حیا اشرف المخلوقات کی صفت ہے، اللہ تعالی نے حیا داروں کی مدح سرائی فرمائی ، فرشتے بھی حیا سے متصف ہیں، آپ ﷺ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: (کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں) مسلم" />

عفت ؤ حیا اسلامی معاشرے کی بنیاد ھے

حیا ایک ایسی اخلاقی قدر ہے جو اولین زمانۂ نبوت سے مطلوب اور اخلاقی فرائض میں شامل ہے، تمام کے تمام انبیائے کرام نے اپنی امتوں کو حیا کی ترغیب دلائی، نیز سابقہ انبیائے کرام کی شریعتوں کی تنسیخ کے دوران حیا کو منسوخ نہیں کیا گیا، نہ ہی اس کا کوئی متبادل لایا گیا؛ کیونکہ حیا سر تا پا اعلی اور افضل ترین خصلت ہے، عقل اس کی خوبیوں کی معترف ہے؛ چنانچہ جس چیز میں اتنی خوبیاں پائی جاتی ہوں اس کی تنسیخ یا اس میں تبدیلی روا نہیں ہو سکتی ؛ آپ ﷺ کا فرمان ہے: (لوگوں نے ابتدائی نبوتوں کی تعلیمات میں سے جو چیز [آج تک] پائی وہ یہ ہے کہ: "جب حیا نہ ہو تو جو مرضی کر")بخاری

حیا اشرف المخلوقات کی صفت ہے، اللہ تعالی نے حیا داروں کی مدح سرائی فرمائی ، فرشتے بھی حیا سے متصف ہیں، آپ ﷺ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: (کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں) مسلم

اﷲ تعالیٰ نے انسان میں اپنے وجود کو برقرار کھنے اور پیدا ئش و فزائش نسل کے لئے کچھ حیوانی خواہشات اور نفسانی جذبات رکھ دیئے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اسے قوت فکرو نظر اور عقل و وحی کے ذریعے جائز اور ناجائز میں تمیز بتادی ہے۔ جسم اور روح دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں اور دونوں کو مناسب توجہ دے کر ان کی نشو ونما کا خیال رکھنا انسان کا فرض ہے اسلام یہ نہیں چاہتا کہ انسان صرف حیوانوں کی طرح کھاپی کر پیدائش و افزائش کے حیوانی جذبات کو تسکین دینے کے لیے اپنی زندگی کو وقف کردے اور نہ یہ چاہتا ہے کہ وہ جسمانی ضرورتوں اور فطری جذبات کی بینج کئی کرکے روحانی ترقی حاصل کرے۔ اسلام صرف یہ چاہتا ہے کہ انسان اپنے جسمانی تقاضوں کو عقل و دین کے تحت رکھ کر زندگی بسر کرے۔ جب کوئی انسان اس طرح کرتا ہے کہ نفسانی خواہشات کو عقل و دین کے حاتحت رکھ کر قابو میں لاتا ہے اور روحانیت کو حیوانیت پر غالب رکھتا ہے تو اسے عفت و حیا والا کہتے ہیں اور جب وہ نا شائستہ کاموں سے خوف خدا کے جذبے کے تحت گریز کرتا ہے تو اسے حیا دار کہتے ہیں۔عضت و حیا اسلامی اخلاقی کی فہرست میں روح رواں اورجان کی حثییت رکھتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عفت و حیا کی تعلیم دی ہے اور اس خلقِ عظیم کو تمام اسلامی فضائل میں بڑا اقرار دیا ہے۔ رسول اﷲ ﷺنے فرمایاہے ہر دین کے لیے کچھ اخلاق ہیں اور اسلام کا اخلاق حیا ہے۔حیا ایک ایسی صفت ہے جس کی وجہ سے انسان بڑے سے بڑے رذائل سے بچ جاتا ہے جب تم دیکھوکہ آدمی ایسا کام جو شا یان شان نہیں کرنے سے جھجکتا ہے یا شرمندگی سے اس کے چہرے پر سرخی آجاتی ہے تو سمجھ لو کہ اس کا ضمیر زندہ ہے۔ جب کسی کو دیکھو کہ کسی شر اور گناہ کے ارتکاب کی کوئی پرواہ نہ کرتا ہو اور آثار ظاہر ہوتے ہوں تو سمجھ لو کہ وہ ایک ایسا شخص ہے جس میں کوئی بھلائی نہیں:چنانچہ نبی ﷺ کا رشاد ہے:یعنی جب تو حیا کو کھودے تو جو مرضی میں آئے کر:ایمان بندوں اور پروردگار کے درمیان ایک لطیف تعلق ہے۔ اس کا سب سے پہلا اثر تزکیۂ نفس، اعمال اور اخلاق کی درستی ہے۔ ان چیزوں کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہو سکتی ہے جب تک نفس میں ایک زندہ جذبہ نہ ہو جس کی بنا پر انسان غلطیوں سے بچا رہے اور فضول باتوں سے کراہت محسوس کرے۔بلا جھجک حقیر چیزوں میں پڑا جانا اور صغیر گناہ ہوں کی پرواہ کرنا حیا کے فقدان سے ہوتا ہے اور ایمان کے فقدان کی دلیل ہے رسول ﷺ نے فرمایا:حیا اور ایمان ساتھ ساتھ ہیں جب ایک اُٹھ جاتا تو دوسرا بھی اُٹھ جاتا ہے،جب انسان اپنی حیا کو گم کردیتا ہے تو وہ ایک وحشی درندے کی مانند ہوجاتا ہے اپنی خواہشات کے پیچھے دوڑتا ہے اور اس کی راہ میں اچھے سے اچھے جذبات کو روندتا ہے وہ غریبوں کا حال عفت کرتا ہے اور اپنے دل میں رحم نہیں پاتا ۔ مخلوق خدا کو مصائب میں دیکھتا ہے اور اس پر اثر تک نہیں ہوتا اس کی خود پرستی نے اس کی آنکھوں پر تاریک پردہ ڈال رکھا ہے جو انسانیت کی حدود سے باہر ہوگیا ہے ۔ حیا کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے منہ کو فحش باتوں سے پاک رکھے۔ بے حیائی کی بات زبان پر نہ لائے اور بری باتوں کے اظہار سے شرمائے۔ یہ بے اوبی کی بات ہے کہ انسان کی زبان سے فحش الفاظ نکلیں ۔ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:حیا ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں ہے اور فحش گوئی جفا سے ہے اور جفا دوزخ میں ہے: بعض حکماء نے حیا کے تین مراتب لکھے ہیں۔(1 ) احکام وا وامرالٰہی کی پابندی اور اﷲ کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچنا، نفسانی خواہشوں پر قابو رکھنا اور موت کو یاد کرکے بری خواہشات سے اجتناب کرنا

