یومِ اساتذہ (5اکتوبر)

 سکول کی مسافت ڈھائی تین کلومیٹر تھی، سڑک کچی تھی، سکول گاؤں سے باہر تھا، چھوٹی چھوٹی کچی چار دیواری سے باہر کا منظر آسانی سے دکھائی دیتا تھا۔ اساتذہ کرام میں سے کوئی بھی سائیکل پر آتے ہوئے نظر آتے تو متعلقہ جماعت کے بہت سے لڑکے اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے سکول کے گیٹ کی طرف بھاگتے ، عین گیٹ میں استاد صاحب سائیکل سے اتر جاتے ، لڑکے سائیکل پر لپکتے کہ اسے سائیکل سٹینڈ پر کھڑا کر آئیں۔ یہ تصور بھی نہیں ہوتاتھا کہ استاد صاحب سائیکل پر سوار ہو کر سکول میں داخل ہوں گے، اور یہ بھی کبھی نہ ہوا کہ انہیں اپنی سائیکل خود سٹینڈ پر کھڑی کرنے کی نوبت آئی ہو۔ تقریباً تمام استاد ہی سائیکلوں پر آتے، اور تمام سے ہی گیٹ پر ان کی کلاس کے لڑکے سائیکل چھیننے کے انداز میں حاصل کرلیتے اور مقررہ جگہ پر کھڑے کر آتے۔ یہ اپنے استادسے شاگردوں کی محبت وعقیدت کا ایک انداز تھا۔ اساتذہ میں سے ہر مزاج کے لوگ تھے۔ ’’مار نہیں پیار‘‘ کا نعرہ ابھی ایجاد نہیں ہوا تھا، شاید ہی کوئی استاد ہوں تو نہ مارتے ہوں، اکثر اساتذہ کی اس ضمن میں باقاعدہ دہشت تھی، طلبا خوفزدہ رہتے تھے۔ اسی وجہ سے ڈسپلن تھا اور یہی وجہ تھی کہ تعلیمی معیار بہت بلند تھا۔ چند عشرے پیچھے کی جانب سفر کریں تو معلوم ہوگا کہ ٹیوشن کا کلچر بہت ہی کم تھا۔ شہر ہو کہ دیہات بہت سے اساتذہ سردیوں میں سکول ٹائم کے بعد بھی کلاس لیا کرتے تھے۔ ان کے جس مضمون میں بچے کمزور ہوتے اسی کو اضافی وقت دیا جاتا۔

سردیوں میں جب صبح ہاتھ سردی کی شدت سے اکڑ جاتے تھے، تو تاخیر سے پہنچنے پر مرمت کے خطرے کی تلوار سر پر لٹک رہی ہوتی تھی، ریلوے لائن کے گارڈر کے ٹکڑے کی بنی ہوئی گھنٹی کی آواز بہت دور تک جاتی تھی، مگر کبھی لیٹ ہو جاتے تو پی ٹی آئی صاحب ڈنڈا اٹھائے استقبال کے لئے گیٹ پر ہی موجود ہوتے تھے، ٹھٹھرے ہاتھوں پر ڈنڈے کھاتے، ہاتھ مسلتے کلاس میں جاتے تو بھی (ہوم ورک نہ کرنے کی صورت میں) یہ خوف سر پر سوار رہتا تھا ، منیر نیازی کے اس شعر کی مصداق کہ ’’اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو۔۔ اک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا‘‘۔ مگر یہ عجب کہانی ہے کہ ماریں کھانے کے باوجود شاگرد کبھی بدمزہ نہیں ہوئے، گویا یہ اپنے استاد سے محبت اور عقیدت کاہی کرشمہ تھا۔ بہت ہی کم ایسا ہوتا تھا کہ اساتذہ کی شکایت لگتی اور کوئی والد سکول میں کسی استاد کے مدمقابل کھڑا ہوتا۔ طلبا سے بڑھ کر اُن کے والد اور دوسرے بڑے اساتذہ کی عزت کرتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ معاشرے میں سب سے زیادہ عزت استاد کی ہی ہوتی تھی، بے جانہ ہوگا۔ اگرچہ بہت سے دیگر طبقات کی بھی عزت بہت کی جاتی ہے، مگر کسی مفاد یا ضرورت کے پیشِ نظر یا پھر عارضی اور وقتی طور پر۔ مگر استاد وہ ہستی ہے، جس کی عزت و احترام بچپن سے ہی ذہن میں راسخ ہو چکی ہے۔ اب سکول کے زمانے گزرے صدیاں بیت چکی ہیں، مگر اپنے سے کم عمر استاد کو بھی وہی احترام دیا جاتا ہے، جو ہم لوگوں نے اپنے اساتذہ کو دیا تھا، گویا یہ عادت ایک آفاقی سچائی بن کر حیاتِ مستعار کا لازمی جزو بن چکی ہے۔ بہت سے اساتذہ کم تعلیم یافتہ تھے، مگر علمیت، محنت، خلوص اور فرض شناسی کی داستانیں مشہور تھیں۔ تحصیلِ علم سے فراغت کے بعد عام لڑکا بھی گرامر ، زمانوں کے رموز، املا، معلومات وغیرہ میں راسخ ہو جاتا تھا۔ تب کے یاد کئے ہوئے پہاڑے آج بھی زبان پر رواں ہو جاتے ہیں، اب یہ ذمہ داری کیلکولیٹر نے سنبھال لی ہے۔ گرامر کے بتائے ہوئے اصول ابھی تک یاد ہیں۔

