسرے کے ہم آہنگ ہیں مگر تاز ہ ترین ڈویلپمنٹ کی روشنی میں دیکھیں
تودونوں بے شرمی ،اخلاق سوزی اوربے حیائی میں بھی ایک دوسرے کی راہ پرچل
نکلے ہیں۔حال ہی میں بھارتی عدالتعظمیٰ نے ایک فیصلہ صادرکیاہے جسے اباحیت
کے حوالے سے نرم سے نرم الفاظ میں بھی بے حدشرمناک فیصلہ ہی
قراردیاجاسکتاہے۔بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے بیک جنبش قلم انسان
کوجانورکے مقام تک پہنچا دیاگیاہے کیونکہ جانور، درندوں اورمویشی کی جبلت
بھی اس فعل سے مطابقت رکھتی ہے جوایک بڑے جمہوری ملک کی اعلیٰ ترین عدالت
نے کرڈالا۔بھارت کی سیاہ تاریخ میں چھ ستمبر2018ء سیاہ ترین دن کے
طورپرریکارڈہوگیاہے اور آئندہ زمانے میں مؤرخ یقیناً بھارتی النسل ہندوؤں
کوان کے آباؤاجداد عدالت عظمیٰ کے اس فعل پرشرمندہ کرتارہے گااورلعنت
ونفرین بھیجتارہے گا۔
فطرت سلیمہ کومسخ کرنے کرنے والے چنداباحیت سیزاورذہنی مریضوں کے
اصراروتقاف پر بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشراکی قیادت مین پانچ
رکنی بینچ نے 158سالہ پرانے انڈین پینل کوڈکی دفعہ 377کوختم کرکے ہم جنسی
کی خباثت کوقانونی حیثیت دے دی جس کے بھارت بھرکی جیلوں میں ہزاروں
افرادجواس شرمناک فعل میں ملوث سزاؤں میں قید تھے،ان کوبھی خاموشی کے ساتھ
رہاکردیاجائے گا۔بھارت جوہرحوالے سے اسرائیل کے نقش قدم پرگامزن ہے ،اب ہم
جنس پرستی کے حوالے سے بھی اسرائیل کے قدم سے قدم ملاکرایک بہت بڑی لعنت
میں مبتلا ہوگیاہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے جوفیصلہ سنایاہے اس کی روسے بھارت
کے ایڈزدہ اورتباہ حال معاشرے کے تابوت میں اس نے آخری کیل ٹھونک دی۔آج
ایڈزنے دنیامیں تباہی مچارکھی ہے اور تین سال قبل بھارت کے محکمہ صحت کے
وزیرنے اعدادوشماربتاکراس امرکابرملااعتراف کیاکہ ایڈزکی وباء ہم جنسی کی
بناء پربھارت کوتیزی سے اپنی گرفت میں لے رہی ہے۔ہم جنسیت اورکئی دیگروجوہ
کی نشاندہی کرتے ہوئے بھارتی وزیرنے بھارت میں ایڈزکی وباء پھیلنے کااعتراف
کیا۔ بھارتی سپریم کورٹ کے اس شرمناک اوراخلاق باختہ فیصلے بعدبھارت
اوراسرائیل اخلاقی گراوٹ کے لحاظ سے یکساں ہوگئے ہیں۔اس طرح''کندہم جنس
باہم جنس پرواز" کی مثال بھارت اوراسرائیل کے مشترکات پرپوری صادق آجاتی ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کے اس مذموم اورقبیح فیصلے سے قبل ''ہم جنس
پرستی''غیرقانونی اورقابل تعزیرجرم تھااوربھارتی آئین کی دفعہ 377کے تحت
ایساکوئی بھی فعل قانوناً سزا تھا۔ اگرچہ بھارت نے اپنے آئین میں اس شق
کواگریزکے قانون سے مستعارلیاتھاجسے انگریزوں نے 852ء میں نافذ کیاتھا جس
کے تحت غیرفطری جنسی فعل کوغیرقانونی قراردیاتھا۔ واضح رہے کہ اباحیت ،جنسی
آوارگی اورہم جنسی پرستی کے نتیجے میں مغربی اور امریکی معاشرہ کاخاندانی
نظام ٹوٹ پھوٹ کاشکارہے۔گزشتہ تین دہائیوں سے قریباًچارکروڑافرادایڈز کے
سبب عبرتناک موت کاشکارہوئے ہیں، اس کاسب سے بڑاسبب ہم جنس پرستی
بتایاجاتاہے۔مغرب میں ماہرین قوانین اورعدالتوں نے انسانی قدروں کوبے
حدپامال کیاہے وہ مابعدجدیدیت کے اس پہلوپرسختی سے کاربندہے جس میں مذاہب
اوراخلاقی اقدارکی کوئی اہمیت نہیں ہے۔وہاں انسان کے بنائے ہوئے قوانین ہی
حرفِ آخرہیں۔
اخلاق،اقداراوروہی الٰہی سے بے نیازہونے کے یہی نتائج سامنے آتے ہیں۔اب
بھارت بھی برہنہ کلب میں شامل ہوگیاہے۔آئندہ دنوں میں بھارتی معاشرہ کس حد
تک کامل تباہی سے دوچارہوگااس کااندازہ لگاناچنداں مشکل نہیں۔جس بھارتی
سپریم کورٹ نے ''ہم جنسیت''کوقانونی قراردیکربھارتی معاشرے پر ایٹم بم
گرادیا،اسی بھارتی سپریم کورٹ نے 2013ء میں دہلی ہائی کورٹ کے 2009ء کے
فیصلے کاکالعدم قراردیتے ہوئے ''ہم جنس پرستی''کوغلاظت میں لت پت دوہم جنس
