نیلم کے بعد بھارت چناب کا بھی رخ موڑ رہا ہے۔ اس کے پہلے
فیز کے لئے 9ارب روپے مختص کر دیئے گئے ہیں۔مزید مڑوہ (کشتواڑ)کی35ہزار
مسلم آبادی کو بے دخل کرتے ہوئے چناب پر 800میگاواٹ کابرسار پروجیکٹ بھی
تعمیر کیا جا رہا ہے۔اس کے لئے ہزاروں کنال زرعی زمین، میوہ باغات سمیت
جنگلات کو تباہ کیا جارہا ہے۔ دریائے چناب اور جہلم پر ڈیم اور بجلی گھروں
کی تعمیر کے لئے بھارت زیر زمین بارودی سرنگوں کے تباہ کن دھماکے کر رہا
ہے۔تین اضلاع پر پھیلی وادی چناب میں زلزلہ کے سیکڑوں جھٹکے آچکے ہیں۔ یہ
وادی مقبوضہ کشمیر کے ڈوڈہ، بھدرواہ، کشتواڑ، رام بن ، گول، ریاسی، اکھنور
جیسے بڑے قصبوں اور سیکڑوں دیہات پر مشتمل ہے۔جو وادی کشمیر کو اننت ناگ یا
اسلام آباد اور جموں خطے کو اودھم پور اور کٹھوعہ جب کہ بھارتی ریاست ہماچل
پردیش کو چمبہ سے ملاتی ہے۔ وادی چناب اور پیر پنچال کا خطہ زلزلوں سے کئی
بار لرز اٹھا۔ 2013میں یہاں زلزلیمیں 70شہری جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔
سیکڑوں تعمیرات کو نقصان پہنچا۔یہاں ہمالیہ کا سلسلہ ہے۔ امریکی اوریگن
سٹیٹ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک مطالعہ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہہمالیہ
میں زلزلے سے 10لاکھ افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔ بھارت حقائق کو چھپانے کے لئے
فرضی ریسرچ کرارہا ہے۔ اس ریسرچ میں ظاہر کیا گیا کہ زلزلے کے سیکٹروں
جھٹکے ڈیموں اور بجلی گھروں کی تعمیر کا شاخسانہ نہیں۔ سچ یہ ہے کہ بھارت
نے ڈوڈہ، بھدرواہ اور کشتواڑ ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں لاکھوں انسانوں کی
زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بھارتی پالیسی کے خلاف کوئی آواز بلند
نہیں ہو رہی ہے۔ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر سے پاکستان بہنے والے دریاؤں
کا رخ موڑ دیا یا ان پر ڈیم اور بیراج تعمیر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو
پاکستان پانی کو بوند بوند کو ترس جائے گا۔ پنجاب بنجر ہو جائے گا۔ جو پورے
ملک کو اناج، سبزیاں ، میوہ جات سپلائی کرتا ہے۔ کشمیر کا پانی روکنے کے
لئے بھارت کشمیریوں کا خون بہا رہا ہے۔ کشمیریوں کا لہو جہلم اور نیلم ہی
نہیں چناب اور توی میں بہہ رہا ہے۔ بھارتی ڈیموں اور بجلی گھروں کی تعمیر
سے ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جنگلی حیات بھی متاثر ہو رہی
ہے۔ اس کے کئی پہلو ایسے ہیں جنھیں پاک بھارت مذاکرات میں زیر بحث نہیں
لایا جاتا۔ وادی چناب زلزلہ زدہ ہی نہیں بلکہ یہاں کثرت سے سیلاب آتے ہیں
اور لینڈ سلائیڈنگ ہوتی ہے۔ بھارت نے دنیا کو بہلانے کے لئے نام نہاد
کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جو فوری طور پر تکنیکی منظوری دینے میں دیر نہیں
لگاتیں۔ بی جے پی کے شدت پسند نرمل سنگھ کو سابق ریاستی وزیر پانی و بجلی
کا منصب دینے کا ایکبڑا مقصد یہی تھا کہ وہ ڈیموں اور بجلی گھروں کی تعمیر
میں رکاوٹیں دور کریں اور کلیئرنس یقینی بنائیں۔ وہ ایسا ہی کر رہے تھے کہ
گورنر راج آ گیا۔ گورنر بلا خوف و خطر یہ کام کر رہے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم کی دھمکی بھی مدنظر رکھی جائے اور بگلیہار ڈیم کے سلسلے
میں پاکستان کے بجائے بھارت کے حق میں غیر جانبدار ماہر کا فیصلہ بھی چشم