سکول میں شجر کاری اور صفائی وغیرہ کے نام سے ہفتہ منایا جاتا تھا، اساتذہ بھی لڑکوں کے ساتھ ہر کام اپنے ہاتھوں سے کرتے تھے، سکول کے چھوٹے موٹے کام تو عام بات ہے، اساتذہ کے ذاتی کام بھی لڑکے بہت شوق سے کرتے تھے۔ وہ زمانہ گزرے بہت زیادہ برس نہیں ہوئے کہ لوگ اپنے نام کے ساتھ ’’بی اے‘‘ لکھتے تھے۔ بی اے کی قدر کچھ کم ہوئی تو یار لوگوں نے ’’ایم اے‘‘ کو اپنے نام کا حصہ بنا لیا، اب وقت برق رفتاری سے گزر رہا ہے، کچی سڑکیں اور اساتذہ کے سائیکل ماضی کی داستانیں بن چکی ہیں، سکولوں میں ’’مارنہیں پیار‘‘ کا زمانہ آگیا ہے، سکول ٹائم کے بعد پڑھانے کا رواج دم توڑ چکا ہے، سکولوں میں (سکول کا ہی) کام کروانا ناقابلِ معافی جرم ہے۔ طلبا کی عزتِ نفس کے چرچے ہیں۔ حکومتوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود اساتذہ اپنے سکولوں میں توجہ دینے کی بجائے زیادہ توجہ شام کی اکیڈمی پر دیتے ہیں، شہر کی کسی بھی آبادی والی سڑک پر نکل جائیں، بیسیوں موٹر سائیکلیں قطاروں میں کھڑی ہوں گی، اگر سکولوں میں تعلیم پر توجہ ہو تو شام کی یہ رونقیں ماند پڑ جائیں۔(یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ اِ ن میں سے پچانوے فیصد موٹر سائیکل تیرہ سے سولہ سال کی عمر کے بچے چلا کر لاتے ہیں)۔
آئی ٹی کی ترقی نے برق رفتاری کے لفظ کو حقیقی معانی پہنا دیئے ہیں، پرانی کہانیاں دقیانوسی ہوگئیں، زمانے کے تقاضے اور ضرورتیں بدل گئیں۔ گویا ’’زمانہ چال قیامت کی چل گیا‘‘۔ مگر اب ’’بی اے‘‘ تو کون اپنے نام کے ساتھ لکھے گا؟ اب تو ایم اے کی بھی اہمیت وہ نہیں رہی کہ کوئی اسے اپنے نام کے ساتھ لکھنا پسند کرے۔ اب یہ بتانے میں شاید کچھ فخر محسوس کیا جاتا ہے کہ فلاں مضمون میں ایم فل ہو رہا ہے، کچھ تو ایم فِل تک ہی علم سے فُل ہو جاتے ہیں، کچھ مزید ہمت کرکے پی ایچ ڈی کر لیتے ہیں۔ صدمہ اس وقت پہنچتا ہے، جب ہر ڈاکٹر بہت ہی محدود علم کے دائرے میں سپیشلشٹ کہلاتا ہے۔ ڈگریاں بڑی ہورہی ہیں، معلومات، اقدار اور احترام وغیرہ جیسی اجناس ناپید ہو رہی ہیں۔ اب تو ایک ڈپٹی کمشنر بھی ضلع بھر کے انتظامی اساتذہ سے خطاب کرتے ہوئے دھمکی دیتا ہے، کہ سیدھے ہو جاؤ، ورنہ میں سیدھا کرنا جانتا ہوں۔ اور وزیر تعلیم کہتا ہے کہ اگر یوں ووں ہوا تو جیل جانے کے لئے تیار رہیں۔ ترقی نے بہت کچھ دیا ہے، مگر استاد کی عزت چھین لی ہے۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 424569 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.