(۲) لوگوں کی ایذاء رسانی سے باز رہنا ۔(۳) خود انسان کا تنہائی میں اپنے آپ سے حیا کرنا اور ہر حالت میں خدا کو حاضر سمجھ کر تمام گناہوں سے بچنا۔جس شخص نے حیا کے یہ تین مراتب حاصل کرلیے اس کے اند تمام محاسن اور خوبیاں جمع ہو گیءں۔ وہ اخلاق فاصلہ کا بہترین نمونہ ثابت ہوگا۔ حیا بھلائی کی جڑ ہے اورہر عمل خیر میں حیا کا عنصر ہوتا ہے۔رسول اﷲﷺ نے فرمایا ہے۔فحش جس چیز کے ساتھ لگتا ہے اسے عیب دار کردیتا ہے اور حیا جس چیز کے ساتھ لگتی ہے اسے زینت دے دیتی ہے۔یہ امر بھی حیاسے ہے کہ انسان اپنے ساتھ رہنے والوں کے حقوق و مراتب پہچانے، اور صاحب فضل سے اس کے علم و فضل کا احترام کرتے ہوئے ملے۔ اس کی آواز سے آواز بلند نہ کرے اور اس سے آگے قدم نہ بڑھائے۔حدیث میں ہے:جن سے سیکھو ان کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ۔نیز حدیث میں یہ بھی آیا ہے۔ اے اﷲ میں اس زمانے تک زندہ نہ رہوں کہ جس زمانے میں اہل علم کا اتباع نہ کیا جائے اور بردبار سے حیا نہ کی جائے۔حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:اﷲ سے پوری پوری حیا رکھو: ہم نے کہا یا رسول اﷲﷺ ہم تو پوری پوری حیا کرتے ہیں آپ نے فرمایا: بات یہ نہیں ہے ۔اﷲ سے کما حقہ حیا کرنا یہ ہے کہ سر کی حفاظت کرو اور جو کچھ اس نے محفوظ رکھا ہے۔ اور پیٹ کی حفاظت کرو اور جو کچھ اس نے محفوظ رکھا ہے اور عورت اور بڑھاپے کا خیال رکھو۔دیکھو جس کو مطعِ نظر آخرت ہوگی وہ حیات دینوی کی زینت کو چھوڑ دے گا۔یعنی مقصد نہیں بنائے گا اورآخرت کو دُنیا پر ترجیح دے گا۔ جس نے ایسا کیا اس نے اﷲ سے پوری پوری حیا رکھی۔حضور اکرمﷺ سب سے زیادہ عفت و حیا کے پیکر تھے اور فحش باتوں سے آپﷺ کو طبعی نفرت تھی۔ ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ پردہ نشین با حیا عورت سے بھی زیادہ حیا دار تھے اورجب کوئی ناپسند چیز دیکھتے تو ہمیں اس کا احساس آپﷺ کے چہرے سے ہوجاتا۔ یعنی حیا کی وجہ سے اس کی ناپسندیدگی کا اعلان نہ فرماتے بلکہ چہرہ ہی آپﷺ کی قلبی کیفیت کا اظہار کر دیتا ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عفت و حیا کے معاملے میں نبی کریم ﷺ کی بتائی ہوئی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558135 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More