ٹیکس کون نہیں دیتا؟ (حصہ دوئم)

ہم روز مرہ کی زندگی میں جو ٹیکس ادا کر رہے ہیں ان کے بدلے میں حکومت ہمیں کیا سہولیات دے رہی ہے اور کون سی سہولیات دینے کی پابند ہے ۔ کالم میں ان تمام باتوں کا مختصر مگر آسان الفاظ میں تذکرہ کیا گیا ہے تا کہ کم پڑھے لکھے قاری کی سمجھ میں بھی بات آ سکے

تحریر: شاہدمحمود

جن قارئین نے پچھلا کالم پڑھا ہے ان کو تو معلوم ہو گیا ہو گا کہ اس وقت پاکستان میں تقریباََ ہر فرد کسی نہ کسی ذریعے سے ٹیکس ادا کر رہا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ غریب ہر صورت میں ٹیکس دے رہا ہے اور امیر کے مقابلے میں زیادہ ہی دے رہا ہے کیونکہ اپنی آمدنی کے حساب سے وہ ہر چیز پر ٹیکس ادا کر رہا ہے چھپانے کے لیے اس کے پاس اثاثے ہی نہیں اور امیر طبقہ اپنی آمدنی کے حساب سے ٹیکس نہیں ادا کر رہا کیونکہ اس نے اپنے اثاثے یا تو کم بتائے ہوئے ہیں یا پھر ان کو مکمل طور پر چھپایا ہو ا ہے۔

یوٹیلیٹی بلوں پر ٹیکس کی تفصیلات آپ پڑھ چکے ہیں اس کے علاوہ ضروریات زندگی کی ہر چیز پر جو ٹیکس نافذ ہے وہ بھی آپ جان چکے ہیں ، اس کے علاوہ تقریباََ ہر بندے نے اپنا موبائل فون رکھا ہوا ہے اور کچھ عرصہ پہلے تک ہر فرد موبائیل فون استعمال کرنے پر 35 فیصد ٹیکس ادا کر رہا تھا اب کیس عدالت میں ہونے کی وجہ سے ہر بندہ موبائیل فون سروسز پر 8 سے 10 فیصد ٹیکس ادا کر رہا ہے جس کا علم صارفین کو نہیں جیسے آپ کی ہر کال پر 15 پیسے کال سیٹ اپ چارجز ہیں بیلنس چیک کرنے پر 12 پیسے آپ ادا کر رہے ہیں ، کوئی بھی پیکج لگائیں گئے تو ٹیکس کی رقم اس میں الگ سے شامل ہوتی ہے یعنی کہ اب بھی آپ ہر سو روپے کے کارڈ میں سے صرف 92 روپے خود استعمال کر سکتے ہیں گو کہ یہ ٹیکس زیادہ نہیں ہے لیکن ملک میں اس وقت موجود 10 کروڑ صارفین اگر اوسطاََ 20 روپے بھی استعمال کرتے ہیں تو 2 ارب روپے کمپنیوں کے پاس روزانہ جاتا ہے اور ان 2 ارب میں سے 16 کروڑ روپیہ ٹیکس کی مد میں جاتا ہے اب آگے یہ ٹیکس کمپنیاں حکومت کو ادا کرتی ہیں یا نہیں الگ ایشو ہے۔

اس کے بعد زیادہ استعمال ہونے والی اشیاء میں پٹرولیم مصنوعات ہیں جن پر ٹیکس کی شرح پچھلے عرصہ تک 32 فیصد تھی تازہ ترین شرح کا مجھے علم نہیں اس شعبے سے بھی ہر امیر و غریب کی جیب سے حکومت کے پاس کروڑوں روپے روزانہ کے اکٹھے ہوتے ہیں بلکہ موجودہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کچھ عرصہ پہلے اپوزیشن بنچوں پر تھے تو انہوں نے خود ہی کہا تھا کہ حکومت 46 روپے لیٹر پٹرول خرید کر 88 روپے میں بیچ رہی ہے اس حساب سے تو ٹیکس کی شرح 47 فیصد بنتی ہے،

مندرجہ بالا اشیاء کے علاوہ کاسمیٹکس، امپورٹد سامان اور دیگر پر تعیش اشیاء پر ٹیکس کی شرح 25 فیصد سے زیادہ ہے، یہاں پر اعداو شمار بیان کرنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ ان اشیاء پر ٹیکس کیوں لگائے گئے ہیں بلکہ یہ عام عوام کی آگہی کے لیے لکھا جا رہا ہے جن کو مشکل اعداو شمار کی ہیرا پھیری سے دھوکے میں رکھا جا رہا ہے اور ان کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ ٹیکس صرف وہی دیتا ہے جو فائلر ہے اور باقی لوگوں کے اوپر حکومت احسان کر رہی ہے ان اعداو شمار کو دیکھ کر ہم اندازہ لگائیں گئے کہ ان ٹیکسوں کی وجہ سے مجھے اور آپ کو کیا فائدہ مل رہا ہے اور کیا ملنا چاہیے اور مزید ٹیکس ریکوری کے لیے کن لوگوں پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔

قارئین کرام! ہم ہر جگہ اور ہر چیز پر جو ٹیکس دے رہے ہیں وہ قطعاََ غلط نہیں بلکہ کسی بھی ملک کو چلانے کے لیے ٹیکسوں کا منصفانہ نفاذ اور ان کی وصولی حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اور عوام کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ملک کی معیشت کو رواں دواں رکھنے کے لیے ٹیکسوں کے بارے میں معلومات رکھیں اور اشیائے ضروریہ کے علاوہ آپ کی آمدنی قابل ٹیکس ہے تو وہ بھی بروقت ادا کریں ، اس کے بدلے میں حکومت ہمیں مندرجہ زیل سہولیات دینے کی پابند ہے ورنہ اس کو ٹیکس نہیں بھتہ کہ سکتے ہیں ۔

غریب عوام کو علاج معالجے کی مکمل فری سہولیات مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ہسپتالوں میں اس مقصد کے لیے الگ سے شعبہ ہونا چاہیے جو غریب لوگوں کی نشاندہی کرے اور ان پر کم سے کم بوجھ لادے کیونکہ غریب بندے کے لیے یہی دو ،تین چیزیں مشکل ہوتی ہیں اور وہ پہلے سے ہی ہر چیز پر ان سہولیات کی امید میں ہی اپنی جیب کاٹ کر ٹیکس دے رہا ہے۔

نرسری سے میٹرک تک تعلیم خدمات مفت فراہم کرنا بھی حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے جس میں سکول کی کتابیں اور نوٹ بکس بھی شامل ہیں اور میٹرک کے بعد غریب بچوں کے لیے مفت تعلیم اور ذہین بچوں کے لیے وظائف مقرر کرنا بھی ٹیکس لینے والی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس سے بڑی انویسمنٹ کوئی بھی نہیں ہے اس سے ایک با شعور اور پڑھا لکھا پاکستانی تیار ہو جائے گا جو مستقبل میں حکومت کو کئی گناّ منافع کما کر دے سکتا ہے۔

جس معاشرے میں بے روزگاری بڑھ جائے وہاں جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا ہے اس لیے حکومت اگر سانس لینے پر بھی ٹیکس لے سکتی ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ بے روزگار پڑھے لکھے افراد کو اچھا روزگار مہیا کرے اور جب تک اس کے روزگار کا بندوبست نہیں ہوتا قانون سازی کر کے اس کو کسی محکمے میں رضا کار بھرتی کرے اور بدلے میں بے روزگاری الاؤنس دے اور جو لوگ کسی مجبوری کی وجہ سے تعلیم نہیں حاصل کر سکے ان کے لیے ہنر مندی کے کورسسز شروع کرے اور ہر یونین کونسل سے 5 سے 10 افراد کو تین تین ماہ کے کورس کروایے جائیں جس سے سالانہ 40 افراد بھی ایک یونین کونسل سے ہنر مند بن گئے تو یہ مہنگا سودا نہیں ہے، اس کے علاوہ جو لوگ بوڑھے ہو چکے ہیں اور اپنی پوری جوانی میں ہر چیز پر ٹیکس ادا کرتے رہے ہیں ان کو بڑھاپا الاؤنس دیا جائے اور ان کا علاج معالجہ بھی حکومت اپنے ذمہ لے۔

قارئین کرام! یہ تو وہ چیزیں تھیں جو بہت ہی ضروری ہیں اور ان پر ہم براہ راست کوئی ٹیکس نہیں دیتے لیکن کسی بھی مہذب اور کامیاب معاشرے پر نظر دوڑائیں تو یہ سہولیات وہاں پر اگر بالکل مفت نہ بھی دی جائیں تو ہر امیر غریب کی پہنچ میں ہیں لیکن اس کے علاوہ آپ کھانے پینے کی اشیاء ، پہننے کے کپڑے، ذرائع آمدورفت، بجلی گیس پانی کی سہولیات کے لیے ہر روز اپنی جیب سے ٹیکس ادا کرتے ہیں اس لیے ان باقی اشیاء پر آپ کو ملاوٹ سے پاک معیاری اشیاء ، اچھی سڑکیں ، بجلی اور گیس کا بلا تعطل اور جدید نظام فراہم کرنا حکومت کی صرف ذمہ داری نہیں بلکہ حکومت پر فرض ہے کہ وہ روزانہ کے حساب سے جو قرضہ آپ سے لے رہی ہے اس کو صحیح استعمال کر کے واپس آپ تک پہنچائے۔

اب یہ نئی حکومت کی ٹیم کے اوپر منحصر ہے کہ وہ ایسے افراد کو بھی ٹیکس نیٹ میں لائے جنہوں نے اپنا سرمایا بیرون ملک چھپایا ہوا ہے یا ملک کے اندر ہی اثاثے رکھ کر ان کو سامنے نہیں لا رہے ہیں اگر حکومت ٹیکس دہندگان میں اضافے پر کامیاب ہو جاتی ہے تو عام غریب انسان سے ٹیکس کا بوجھ کم ہو سکتا ہے جو سرچارج کی صورت میں اس پر لگائے گئے ہیں

Shahid Mehmood
About the Author: Shahid Mehmood Read More Articles by Shahid Mehmood: 23 Articles with 20999 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.