کے درمیان ''ہم جنس پرستی''کوجرم کے کٹہرے میں لاکھڑاکیاتھالیکن اس کے
بعد''ہم جنسیت'' کی غلاظت میں لت پت پانچ فاعل ومفعول کی درخواست پربھارتی
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشراکی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے ہم جنس
پرستی کوجرم کی ذیل سے ہٹانیکے متعلق درخواستوں کی سماعت کی ،اس بینچ میں
چیف جسٹس آراین نریمن،جسٹس اے ایم کھانوکر،جسٹس جی ڈی وی چندرچوڑاورجسٹس
اندملہوترابھی شامل ہیں۔بھارتی سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں مودی حکومت کی
نمائندگی کرنے والے ایڈیشنل سالیسٹرجنرل تشتارمہتانے 11جولائی 2018ء
کوسپریم کورٹ میں تین صفحات کا بیانِ حلفی داخل کراکے کہاکہ مودی حکومت
کادفعہ377کے آئینی جوازکے متعلق کوئی مؤقف نہیں ہے۔مودی حکومت کے نمائندے
نے گیندسپریم کورٹ کے احاطے میں ڈالتے ہوئے کہاکہ اب یہ سپریم کورٹ
پرمنحصرہے کہ ہم جنس پرستی کوجرائم کی ذیل میں شمارکرتی ہے یانہیں۔
آسمانی کتابوں نے سختی سے پابنداورہم جنسیت کی تمام شکلیں تمام آسمانی
مذاہب میں حرام وناجائز ہیں۔رب العالمین کی طرف سے آسمانی مذاہب کی تنسیخ
اوراسلام کے کامل و عامل اور آخری دین قرارپانے کاحکم نازل ہونے
پرغورکیاجائے تو صاف طورپرپتہ چلتاہے کہ اسلام مکارم اخلاق اعلیٰ صفات
اورعمدہ کردارکی تعلیم دیتاہے ۔اسلام کابنیادی مقصد معاشرے کوصالحیت
بخشتاہے، اسلام میں شادی اورنکاح کامقصدصرف جنسی آلودگی کے تمام غیرفطری
راستوں کاراستہ روکنا ہی نہیں بلکہ نسل انسانی کافروغ،بقا،تحفظ اور زوجین
کے مابین مؤدت ومحبت اور تعاون وتناظر، مشروعیت کانکاح وغیرہ اہم ترین
مقاصدکی تکمیل بھی ہے۔اسی لے جنس مخالف اوران کے ولی کی رضامندی کے ساتھ
علی الاعلان نکاح کا حکم دیا گیاہے تاکہ معاشرے میں کسی قسم کی بدگمانی
اورپرائی جنم نہ لے،اس کے برعکس آج کامغربی، امریکی ،یہودی اوراب
ہندومعاشرہ جوخدائی احکام کاصریحاً باغی ہوچکاہے گندگی اورغلاظت کی گہرائی
میں گر چکاہے۔
اسلام نے اس فعل کوحرام قراردیاہے۔قوم لوط اسی جنسی آوارگی کے سبب عذاب سے
دوچارہوئی تھی۔اس عمل پران کااتنا اصرارتھاکہ باوجود حضرت لوط کی تعلیمات
کومستردکرکے وہ اس جرم عظیم کوانجام دیتے تھے پھرجب پکڑآئی توایسی آئی کہ
وہ آج تک دوسروں کیلئے عبرت کے سبب بنے ہوئے ہیں۔پتھروں کی بارش اورتباہ کن
زلزلوں نے ان کی بستی کوزمین دوز کر دیا۔تاریخ کے صفحات اس حقیقت کے ساتھ
بھرے ہوئے ہیں کہ قوم لوط جہاں آبادتھی آج اس جگہ بحرمردارکی خطرناک موجوں
کاقبضہ ہے۔آج بھی اس کے اطراف واکناف میں نحوست کاسایہ اورعبرت کی فضا قائم
ہے جووہاں جانے والوں کے دلوں پرہیبت طاری کردیتی ہے۔اس جرم کی پاداش میں
اس قوم کی تباہی کے باوجود آج بھارت کی سپریم کورٹ نے بھارتی شہروں اور
شہریوں کواسی راہ پرڈال دیا ہے جوژولیدگی فکراوربصیرت کی پستی کامظہرہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے جنسی ہم پرستی کے حق مین فیصلہ دینے کے
باوجودبھارتی مسلمانوں پریہ فرض ہے کہ وہ یہ فیصلہ مستردکردیں کیونکہ یہ
اسلام کے متصادم ہے۔بھارتی مسلم علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہم جنس پرستی
کیغلاظت وقباحت کواہم الم نشرح کردیں اورتمام ادیان ومذاہب اورافکارونظریات
کے موضوع کواباحیت سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ فطرت کے خلاف عمل
ہے۔بھارت کے سب سے بڑے دودینی اداروں،دیوبند اورندوی علماء کی ذمہ داری
بنتی ہے کہ مسلم معاشرے سمیت غیرمسلموں میں بھی اس وبائی اورذہنی مرض سے
متعلق دلائل کی روشنی میں گفتگوکرکے بھارتی سپریم کورٹ کے اس جاہلانہ فیصلے
کے خلاف ایک مشترکہ سوچ وفکراختیارکرتے ہوئے ہندوؤں کوبھی سمجھائیں کہ
اگروہ ایڈزمیں مبتلاہوں گے تویہ بھی انسانیت پرایک عظیم ظلم ہوگا۔ |