کشا ہے۔ نریندر مودی کی پاکستان کی جانب بہنے والا پانی روکنے کی دھمکی پاک
بھارت آبی جنگ کے خدشات کو درست قرار دیتی ہے کہ بھارت اس معاہدے کو یک
طرفہ طور پر ختم کرنے کے لئے پر تول رہا ہے۔سابق پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج
عزیزکے اس بیان نے جنگ کے خدشات کو مزید تقویت دی کہ سندھ طاس معاہدے ختم
کرنے کی کوشش اعلان جنگ سمجھی جائے گی۔ ایشین ترقیاتی بینک اے ڈی پی کی
رپورٹ بھی مدنظر رہے کہ پاکستان کے ہاں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 30ایام
تک محدود ہو چکی ہے جبکہ یکساں آب و ہوا کے حامل ممالک کے ہاں یہ صلاحیت
ایک ہزار ایام کے لئے لازمی قرار دی گئی ہے۔ نریندر مودی نے ایک بار پاک
بھارت مذاکرات اور دوستی کے لئے ایک شرط یہ بھی لگائی تھی کہ پاکستان کو
پانی دینا عسکریت پر روک لگانے سے مشروط ہو گا۔ پانی کو بھارت جنگی ہتھیار
کے طور پر آزمانا چاہتاہے۔ اس مقصد کے لئے وہ تیزی سے پانی ذخیرہ کرنے کے
منصوبوں پر کام کر رہا ہے تا کہ ان کی فوری تکمیل پاکستان کی کسی عالمی یا
سفارتی رکاوٹ کا سبب نہ بن سکے۔ پانی کو ایٹم بم کے متبادل کے طور پر آزما
کر بھارت کس حد تک کامیاب ہو گا ، اس کا انحصارعمران خان حکومت کی حکمت
عملی اور بین الاقوامی سفارتکاری پر ہے۔ اگر یہ موثر اور نتیجہ خیز ہے تو
بھارتی کامیابی کے امکانات اس تناسب سے کم از کم ہوں گے۔ اس کے لئے لابنگ
کی جا سکتی ہے۔ خارجہ پالیسی اگر متحرک بن گئی اور اسے عالم مفادات سے
منسلک کیا گیا تو اس حکمت عملی کا نتیجہ خیز ثابت ہونا یقینی ہو سکتا
ہے۔مگر عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب سے کترا کر اہم
موقع گنوا دیا۔جہاں وہ دنیا کے 160سے زیادہ صدور، وزرائے اعظم اور سربراہاں
سے برائے راست تبادلہ خیال کر سکتے تھے۔اس ناقص حکمت عملی اور سوجھ بوجھ کے
فقدان کا کیسے ازالہ کیا جائے گا، یہ دیکھنا باقی ہے۔ ماہرین کی آراء اور
اندرون خانہ وابستگان کی فہم و فراست کا اسی تناظر میں امتحان ہو گا کیوں
کہ آج ان کے سامنے بڑا چیلنج ہے۔ سرکاری ادارے، تھینک ٹینکس کی معلومات اس
لئے محدود ہوں گی کہ وہ مختلف امور پر کام کرتے ہیں۔ جبکہ آبی ایشوصرف سندھ
طاس واٹر کمیشن تک سکڑ گیا ہے۔ اس کے لئے کمیشن کے اختیارات، پروفیشنل
ماہرین کی خدمات، پارلیمانی کمیشن کی تشکیل جیسے اقدامات پر غور ہونا
چاہیئے۔ ہو سکتا ہے یہ کام کسی سطح پر ہو رہا ہو کیوں کہ ظاہری طور پر ایسا
محسوس نہیں ہوتا۔ حکومتی حلقے بھی ایسی کسی پیش رفت سے باخبر نہیں۔ بھارت
کے ساتھ آبی تنازعہ کو قومی مفادات کے عین مطابق بنانا انتہائی ضروری ہے۔
اس میں کسی سیاست یا پارٹی بازی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر بھارتی حکومت نے
مقبوضہ کشمیر میں ڈیموں اور بجلی گھروں کے تعمیر اور فوری تکمیل کے لئے
ہنگامی بنیادوں پر 16اربوں ڈالر مختص کئے ہیں ، تو پاکستان دنیا کو خبردار
کرنے میں کوتاہی کیسے کر سکتا ہے۔ بھارتی منصوبے ایک متنازعہ خطے میں جاری
ہیں۔اس کے ماحولیاتی اور انسانی پہلو بھی ہیں۔لاکھوں عوام کی زندگی داؤ پر
لگی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس خطے کو متنازعہ قرار دیا ہے۔اس
لئے پاکستان یہ کیس ماہرین کی مشاورت اور تیاری کے ساتھ عالمی سطح پر
اٹھانے میں آزاد ہے۔ جس میں مزید کسی کوتاہی کی گنجائش نہیں۔ |